پنجابی اکھان ، ردیف “د” نمبر 17 – 11

پنجابی اکھان ، ردیف   د . نمبر 17 – 11

ہر ایک پنجابی اکھان کے پیچھے ایک مکمل کہانی ہوتی ہے. اس کہانی کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی. گفتگو کے دوران موقع محل کی مناسبت سے جب کویُ ہنجابی اکھان بولا جاتا ہے، تو تو اکھان گویا پوری گفتگو یا بحث کا نچوڑ یا نتیجہ ظاہر کر دیتا ہے. بحث میں حصّہ لینے والے کچھ دیر چُپ رہ کر بیان کردہ اکھان اور گفتگو یا بحث کا نتیجہ نکالتے ہیں. اور پھر گفتگو یا بحث کا فیصلہ سُنا دیا جاتا ہے. پنجابی اکھان ردیف د نمبر 10-6 سے دلچسپی رکھنے والے حضرات اس لنک پر کلک کریں.

ردیف د سے شروع ہونے والے پنجابی اکھان سُنیےُ :

 

نمبر -11 داڑھی نالون مچھّاں ودھ گیُاں نے
مونچھیں ہمیشہ داڑھی سے چھوٹی ہوں تو اچھّی لگتی ھیں. مونچھیں داڑھی سے بڑھ جایُں تو عجیب معلوم ہو گا.
جب کسی چیز پر اس کی اصل قیمت سے زیادہ خرچ ہو جاےُ یا اس کی حفاضت پر زیادھ خرچ ہو جاےُ تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے.

نمبر 12 – دینی دھیلی لکھنی حویلی
دینے کو صرف آٹھ آنے دےُ اور لکھ لیا کہ اگر اٹھنّی مقررہ وقت پر ادا نہ کی تو اس کے بدلے حویلی لوں گا.
متحدہ ہندوستان میں کسانوں کو بنیےُ جس طرح لوٹتے تھے، یہ اس کی ایک مثال ہے. بنیا دیتا تو ایک دھیلی تھا (آٹھ آنہ کے سکّے کو دھیلی کہتے تھے) لیکن اپنے بہی کھاتہ میں لکھتا کہ بر وقت ادایُگی نہ کر سکنے پر کسان اپنی حویلی بنیےُ کو دے دے گا. اور ان پڑھ کسان سے انگوٹھا لگوا لیتا. اس زمانے میں کسانوں کے پاس پیسہ نہیں ہوتا تھا. حتّے کہ اپنی زمین کا مالیہ دینے کے لیےُ وہ بنیےُ سے ادھار لیتے تھے. جس کی ادایُگی نہ ہونے پر بنیا اس سے اس کی زمین اپنے نام انتقال کروا لیتا تھا.

نمبر – 13 دوہترا ستّیں پیڑھی ویری
نواسہ سات پشتوں تک مخالف بن سکتا ہے.

نمبر – 14 دو پیّاں وسّر گیاں یاراں دیاں دُور بلاییُں
دو چار تھپّڑ پڑ گیےُ تو کیا ہؤا ھم بھول گےُ. اب اس بے عزتی پر اہنی جان کیوں ہلکان کریں.
اردو زبان کا محاورہ ” چکنا گھڑا ” اس کہاوت کا صحیح مفہوم ادا کرتا ہے.

نمبر – 15 دودھ تے دتّا ای پر مینگناں پا کے
دودھ تو تم نے ضرور دیا، لیکن اس میں مینگنیں ڈال دیں. اب یہ کسی کام کا نہیں.
ایک شخص اپنی بکری کا دودھ دوہ رہا تھا کہ بکری نے مینگنین کرنی شروع کر دیں . کچھ مینگنین دودھ میں بھی گر گیُں اور دودھ بیکار ہو گیا.
جب کسی شخص کو کویُ کام دیا جاےُ اور اسے بگاڑ دے تو ایسے ہی موقعوں پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.

نمبر – 16 دوجے چن چنوچنے چن جے لکھّن وال دا
موضع لکھّن وال کے علاوہ دوسرے علاقوں میں دکھایُ دینے والا چاںد تو چھوٹا سا ہوتا ہے بڑا چاند تو صرف لکھّن وال میں ہی دکھایُ دیتا ہے.
یہ پتہ نہین کہ مکھّن وال کی فضا اور اس کے محل وقوع میں کیا خصوصیّت ہے کہ وھاں پر چاند بڑا اور خوبصورت دکھایُ دیتا ہے.اسی لیےُ تو وہاں دکھایُ دینے والے چاند کی اتنی تعریف کی گیُ ہے.
فارسی زبان کا محاورہ ” ہم چوں ما دیگرے نیست ” یعنی ہمارے جیسا کویُ نہیں ہے. اس کہاوت کے معنی کے نزدیک ہے.

نمبر – 17 دو گھراں دا پراہنا بھکھّا رہمدا اے
کویُ آدمی کسی کے گھر جاےُ ، تو گھر والوں کو پتہ ہوتا ھے کہ ہم نے مہمان کی خدمت کرنی ہے، اسے کھانا وقت پر دینا ہے، اس کے آرام کا خیال رکھنا ہے. اور اگر وہ مہمان کسی دوسرے گھر چلا جاےُ ، تو پہلے گھر والے سمجھیں گے کہ مہمان دوسرے گھر چلا گیا ہے . دوسرے گھر والے سمجھیں گے کہ یہ پہلا گھر کا مہمان ہے ، اور اس کی پوری خدمت نہیں کریں گے. شاید کھانا بھی نہ کھلایُں. اور اس طرح دو گھروں کا مہمان بھوکا رہ جاےُ گا.

جاری کے.

Leave a Reply