پنجابی اکھان ، ردیف “ک” ، نمبر 35 – 26

پنجابی اکھان، ردیف ” ک ” نمبر 35 – 26

اکثر پنجابی اکھان ، ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہماری راہنمایُ کرتے دکھایُ دیتے ہیں. یہ اور بات ہے کہ ہم انہیں نظر انداز کرتے رہتے ہیں. یہ اس لیےُ ہوتا ہے کہ ہم سارے پنجابی اکھان یاد نہیں رکھ سکتے یا ایسے بعض پنجابی اکھان کا ہمیں علم ہی نہیں ہوتا. ایسے پنجابی اکھان سے پُوری طرح استفادہ حاصل کرنے کے لیےُ ہمٰیں موقع محل کے مطابق پنجابی اکھان یاد ہونے چاہییُں .

ردیف ک کے مزید پنجابی اکھان پڑھیےُ

 

نمبر 26 – کھلون جوگی تھان دیہ باہن جوگی بنا لاں دا
مجھے کھڑے ہونے کے لیےُ تھوڑی سی جگہ دے دیں، بیٹھنے کے لیےُ میں خود جگہ بنا لوں گا.
ایک عربی اور اس کے اونٹ کی کہانی تو آپ نے سنی ہو گی. ایک عرب سفر پر نکلا . راستہ صحرایُ تھا. رات آ گیُ. عربی خیمہ گاڑ کر لیٹ گیا. صحرا میں رات کو سردی بہت ہوتی ہے. آدھی رات کو سردی زیادہ ہونے پر اونٹ نے عربی سے کہا ” باہر بہت سردی ہے، اگر اجازت دو تو میں اپنا سر خیمہ کے اندر کر لوں ؟” عربی نے اجازت دے دی. کچھ دیر بعد اونٹ پھر بولا ” باہر بہت سردی ہے، اجزت دو تو میں اپنی گردن خیمہ کے اندر کر لوں ؟ “. عربی نے اجازت دے دی. صبح تک اونٹ خیمہ کے اندر تھا اور عربی باہر.
مندرجہ بالا کہاوت ایسے ہی موقعوں پر بولی جاتی ہے.

نمبر 27 – کُھوہ وگدیاں ساک ملدیاں
کنواں چلتا رہے تو کنواں کہلاتا ہے، ببند ہو جاےُ تو ڈل بن جاتا ہے. اسی طرح رشتہ دار ملتے رہیں، تو رشتہ داری قایُم رہتی ہے.

نمبر 28 – کھانا ساگ تے پھُوسیاں میدے دیاں
کھایا تو ساگ ہے، ہوا خارج ہونے پر کہتے ہو واہ کیا میدے کی خوشبو آیُ ہے.
شیخی خور کو اس کی اوقات یاد دلانے کے لیےُ یہ کہاوت خوب ہے.

نمبر 29 – کھایےُ من بھانا پایےُ جگ بھانا
کھانا بے شک اپنی مرضی کا کھاؤ، لیکن پہناوا وہی ہونا چاہیےُ جو رواج کے مطابق اچھا لگے.

نمبر 30 – کُھوہ تے تھانے وچّوں کویُ سُکّا نہیں نکلیا
کنویُں میں گرنے والا اور تھانے گیا ہؤا شخص وہاں سے ایسے ہی نہیں نکلتا. یا تو کپڑے گیلے ہونے کے بعد نکلتا ہے یا پھر اپنی جیب خالی کروا کر نکلتا ہے.
کنویًُ میں گرنے والے شخص کے کپڑے تو گیلے ہو ہی جاتے ہیں ، اگر سردی کا موسم ہو تو ممکن ہے اسے نمونیہ ہو جاےُ. اسی طرح جس کسی کو پولیس پکڑ کر تھانے لے گیُ، وہ بالکل نواں نکور تو وھاں سے واپس نہیں آےُ گا. مالی اور بدنی نقصان دونوں ہو سکتے ہیں.

نمبر 31 – کڑیاں ، چڑیاں، بکریاں تریوے ذاتاں وکھریاں
لڑکیاں، چڑیان اور بکریاں ہر وقت کچھ نہ لچھ کھاتی اور چرتی رہتی ہیں. اس لحاظ سے تینوں دوسروں سے مختلف ہیں.

نمبر 32 – کوڑا تھو تھو مٹھا ہپ ہپ
میٹھی چیز تو مزے سے ہپ ہپ کرتے کھا جاتے ہو. اور کڑوی کو تھوک دیتے ہو.
خوشحالی میں ساتھ دینے والے اور بدحالی میں ساتھ چھوڑنے والے کے میعلق یہ کہاوت بنی ہے.

نمبر 33 – کھبّی وکھا کے سجّی ماری
کہا تو تھا کہ تمہین بایُں ہاتھ سے ماروں گا، ( بایُں ہاتھ کی چپت عموماُ پلکی ہوتی ہے ) لیکن جب مارنے پر آےُ تو دایُں ہاتھ سے مارا. (دایُں ہاتھ کی چپت زوردار ہوتی ہے ).

نمبر 34 – کدی حسّے دا سر نہیں کدی حسّے دی بانہ نہیں
حسّے کا کبھی تو سر نہیں بنتا، سر بن جاےُ تو بازو نہیں بنتا.
پرانے زمانے مین دیہات کی چھوٹی چھوٹی لڑکیان ریت پر ایک آدمی بناتی تھیں ، جس کا نام انہون نے ” حسّا ” رکھا ہؤا تھا. لڑکیاں چھوٹی ہوتی تھیں، صحیح تصویر نہ بنا سکتی تھیں. کبھی اس کا سر صحیح طرح نہیں بنتا تھا، سر بنا تو بازو ٹھیک نہیں. تھک کر کہتی تھیں ” کدی حسّے دا سر نہیں، کدی حسّے دی بانہ نہیں ” حسّا ایسے ہی ایک فرضی نام تھا.
جب کویُ کام صحیح طور پر سر انجام نہ دیا جا سکے ، یا کام میں کبھی ایک خرابی نظر آےُ ، وہ دور کر دی جاےُ تو دوسری خرابی ظاہر ہو جاےُ. ایسے موقعون پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے.
جون ایلیا کی زبان مین یہ کہاوت کچھ یوں ہے

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
ہر روز  اک  چیز ٹوٹ  جاتی ہے

نمبر 35 – کھوتے دا مدعا کمہار تے
نقصان تو گدھے نے کیا، نقصان کے معاوضہ کا مطالبہ گدھے کے مالک کمہار سے کر دیا.
کسی شخص نے کمپارسے گدھا مستعار لیا کہ ساتھ والے گاؤں سے گندم لانی ہے. واپسی پر دانوں کی بوری میں سوراخ کی وجہ سے کافی دانے زمین پر گرتے رہے. اس شخص نے کمہار سے مطالبہ کر دیا کہ میرا نقصان پورا کرو. اس میں گدھے یا کمہار کا کیا قصور !.
دیہات میں کمہار لوگ تین یا چار گدھے رکھتے ہیں ، جن سے وہ ڈھوایُ کا کام لیتے ہیں. زمیندار اپنے کسی کام کے کیےُ ان سے ایک آدھ گدھا مستّعار لے لیتے ہیں.

پنجابی اکھان ردیف ک ، نمبر 25-17   پڑھنے کے لیےُ اس لنک پر کلک کریں.

جاری ہے

Leave a Reply