لوک ورثہ . بولیاں . قسط نمبر 5
بولیاں ، قسط نمبر 4 کے بعد حاضر ہے بولیاں نمبر .قسط نمبر .5.. مثل مشہر ہے ” َ جوانی دیوانی ” جوانی کا نشہ بھی عجیب ہوتا ہے. کسی شخص نے نیُ نیُ جوان ہوتی کسی لڑکی کو دیکھا . اس کے ذہن میں کیا آیا، بولیاں قسط نمبر 5 پڑھ کے معلوم کریں.
تینوں پین گے نصیباں والے نشے دئے بند بوتلے
تمہاری رسیلی اور نشیلی جوانی ا س بند بوتل کی طرح ہے جسے پینے سے گہرا نشہ چڑھ جاتا ہے- اس نشیلے رس کو کوئی نصیب والا ہی پیے گا
اکثر لوگ اس بولی کو اس طرح گاتے ہیں :
تینوں پین گے مربعیاں والے نشے دئے بند بوتلے
( تمہاری نشیلی جوانی کی بند بوتل کو وہی پی سکے گا جو بہت ساری زمینوں کا مالک ہوگا )
زمین کی پیمائش ایکڑ میں کی جاتی ہے ، ٢٥ ایکڑ کا ایک مربع ہوتا ہے.
دو ننبُو پکّے گھر تیرے
چھٹی لے کے آ جا نوکرا
(تم گھر سے دور اپنی ملازمت کر رہے ہو یہاں تمہارے گھر میں دو لیموں پک کر تیار ہو گئے ہیں اب تو چھٹی لے کر گھر ا جاؤ )
ایتھے صاحب چھٹی نہیں دیندا
ننبواں نوں واڑ دے چھڑو
(تمہارا مطالبہ بجا لیکن کیا کروں یہاں میرا صاحب میریچھٹی منظور نہیں کر رہا ، ایسا کرو میرے انے تک لیموں کے اردگرد حفاظتی بند باندھ دو ) .
مندرجہبالا دو بولیوں میں پوری کہانی بیان کر دی گئی ہے . گھر سے دور ملازمت کرتے ہوۓ ملازم کی بیوی اپنی جوانی کے تقاضوں سے تنگ ہو کر اپنے خاوند کو سمجھا رہی ہے . خاوند بھی اسے ایسے ہی اشاروں میں باڑھ لگانے کا مشورہ دے رہا ہے .
میرا دل نہ پڑھائی وچ لگدا اکھراں چوں توں دسدی
میں جب بھی پڑھنے کے لیۓ کوئی کتاب کھولتا ہوں تو کتاب کے الفاظ میں مجھے تیری ہی تصویر نظر اتی ہے اور میں اسے ہی دیکھتا رہتا ہوں . بھلا میں اپنی پڑھائی میں دل کیسے لگاؤں
لفظ اکھر یعنی لفظ ہمارے ہاں کم ہی بولا جاتا ہے . سکھ حضرات لفظ کی بجاے اکھر کہتے ہیں . اکھر کے متعلق ایک اشتہار کا قصه سنیے ؛
ہندوستانی پنجاب میں جب ایک سکھ صوبہ کا چیف منسٹر بنا تو اس کی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ چونکہ صوبے میں سکھوں کی حکومت ہے اس لئے صوبہ کی قومی زبان پنجابی ہو گی اور سارا ریکارڈ پنجابی زبان میں
رکھا جائے گا. یاد رہے کہ سکھوں کی قومی زبان پنجابی ہے اور وہ اسے گورمکھی رسمالخط میں لکھتے ہیں . حکومت کے ایک دفتر میں ایک عارضی ٹائپسٹ کی ضرورت تھیجو شارٹ ہینڈ بھی جانتا ہو . اس اسامی کے لیۓ جو اشتہاردیا گیا وہ کچھ اس طرح کا تھا؛
لوڑی دا اے
اک ڈنگ ٹپاؤ اکھڑ کھڑکاو دی لوڑ اے جیہڑا گھیچی میچی وی جاندا ہووے . دیہاڑیاں کم ویکھ کے دتیاں جان دیاں .
یہ کہانی کسی کی دل آزاری یا مذاق اڑانے کے لیۓ بیان نہیں کی گیی. صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ لفظ اکھر کہاں بولا جاتا ہے .
لایُ بےقدراں نال یاری تے تٹ گیُ تڑک کر کے
کیا کریں ہمیں بےقدروں سے پیار ہو گیا. نتیجہ کیا نکلا، اس نے میری قدر نہ کی. اور ہمارا پیار ایسے ٹوٹ گیا جیسے سوکھی لکڑی آسانی سے ٹوٹ جاتی ہے.
سوکھی لکڑی کو جب توڑا جاےُ، کاٹا نہ جاےُ، تو ٹوٹتے وقت جو آواز نکلتی ہے اسے “تڑک” کہتے ہیں. یہ آواز اتنی اونچی تو نہیں ہوتی لیکن لکڑی ٹوٹنے کے بعد دوبارہ اسی جگہ جوڑی نہیں جا سکتی.
جاری ہے