پنجابی اکھان، ردیف “ک‌” نمبر 25 – 17

پنجابی اکھان، ردیف ” ک ” نمبر 25 – 17

دیہات میں عمومآ رات کو گاؤں کی پنچایت بیٹھتی ہے اور گاؤں کے لوگوں کے آپس میں پیدا ہونے والے چھوٹے موٹے جھگڑوں اور اختلافات کو نمٹاتی ہے.یہ پنچایت کافی لوگوں پر مشتمل ہوتی یے. پنجابی اکھان سُننے کی لیےُ یہ جگہ بہترین ہے. لوگ اپنے دلایُل کے ساتھ ، گفتگو کو متاثر کُن بنانے کے لیےُ پنجابی اکھانوں کا حوالہ دیتے ہیں. جو عمومآ گفتگو کے عین مظابق ہوتے ہیں.

ردیف ک کے مزید پنجابی اکھان پڑھیےُ؛

 

نمبر 17 – کبّے نوں لت کاری آ گیُ
کسی شخص نے کسی وجہ سے غصّے میں آ کر ایک کبڑے کو زور سے لات مار دی، جو اس کی پیٹھ پر لگی.ردعمل کے طور پر کبڑے کی کمر سیدھی ہو گیُ. اور کبڑا پن دور ہو گیا.
جب کسی کو سزا کے طور پر کویُ کام دیا جاےُ یا ایذا دی جا ےُ،جس سے اس کی کویُ نہ کویُ کمی دور ہو جاےُ، تو ایسے موقعون پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.

نمبر 18 – کتھّے دلّی اے جتھّے مغلاں جانا اے
دیکھو تو بھلا ابھی دلّی کتنی دور ہے جہاں ہم نے جانا ہے.
ظہیر الدین بابر جب ہندوستان کی ترف چلا تو اس کے کچھ ساتھی راستے میں تھک گیےُ . بابر نے ان کی ہمّت بندھایُ.، کہ دیکھو دلّی بہت دور ہے جو ہماری منزل ہے. اٹھو اور ہمت نہ ہارو.
جب کویُ بہت مشکل آ پڑی ہو اور اسے دور کرنا بھی ضروری ہو، تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.

نمبر 19 – کراڑ ہووے یار دشمن دھار نہ دھار
اگر کویُ بنیا آپ کا دوست ہے تو آپ کو کسی کو دشمن بنابے کی ضرورت نہیں. یہ ایک دوست ہی آپ کو تباہ کرنے کے لیےُ کافی ہے.
مرزا غالب نے اسے یوں بیان کیا ہے
ہوےُ تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

نمبر 20 – کھرل دی پکھّی نہ گھن نہ مکھّی
کھرلوں کے چھپّر دیکھو، ان چھپروں کو نہ گھن لگتا ہے ، نہ ان کے اندر کویُ مکھی آتی ہے.
پرانے وقتون میں ساندل بار کے دیگر خانہ بدوش قبایُل کی طرح کھرل قبیلہ کے لوگ بھی پکّی چھت کی بجاےُ چھہر تلے سونا پسند کرتے تھے. روایت کے مطابق سلیمان علیہ السلام نے انہیں پکّی چھت والے گھروں میں رہنے سے منع کیا تھا. کہا تھا کہ ایسا کرو گے تو مارے جاؤ گے.
یہ کہاوت بہت پرانے زمانے کی ہے. آج کل زمانہ بدل گیا ہے.

نمبر 21 – ککڑ کھیہ اڈاوے اپنے ای سر تے پاوے
مرغ جب اپنے پاؤں سے مٹّی اڑاتا ہے تو وہ اس کے اپنے ہی سر پر پڑتی ہے.
آپ نے کبھی مرغ کو اپنے پاؤں کے ناخنوں سے مٹّی اڑاتے دیکھا ہے ؟ مرغ اپنے ناخنوں سے جو مٹّی کھود کر پیچھے پھینکتا ہے وہ مٹّی زیادہ تر اس کے اپنے ہی سر پر پڑتی ہے. مرغ ایسا کیوں کرتا ہے ؟ مجھے تو علم نہیں.
یہ کہاوت ایسے موقعوں پر بولی جاتی ہے جب کسی کا کیا اس کے اپنے ہی پلّے پڑ جاےُ.

نمبر 22 – کاں، کمبوہ، قلال قبیلہ پالدا
جٹ، سنڈھا، سنسارقبیلہ گالدا              
کوّا، کمبوہ قبیلہ سے تعلق رکھنے والا شخص اور نقلیں اتار کر روزی کمانے والا قلال، یہ سب اپنے خاندان کا بڑا خیال رکجتے ہیں.
اس کے برعکس جاٹ، بھینسا اور مگر مچھ تینوں اپنے خاندان کو تباہ کعنے والے ہوتے ہیں. اس مضمون کو وارث شاہ نے یوں بیان کیا ہے
جٹ، سنڈھے ، سنسار توں بھکھ چنگی، تنّے رج کے ٹابری گال دے وے
ککّڑ، کاں، کمبوہ سلوک تنّاں، اہنہاں نال نہ کسے برابری وے
( جاٹ، بھینسا اور مگر مچھ تینوں بھوکے رہیں تو مستی نہیں کرتے. پیٹ بھر جانے پر اپننے ہی خاندان کی تباہی والے کام شروع کر دیتے ہیں.
مرغ، کوّا اور کمبوہ خاندان کا آدمی ، تینوں کا اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھّا سلوک ہوتا ہے. اس معاملے میں ان تینوں کا کویُ ہمسر نہئں ).

نمبر 23 – کاہلے اگّے کنڈے

کویُ بھی کام جلدی جلدی کرنے والوں کو کانٹوں سے واسطہ پڑتا ہے.
کویُ بھی کام شروع کرنے سے پہلے اس کی اونچ نیچ، نفع و نقصان، مشکلات وغیرہ کو مد نظر رکھنا چاہیےُ. بغیر سوچے سمجھے کسی کام میں ہاتھ ڈالنے سے نقصان کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے.

نمبر 24 – کھینوں پھولیےُ تاں لیراں ای نکلدیاں نے
دیہات کے بنے ہوےُ گیند کو ادھیڑا جاےُ تو اس کے اندر سے پرانے کپڑوں کی کتریں ہی نکلیں گی. جو کسی کام کی نہیں ہوں گی.
کچھ عرصہ پہلے دیہات میں کھیلنے کے لیےُ پرانے ناکارہ کپڑوں سے گیند بناےُ جاتے تھے ..پرانے اور ناکارہ کپڑون کے ٹکڑے لے کر نہیں ایک دوسرے کے اوپر لپیٹ کر گیند کی شکل بنا لیتے تھے. اس کے اوپر سویُ دھاگے سےاس طرح سلایُ کرتے کہ پورے گیند پر چھوٹے چھوٹے مربع خانے بن جاتے..اس عمل کو ” پڑیاں بنانا ‘ کہتے تھے. پڑیاں بنانے کے بعد گیند کافی ٹھوس ، مضبوط اور خوبصورت بن جاتا .اب اگر دیکھنے میں خوبصورت گیند کو ادھعڑا جاےُ تو اندر سے ناکارہ اور پرانے کپڑوں کی کتریں ہی نکلیں گی.
کسی قضیّہ کا تصفیّہ کرتے وقت اگر ایک پارٹی پرانی رنجشیں دہرانی شروع کر دے، تو ایسے وقت یہ کہاوت کہی جاتی ہے.

نمبر 25 – کدی چاچ کیاں کدی باب کیاں
آج چچا کی باری ہے ، تو کل تایا کی بھی باری آےُ گی ، دیہات میں تایا کو ” بابا ” کہتے ہیں. چاچ چچا کا، اور باب بابا کا مخخف ہے. یہ کہاوت عموماّ اس وقت کہی جاتی ہے  …جب یہ بتانا مقصود ہو کہ باری سب کی آتی ہے. یعنی کل تم، آج ہم.

پنجابی اکھان ردیف ک ، نمبر 16-7    پڑھنے کے لیےُ یہاں کلک کریں.

 جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *