Pakistan Flag.

میری آواز سُنو – پارلیمانی یا صدارتی طرز حکومت

میری آواز سُنو.
پارلیمانی یا صدارتی طرز حکومت.

ملک عزیز میں آج کل یہ بحث چل نکلی ہے کہ ملک میں صدارتی طرز حکومت ہونی چاہیےُ. یہ شوشہ حکومتی پارٹی کے ارکان کی طرف سے عوام کی توجّہ بڑھتی ہُویُ مہنگایُ ، خراب ملکی حالات ، فروغ پاتے گالی گلوچ کے کلچر اور غیر محفوظ زندگی کے طوفان سے ہٹانے کے لیےُ چھوڑا گیا ہے. اس سے پہلے ہم صدارتی طرز حکومت کا تجربہ کر چکے ہیں. یہ آرٹیکل اسی تناظر میں لکھا گیا ہے .

عنوانات ::
نمبر 1 — موجودہ پارلیمانی طرز حکومت –
نمبر 2 — مجوزہ مجوزہ طرز حکومت.

یہ کہنا کہ پارلیمانی طرز حکومت ہمارے ملک کے لیےُ اچھا ہے اور صدارتی طرز حکومت اچھا نہیں صحیح نہیں. دونوں طرز حکومت میں اچھایُاں ہیں اور بُراییُاں بھی. در ااصل براییُاں چلانے والوں میں ہوتی ہیں. ہمیں وہ طرز حکومت اپنانا چاہیےُ جو ہمارے ملک کے لیےُ فایُدہ مند ہو.نہ کہ کسی فرد یا ٹولے کے لیےُ.
پالیمانی طرز حکومت کسی طرح بھی 100 % پرفیکٹ نہیں. ہم اس میں خرابیوں کو دور کر کے اسے قابل عمل بنا سکتے ہیں دونوں طرز حکومت آسمانی صحیفہ نہیں کہ ان میں رد و بدل نہ کیا جا سکے.
دونوں طرز حکومت میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ” ان میں بندوں کو گنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا ” ایک ان پڑھ اور ایک پی ایچ ڈی پروفیسر دونوں کا ایک ایک ووٹ ہے. اور یہی چیز سوچنے والی ہے.

موجودہ پارلیمانی طرز حکومت “

اس وقت ہمارے ملک میں پارلیمانی طرز حکومت ہے. اس میں صوبایُ اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ممبران کو عوام چنتے ہیں، اس کے بعد ان کا کام ختم ہو جاتا ہے . انہیں دوبارہ عام انتخابات یا کسی ممبر کی وفات یا کسی وجہ سے نا اہل ہونے کی صورت میں ووٹ دینے ہوتے ہیں.

صوبایُ اور قومی اسمبلیوں کے ممبران مل کر وزیر اعظم کا انتخاب کرتے ہیں. اس کے علاوہ سینٹ کے ممبران کو قومی اسمبلی میں پارٹی کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے. ( یہاں ووٹوں کی خرید و فروخت اب قابل مذمت نہیں سمجھی جاتی)

ملک کے چاروں صوبایُ اسملیوں کے ممبران، قومی اسمبلی کے ممبران اور سینٹ کے ممبران ملک کے صدر کا انتخاب کرتے ہیں.

منتخب وزیر اعظم اپنی صواب دید پر صوبوں کے گورنروں کا تقرر کرتا ہے.
وزیر اعظم اپنے وزراُ کا تقرر کرتا ہے، ( آج کل وزیر اعظم کے وزرا اور مشیروں کی تعدا 53 کے لگ بھگ ہے ).

صوبوں کے گورنروں کو اپنے وزرا چننے کا قانونآ حق ہے لیکن گورنر اس کے لیےُ وزیر اعظم سے مشورہ ضرور کرتے ہیں.

موجودہ حالات میں عوام 4 یا 5 سال کی مدت میں صرف ایک دفعہ ہی ووٹ ڈالتے ہیں، باقی چیزوں سے وہ لا تعلق ہو جاتے ہیں .

پارلیمانی نظام میں ، موجودہ دور کو دیکھتے ہوےُ، ھارس ٹریڈنگ اور کرپشن کی بہت گنجایُش ہے . ہم اسی نظام کے اندر رہتے ہوےُ اسے بہتر بنا سکتے ہیں. جیسے میں نے پہلے کہا ہے کہ پارلیمانی یا صدارتی نظام آسمانی صحیفہ نہیں ہیں. ہم دونوں نظام سے اچھی چیزیں لے کر اپنے ملک کو ترقی یافتہ، خوشحال اور مضبوط بنا سکتے ہیں اس کے لیےُ کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں :

مجوزہ طرز حکومت:

نمبر 1 : ملک میں سب سے پہلے مقامی حکومتیں قایُم ہوں. انہیں ٹیکس لگانے کے اختیارات ہوں. ان ٹیکسوں سے حاصل ہونی والی آمدنی اسی علاقے کے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہو. ان کی اپنی پولیس فورس ہو، جسے پولیس کے اختیارات حاصل ہوں.

نمبر2. صوبایُ اسمبلی کے امیدوار کی تعلیم کم از کم بی اے پاس ہونی چاہیےُ. کامیاب ہو کر یہ صوبہ کے لیےُ قانون بناےُ گا، یا قانونی بحث میں حصہ لے گا. اسے کچھ تو سمجھ ہونی چاہیےُ. انگوٹھا چھاپ امیدوار قابل قبول نہیں. کسی ادارے یا محکمہ میں اگر چپڑاسی رکھنا ہو اس کے لیےُ میٹرک تک یعلیم یافتہ ہونا ضروری ہوتا ہے. صوبایُ اسمبلی کے امیدوار کے لیےُ ، جو منتخب ہونے کے بعد صوبے کے لیےُ قانون بنانے میں حصہ لے گا ، اسے تو زیادہ تعلیم یافتہ ہونا چاہیےُ.

نمبر 3 : عام انتخابات ” متناسب نمایُندگی : کے اصول پر ہونے چاہییُں. یعنی عوام اپنا ووٹ کسی فرد کی بجاےُ کسی سیاسی پارٹی کو دیں. اس بارے میں اصول وضع کیےُ جا سکتے ہیں.

نمبر 4 : قومی اسمبلی کے امیدوار کو کم از کم ایم اے پاس ہونا چاپیےُ. یہان زیادہ تعلیم یافتہ اور سمجھدار ممبران کی ضرورت ہوتی ہے. امیدوار صرف اس حلقہ سے انتخاب لڑ سکے، جہاں اس کا ووٹ ہو . اور وہ صرف ایک ہی حلقہ سے امیدوار ہو. ایک سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑنا ممنوع ہو. یہ رعایت قطعآ نا انصافی پر مبنی ہے. اور عوام پر مسلط رہنے کی ایک چال ہے.

نمبر 5 : . وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا جاےُ. اس طرح بے بہا اخراجات کی بچت ہوگی.

نمبر 6: صوبے کا گورنر عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہو. اس طرح غیر مناسب جوڑ توڑ اور صوبے کے لیےُ مناسب گورنر چننے میں آسانی ہوگی. گورنر کے لیےُ ایم اے تک تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہو. اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہونا صوبے کے لیےُ فایُدہ مند ہو گا.

صوبے کا انتظام گورنر چلاےُ. وزیر اعلے نہیں ہو گا. اس طرح اخراجات میں بچت ہو گی.اور ھارس ٹریڈنگ نہیں ہو گی.

صوبہ کا انتظام چلانے کے لیےُ گورنر 12 سے زیادہ وزیر نہیں رکھ سکے گا. کویُ مشیر نہیں رکھا جاےُ گا. وزیروں کو اپنے اپنے محکموں کے متعلق مہارت اور علم ہونا چاہیےُ. یہ نہ ہو کہ خزانہ کی وزارت کسی کھلاڑی کو دے دی جاےُ.گورنر اپنے وزیر چنے ، اور ان وزرا کے تقرر ایک کمیٹی دے.

نمبر 7 : سینٹ ممبران کا انتخاب بھی عوام کریں. چاروں صوبوں سے ممبران کی تعداد مساوی ہو.

نمبر8 : مرکزی اور صوبایُ حکومتوں کا صرف ایک ایک ترجمان ہو.

نمبر 9 : دوہری شہریت کے حامل اشخاص کسی صوبایُ، قومی اسبلی اور سینٹ ممبرکا انتخاب لڑنے کے نااہل ہونے چاہییُں. کسی بھی غیر ملکی کو کویُ بھی عہدہ نہ دیا جاےُ. پنے ملک میں ذہین لوگوں کی کمی نہیں.

نمبر 10 ..صوبایُ، قومی اسمبلی یا سینٹ کا کویُ بھی ممبر لگاتار 3 اجلاس سے غیر حاضر ہو تو اس کی رکنیت منسوخ کر دی جاےُ.

ملک کے صدر کا انتخاب براہ راست عوام کریں. صدر ہی ملک کا انتظام چلاےُ. وزیر اعظم کی ضرورت نہیں. اس طرح بہت زیادہ بچت ہوگی. صدر کو شتر بے مہار نہیں ہونا چاہیےُ . اس پر بھی کچھ پابندیاں ہونی چاہییُں . جیسے:
نمبر 1 … صدر کے نامزد وزرا کی تقرری ایک کمیٹی کی منظوری سے مشروط ہو. .
نمبر 2 .. صدر کو کسی بھی ممبر کو ترقیاتی فنڈ دینے کی اجازت نہ ہو. بلکہ ترقیاتی فنڈ دینے کو قطعآ ممنوع قرار دیا جاےُ. یہ ایک طرح کی سیاسی رشوت ہے. ممبران اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کروانا چاہیں تو وہ اس کی تجاویز دیں. کام متعلقہ نحکمہ سے کروایا جاےُ.
نمبر 3 .. صدر کی غیر حاضری کی صورت میں سپیکر قومی اسمبلی قایُم مقام صدر ہو.
نمبر 4 : .. صدر کویُ متنازعہ قانون لانا چاہے تو وہ ریفرنڈم کروا سکتا ہے.
نمبر 5 . . کویُ بھی مسلمان پاکستانی دو دفعہ صدر چنا جا سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں.

یہ چند تجاویز ہیں. ان پر عمل پیرا ہو کر اپنے ملک کا بہت سا غیر ضروری خرچ بچایا جا سکتا ہے. ان تجاویز پر عمل پیرا ہونا بہ ظاہر مشکل نظر آتا ہے. لیکن ملک کی ترقی کے لیےُ سختیوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے. آییےُ ! ہمت کریں. خدا ہماری مدد کرے گا. ان تجاویز میں مناسب رد و بدل کیا جا سکتا ہے.
آیک انتہایُ ضروری کام جو کرنے والا ہے وہ یہ ہے کہ آیُین کے مطابق وزیر اعظم کے لیےُ ” صادق اور امین ” ہونا بنیادی شرط ہے. یہ شرظ ایسی ہے کہ موجودہ دور میں کویُ فرد صادق اور امین نہیں. صادق اور امین صرف اور صرف اللہ تعالے کے آخری رسول تھے. اور یہ لقب صرف انہی کے لیےُ ًمخصوص ہے. موجودہ لوگوں کو یہ لقب دینا والا سخت گنا ہ گار ہے. اس شق کو فوری طور پر ختم کر دیا جاےُ.
دوسری انتہایُ ضروری بات یہ ہے کہ ہمارا ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے. مرکزی کابینہ جب اور جہاں سے چاہے قرض لے لیتی ہے، ایسا قانون بننا چاہیےُ کہ اندرونی یا بیرونی قرض لینے کے لیےُ قومی اسمبلی کی منظوری لازمی ہو. حکومت قرض لے کر اس کا بوجھ آنے والی حکومت پر ڈال دیتی ہے. حکومت جتنا قرض لے اپنی حکومت ختم ہونے سے پہلے وہ لیا ہُوا قرض واپس کرے.

موجودہ حکومت کے دور میں گالی گلوچ ، عزتیں اچھالنے اور مخالفین کو بدنام کرنے کے لیےُ وزرا کو کھلی چھُٹی دی گییُ ہے. کابینہ کو مہزب وطیرہ اختیار کرنا چاہیےُ. ہم زمانے میں ” تلنگے اور بدزبان ” مشہور ہو چکے ہیں. اس کا تدارک ہونا چاہیےُ.
یہ تجاویز حتمی نہیں ہیں. ان میں ردوبدل یا انہیں بہتر بنایا جا سکتا ہے. نیےُ آیُین میں تمام شقوں کا اصل مدعا ملک کی ترقی اور بہتری ہونی چاہیےُ. اللہ تعالے ہمیں ملک کی بہتری ، ترقی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرماےُ. آمین.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *