Heer & Ranjha

قصّہ ہیر رانجھا ، قسط نمبر 2 – Story of Heer Ranjha

قصّہ ہیر رانجھا ، قسط نمبر 2
Story of Heer Ranjha

قصّہ ہیر رانجھا ، قسط نمبر 1 میں ہم نے دھیدُو رانجھا کے پیدایُشی مقام تخت ہزارہ کے متعلق تفصیل سے بیان کیا تھا.( دیکھیےُ تخت ہازرا کا نقشہ ) دھیدُو کے باپ کے مرنے کے بعد بھایُوں میں گھر بار اور زمینوں کا بٹوارہ ہو گیا. دھیدُو اپنے بھاییُوں ، بھابھیوں سے ناراض ہو کر گھر سے نکل کھڑا ہُؤا.

عنوانات

نمبر : 1 = دھیدُو گھر سے نکل پڑا
نمبر : 2 = کیُوپڈ کا تیر چل گیا.
نمبر : 3 = ہیر راہنجھا کی جُدایُ
نمبر : 4 = رانجھا فقیر بن گیا
نمبر 5 = راہنجھا اور سہتی کی تکرار
نمبر 6 = انجام

قصّہ ہیر رانجھا – قسط نمبر 2

دھیدُو گھر سے نکل پڑا

بھابیوں کے طعنے سُن کر دھیدُو کی انا جاگ اُٹھی. پنجاب کے باسیوں کی ایک خُوبی یا خامی یہ ہے ، کہ وہ کسی کا طعنہ برداشت نہیں کر سکتے .دھیدُو نے بھی اپنی بھابی کا طعنہ سُن کر اس گھر میں نہ رہنے کا فیصلہ کر لیا. چنانچہ وہ سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنی نانسری لے کر چل دیا. رات ایک گاؤں کی مسجد میں گزاری. صُبح اُٹھ کر پھرچل دیا. کیُ دن گزر گیےُ، یہاں تک کہ وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں کچھ کشتیاں موجود تھیں. ایک کشتی میں سوار ہو کر دریا کے دوسرے کنارے پہنچا. یہاں ایک سرسبز جگہ پر علاقہ کے سردار کی بیٹی ” ہیر ” نے آرام کرنے کے لیےُ ایک پلنگ بچھوایا رکھا تھا. جس کا محافظ لُڈّن ملاح تھا. دھیدو لُڈّن ملاح کی منت سماجت کر کے اس پلنگ پر لیٹ گیا اور گہری نیند سو گیا. ہیر سیر کرنے آیُ. اپنے پلنگ پر ایک اجنبی کو سوتا دیکھ کر لُڈّن ملاح پر ناراض ہونے لگی .اس جگہ وارث شاہ نے ہیر کی تعریف یُوں کی ہے :

کی ہیر دی کرے تعریف شاعر ، متھّے چمکدا حُسن ماہتاب دا جے
خُونی چونڈیاں رات جیوں چن دوالے، سُرخ رنگ جیوں رنگ آفتاب دا جے
نین نرگسی مرگ ممولڑے دے، گلّہاں ٹہکیاں پھُل گُلاب دا جے
بھواں وانگ کمان لاہور دسّن، کویُ حُسن نہ انت حساب دا جے
روشن رنگ جواہرے وانگ دمکے، کون جٹّی دے حُسن دی تاب دا جے
جیہڑا نظر کردا تُرت پھڑک پیندا، اینویں جیُُوندا خلق نوں جاپدا اے
اوہدا وانگ زُلیخا دے حال ہوندا، جیہڑا پٹیا اوس دے خواب دا جے
گہنے چھنکدے ٹُردیاں بدن اُتّے، آوے جویں آواز رُباب دا جے
سُرمہ نیناں دی دھار وچ پھب رہیا، چڑھیا ہند تے کٹک پنجاب دا جے
سیّاں نال جھولاردی آوندی اے، پر جھُولدا جویں عُقاب دا جے
کھلی وچ ترنجناں لٹکدی اے، مست ہاتھی جیون پھرے نواب دا جے
سوپنا چہرہ تے خد و خال سوہنے، خوش خط جیوں حرف کتاب دا جے
جیہڑے ویکھنے دے ریجھ دان آہے، وڈّا وعدہ تنہاں دے باب دا اے
چلو لیلہ القدر دی کرو زیارت، وارث شاہ ایہ کم ثواب دا جے

اردو ترجمہ :

شاعر ہیر کے حُسن کی تعریف کیا کرے، اُس کا چہرہ جیسے روشن چاند.
چہرے کے گرد بالوں کی سیاہ چوٹیاں، جیسے رات کی سیاہی میں چمکتا چاند، چہرے کا رنگ سُرخ سورج کی طرح.
آنکھیں نرگسی، گُلاب کی طرح سُرخ گال.
بھویں لاہوری کمان کی طرح تنی ہُویُ، خوبصورتی میں بے مثال.
سُرخ لعل جیسا رنگ، جس کی تاب لانی مشکل ہو.
جو کویُ اسے دیکھے، گھایُل ہو جاے، بظاہر جیتا جاگتا نظر آےُ مگر اندر سے مُردہ.
اس کے خواب دیکھنے والا زُلیخا کی طرح بے تاب ہو.
چلتے وقت اس کے پہنے ہُوےُ زیوروں کی آوازیں یُوں آیُیں ، جیسے رُباب بج رہا ہو.
اس کی آنکھوں میں سُرمے کی دھار اپنی بہار دکھا رہی ہے.
اپنی سہیلیوں کے ساتھ یُوں جھُولتی آتی ہے ، جیسے اُرتے عُقاب کا پر جھُولتا ہے.
ترنجنوں میں یُوں مٹکتی ہے، جیسے کسی نواب کا مست ہاتھی جھُول رہا ہو.
خوب صورت چہرہ، دلکش خد و خال، جیسے کتاب کے خوش خط حرُوف. دیکھنے کے شوقین کے لیےُ صرف وعدہ ہے.
وارث شاہ کہہ رہا ہے اُسے دیکھنا گویا لیلہ القدر کو دیکھنا ہے. ( ضاہر ہے ایسا شخص بڑا خوش نصیب ہوگا ) .

شعرا نے اپنے محبُوب کے حسن اور خد و خال کی تعریف مین آسمان کے قلابے ملاےُ ہُوےُ ہیں. اب ذرا وارث شاہ کو بھی سُنیےُ، جنہوں نے ہیر کے حُسن اور خد و خال کی تعریف میں کیسے کیسے استعارے استعمال کیےُ ہیں :

ہونٹ سُرخ یاقُوت جیوں لعل چمکن، ٹھوڈی سیب ولایُتی سار وچّوں
نک الف حُسینی دا پپلاےُ، زُلف ناگ خزانے دی بار وچّوں
دند چنبے دی کلی جیوں ہنس موتی، دانے نکلے حُسن انار وچّوں
لکھّی چین تصویر کشمیر جٹّی، قد سرو بہشت گُلزار وچّوں
گردن کُونج دی، اُنگلاں روانہپہ پھلیان، ہتھ کُولڑے برگ چنار وچّوں
باہاں ویلنے ویلیاں گھنّہ مکھّن، چھاتی سنگ مر مر وہار وچّوں
چھاتی ٹاٹھ دے اُبھری پٹ کھینُوں، سیُو بلخ دے چُنے انبار وچّوں
دُھنّی حوض بہشت دا مُشک کُبّہ ، پیڈُو مخملی خاک سرکار وچؤں
شاہ پری دی لٹک پنج پھُول رانی ، گُجھّی رہے نہ ہیر ہزار وچّوں
سیّاں نال لٹکدی مان متی، جویں ہرنیان ترٹھیاں بار وچّوں

اردو ترجمہ :

ہیر کے ہونٹ جیسے سُرخ یاقوٹ ، اُس کی ٹھوڑی میں چاہ زنخداں ، جیسے سیب میں ہوتا ہے.
اُس کی ناک الف کی طرح پتلی اور اونچی ،چہرے کے ارد گرد سیاہ زُلفیں، جیسے خزانے کی حفاظت کرنے والے سانپ .
دانت جیسے چنبے کی کلیاں، جیسے انار کی طرح سُرخ ہونتوں کے اندر سفید دانت لشکارے مار رہے ہوں.
اس کا قد سرو جیسا، جیسے چین یا کشمیر کی کسی حسینہ کی تصویر ہو.
اُس کی گردن کُونج کی گردن کی طرح لمبی ، ہاتھ کی انگلیان لمبی اور پتلی ، جیسے روانہہ کی پھلیاں، ہاتھ نرم جیسےچنار کے درخت کے نرم پتّے.
بازُو کپاہ بیلنے والی ” ویلنی ” کی طرح گول، اُس کی چھاتی سنگ مرمر کی طرح سفید.
اس کی دونون چھاتیاں جیسے مخمل کے دو گیند، یا بلخ کے سیب کاٹ کر رکھے ہوں.
اس کی ناف بہشت میں مُشک سے بھرے حوض کی طرح، اس کا پیٹ مخمل کی طرح نرم.
اس کا نخرہ شاہ پری جیسا، ہزاروں میں بھی چھُپی نہ رہے.
سہیلیوں کے ساتھ کھیلتی پھرتی ایسے دوڑتی ہے،جیسے جنگل میں ہرنیاں ڈر کر بھاگتی ہیں.

کیوُپڈ کا تیر چل گیا ؛

ہیر جب ملاح لُڈّن پر ناراض ہو رہی تھی، رانجھے کی آنکھ کھُل گیُ. اس واقعے کو وارث شاہ نے اس ظرح بیان کیا ہے :

رانجھے اُٹھ کے آکھیا واہ سجن، ہیر ہس کے تے مہربان ہُویُ

کیوُپڈ کا تیر چل گیا، باتیں ہُویُیں، یہاں سے دھیدُو کا نام رانجھا مشہُور ہُوا. رانجھا نے ہیر کو اپنا سارا حال احوال بتایا. ہیر رانجھے کو اپنے گھر لے گییُ. اپنے باپ چُوچک کو اس بات پر راضی کر لیا کہ رانجھا اُن کی بھیسیں چرایا کرے گا. ہیر اور رانجھے کی محبت روز بہ روز پروان چڑھتی رہی. ہیر رانجھا کے لیےُ کھانا لے جاتی رہی. دونوں کے پیار کی بات چھُپی نہ رہ سکی. ایک دن ہیر کے چچا ” کیدُو ” نے دونون کو پیار محبت کی باتیں کرتے دیکھ لیا. کیدُو لنگڑا تھا. زندگی کی لذتوں سے محروم تھا. لوگوں کو آپس میں لڑا کر خوش ہوتا. کیدُو نے ہیر کے باپ چُوچک کو ہیر اور رانجھے کے پیار کی بات نمک مرچ لگا کر سُنایُ. چُوچک نے سر پیٹ لیا. رانجھے کو نوکری سے جواب دے کر گھر سے نکال دیا. ھیر کی منگنی رنگ پُور کے ” کھیڑے ” سرداروں کے ہاں کر دی. برادری نے مشورہ دیا کہ ہیر کی شادی جلد کر دی جاےُ. مگر ہیر کب ماننے والی تھی. اس نے سب کا مقابلہ کیا. اور کھیڑوں سے شادی نہ کرنے پر اڑی رہی. وارث شاہ نے ہیر کے کردار میں جو رنگ بھرا ہے، وہ کسی دُوسرے شاعر نے نہیں بھرا. پنجابی زبان کے تمام قصوں میں کسی بھی عورت کا کردار اتنا زبردست اور انوکھا نظر نہیں آتا . ہیر اپنے دفاع میں ماں باپ، بھایُ اور قاضی ہر ایک سے بحث کرتی اور لڑتی نظر آتی ہے. مگر آخرکا وہ ایک عورت تھی. باپ نے اس کی شادی کی تاریخ مقرر کر دی. ہیر نے رانجھے کو مشورہ دیاا کہ آؤ، گھر سے بھاگ چلیں. رانجھے نے ہیر کو جو جواب دیا، وہ حقیقی معنوں میں سونے میں تولنے کے قابل ہے. رانجھے نے جواب دیا :

ہیرے عشق نہ مُول سواد دیندا، نال چوریاں اتے اُدھالیاں دے
معلُوم ہویا تیرے سُخن اُتّوں، چالے دسنی ایں مُنہ کالیاں دے
ٹھگّی نال تُوں مجھیّں چرا لییُاں ، ایہو راہ نے رنّاں دے چالیاں دے
وارث مُہراں دے عیب صراف جانن، کھوٹے کوڑیاں مٹھیاں ڈالیاں دے

اردو ترجمہ :

سُنو ہیر ! چوری کی ہُویُ اور اغوا کی ہُویُ عورت کبھی سُکھ نہیں دیتی.
تمہاری اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ تم بُرایُ کی طرف لے جا رہی ہو.
تُم مُجھ سے اب تک دھوکے سے اپنی بھینسیں چراتی رہیں، یہی عورتوں کی چالیں ہیں.
وارث شاہ کہ رہا ہے کہ کھوٹے اور کھرے کو صراف ہی پہچانتے ہیں.

ہیر رانجھا کی جُدایُ

ہیر آخر ایک عورت تھی. وُہ سیدے کھیڑے سے بیاہ دی گیُ . وہ اُسے رنگ پُور لے گیےُ. رانجھا ہیر کی جُدایُ میں دیوانہ ہو گیا، وہ ہر ایک سے چُو چک کی بُرایٰ کرنے لگا ؛

یارو جٹ دا قول منظُور ناہیں، گُوز شُتر ہے قول دوستایاں دا
پتاں ہون اکّّی (21) جس جٹ تایُیں، سویُ اصل بھرا ہے بھاییُاں دا
جدوں بہن رُوڑی تے عقل آوے، جویں کھوتڑا پھرے قصاییُاں دا
سروں لہہ کےچُتڑاں ہیٹھ دھردے، مزا آؤندا تدوں صفاییُاں دا
رجّے جٹ تاں کرے فساد کویُ، مار سُٹیےُ میت ویراییُاں دا
مُونہوں آکھ کُڑماییُاں کھوہ لیندے، مُنہ کالڑا کرن پھر ناییُاں دا
جٹ جیہا نہ کویُ گوندار ڈٹھّا، جویں یار نہ کویُ سپاہییُاں دا
دھیاں دینیاں کرن مُسافراں نوں، ویچن ہور دے مال جواُٰیُاں دا
جان بُجھ کے گھیسلے ہو رہندے، ویکھو دا کیہا انہاں دایُاں دا
ہیر کھیڑیاں نوں چا دتیو نے، ملیا نفع ایہہ مہّیں چراییُاں دا
جٹ نفع توں مُرشداں نال وگڑے، ول جان دے خُوب بُریاییُں دا
وارث شاہ نہ معتبر جانییےُ جے، قول جٹ، سُنیار، قصایُیاں دا

اردو ترجمہ :

جٹ کی کویُ بھی بات قابل اعتبار نہیں ہوتی، یہ اپنی بات پر قایُم نہیں رہتے.
جو جٹ اکّیّس (21) باتوں کا خیال رکھے، وُہی حقیقی بھایُ ہے.
یہ جب قصایُ کے گدھے کی طرح گوبر کے ڈھیر پر بیٹھتے ہیں تب انہیں عقل آتی ہے.
بیٹھتے وقت اپنی عزّت کا خیال نہ کرتے ہُوےُ اپنے سر کی پگڑی اُتار کر اپنے چُوتڑوں کے نیچے رکھ کر اُس پر بیٹھ جاتے ہیں. یہ ہے ان کی صاف سُتھرا رہنے کی عادت.
جاٹ جب آسُودہ حال ہوتا ہے تو کسی نہ کسی فساد پر آمادہ رہتا ہے، اور کُچھ نہیں تو شریکوں کا کویُ آدمی قتل کر دیا.
اپنی بیٹیوں کی ایک جگہ منگنی کر کے کُچھ عرصہ بعد توڑ دیتے ہیں، پھر نایُ کو بُرا بھلا کہتے ہیں کہ تُم نے وہ منگنی کیوں کرایُ.

وضاحت : دیہات میں والدین اپنے بچّوں کی منگنی کرانے کے لیُے گاؤں کے نایُ یا مراثی کی خدمات حاصل کرتے ہیں ، جو بیچ کے آدمی کا کردار ادا کرتا ہے. اور مختلف خاندانوں کے آپس میں رشتے کرا دیتا ہے.

جاٹ جیسا بے وفا نہیں دیکھا ، یہ سپاہیوں کی طرح کسی کے دوست نہیں ہوتے.
پہلے کسی جگہ اپنی بیٹی کی منگنی کرتے ہیں، پھر اپنے ہونے والے داماد کا مال ( لڑکی) کو کسی دوسری جگہ دے دیتے ہیں.
بات سُن کر جان بُوجھ کر چُپ رہتے ہیں، ذرا ان کے داؤ تو دیکھو.
ہیر کو کھیڑے کے ساتھ بیاہ دیا، یہ ہے وُہ صلہ جو انہوں نے مجھے اپنی بھینسیں چرانے کے بدلے دیا.
جہاں نفع کی اُمید ہو وہاں جاٹ اپنے مُرشد سے بھی بگاڑ لیتا ہے.
اسی لیےُ کہتے ہیں کہ جاٹ، قصایُ اور سُنار کی بات پر اعتبار نہیں کرنا چاہییےُ.

رانجھا فقیر بن گیا

ہیر کی جُدایُ میں دھیدُو جو اب رانجھا کے نام سے مشہور تھا ، دیوانہ ہو گیا. گاؤں گاؤن پھرتا رہتا، پھرتے پھراتے بالناتھ جوگی کے پاس جا پہنچا. کُچھ دن اُس کے پاس رہ کر اُس کا چیلا بننے کا ارادی کر لیا. بالناتھ جوگی نے اُس کے کان چھید کر اُن میں مُندریں ڈالیں. چہار ابرُو کا صفایا کیا، بدن پر خاک ملی، اور جوگ کا سبق دیتے ہُوےُ کہا ” بیٹا ! ناد بجانا، روٹی مانگ کر کھانا، اپنے نفس کو مارنا، نیّت کو صاف رکھنا، عورت کی طرف نہ دیکھنا، اپنے سے بڑی عورت کو ماں اور چھوٹی کو بہں سمجھنا” رانجھے نے ساری باتیں سُنیں. اُن پر غور کیا، اُس کے اندر کا جاٹ جاگ اُٹھااس نے بالناتھ کو جو جواب دیا وہ پنجاب کے ایک جاٹ کے خیالات کی صحیح ترجمانی کرتا ہے، جسے وارث شاہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

ناتھا جیوُندیاں مرن ہے کھڑا اوکھا، ساتھوں ایڈ نہ وعدے ہوونے نی
اسی جٹ ہاں ناڑیاں کڑن والے، اساں کچ کڑے نہ پروونے نی
اینویں کن پڑوا کے خوار ہوےُ، ساتھوں نہیں ہوندے ایڈے روونے نی
ساتھوں کھپری ناد نہ جاےُ سانبھی، اساں انت نوں ڈھگڑے جوونے نی
رنّاں ویکھنے ہوڑیا چیلیاں نوں، اساں گُرُو نہ بنھ کے چوونے نی
رنّاں دیہن گالی اسی چُپ رہییےُ، ایڈے صبر دے پیر کس دھوونے نی
رنّاں اُٹھ کمینیاں پُنّن دادے، کدوں چُپ کر سُخن کھلوونے نی
ہسّن کھیڈن نوًں تُساں چا منع کیتا، تیرے دھُوییُں دے گوہے کس ڈھوونے نی

اردو ترجمہ:

ناتھ ! زندہ رہتے ہُوےُ تو مرنا مشکل ہے، میں یہ سارے وعدے نہیں کر سکتا.
ہم جاٹ ہیں، کھیتوں میں فصلیں کاشت کرنے والے، ہم سے یہ موتی منکے پروےُ نہیں جاییُں گے. میں تو اپنے کان چھدوا کر ، ان مین مُندریں ڈال کر یُونہی خوار ہُؤا ذلّت کے یہ کام مُجھ سے نہیں ہوتے.
یہ ناد کتنی بُری ہے، اسے بجانے کا کام نہیں کر سکتا، میں تو جاٹ ہُوں آخر کو بیلوں سے ہل ہی جوتُوں گا.
عورتیں ہمیں گالیاں دیں اور ہم چُپ رہیں، نہیں، اتنا صبر ہم سے نہیں ہوتا.

وضاحت: وارث شاہ نے ” صبر کے پیر دھونے ” کی نادر تشبیہہ پیش کی ہے. صبر کے پیر دھونے، صبر کرنے کا انتہایُ آخری درجہ ہے.

کمینی عورتیں ہمیں باپ دادا کی گالیاں دیں اور جواب میں میں ہم کُچھ نہ کہیں، نہیں ہم ایسا صبر نہیں کر سکتے.
ہنسنے کھیلنے سے بھی منع کر دیا، یہ بھی نہیں ہو سکتا، آپ نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ ہم سب خواہشات کو مار کر صرف آپ کی دھُونی کے لیےُ گوبر کے اُپلے ڈھوتے رہیں گے.

وضاحت : فقیر اور ملنگ لوگ اپنا ڈیرہ گاؤں سے باہر لگاتے ہیں. اپبی جھُگّی کے باہر چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں آگ جلاتے ہیں. کویُلوں کے اوپر گوبر کے اُہپلے لا کر رکھ دیتے ہیں، یہ اُپلے آہستہ آہستہ دھواں دیتے رہتے ہیں، آگ کے شُعلے نہیں نکالتے. ایسے گڑھے کو ” دھُواں ” کہتے ہیں.

رانجھا اور بالناتھ کے درمیان اس طرح کی باتیں ہوتی رہیں. رانجھے کے پاس اب کویُ اور راستہ نہیں تھا کہ وہ نام نہاد ہی سہی، جوگی بن جاےُ. اس نے جوگیوں جیسا گیروی رنگ کا لباس پہنا. ہاتھ میں ناد پکڑی، گلے میں منکوں کی مالاییُں پہنیں. کانوں میں مُندرے ، پاؤں سے ننگا گاؤں گاؤں پھرتا ہیر کے سُسرال کے گاؤں پہنچ گیا. گاؤں کے باہر ڈیرہ ڈال دیا. گاؤں والوں سے مانگ کر کھا لیتا.

رانجھا اور سہتی کی تکرار

رانجھا ایک دن ہیر کے گھر بھی پہنچ گیا. ہیر کی نند سہتی نے دروازہ کھولا. سہتی بڑی جھگڑالو عورت تھی. باتون باتوں میں رانجھا اور سہتی آپس میں جھگڑنے لگے. اس جھگڑے میں ایک جگہ رانجھا کہتا ہے:

جیٹھ مینہ تےسیال وا مندی، کتک ماہ وچ منع ہنیریاں نی
رونا ویاہ وچ، گاؤنا وچ سیاپے، ستر مجلساں کرن مندیریاں نی
چُغلی خاونداں دی، بدی نال مُلّاں، کھانا لُون حرام بد فیریاں نی
حُکم ہتھ کم ذات دے سونپ دینا، نال دوستاں کرنیاں ویریاں نی
چوراں نال وفاق تے دغا پیراں، بُرے دناں دیاں ایہ پھیریاں نی
خصماں نال برابری کرن رنّاں، نہیں چنگیاں ایہہ دلیریاں نی
بھلے نال بھلیاں بدی نال بدیاں، یاد رکھ نصیحتاں میریاں نی
بنا حُکم دے مرن نہ اوہ بندے، ثابت جنہاں دے رزق دیاں ڈھیریاں نی

اردو ترجمہ :

جیٹھ کے مہینے میں بارش نقصان دہ ہے ( کٹی ہویُ گندم بھیگ کر خراب ہو جاتی ہے ) کاتک کے مہینے میں آندھی اور سردی کے موسم میں تیز ہوا بھی اچھی نہیں. اس سے سردی بڑھتی ہے.
شادی میں رونا اور سوگ میں گانا بجانا بے عقلوں کا کام ہے
اپنے خاوند کی چُغلی کھانا، نیک آدمی کے ساتھ بُرایُ کرنا، اور حرام کھانا سب بُرے کام ہیں.
کمینے کو حاکم بنا دینا پُوری قوم کو لے ڈُوبتا ہے، دوستوں کے ساتھ دُشمنی کرنا اچھی بات نہیں.
چوروں کا ساتھی بننا، مُرشد سے دغا فریب کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسے کے بُرے دن آ گیےُ ہوں.
عورتیں اپنے خاوندوں کی برابری کریں، ان کی یہ دلیری انہیں مہنگی پڑے گی.
میری یہ نصیحت یاد رکھو، نیک آدمی کے ساتھ اچھی طرح پیش آؤ، بُرے کے ساتھ ( حد سے تجاوز نہ کرتے ہُوےُ ) اُس کے سلوک کے مطابق پیش آؤ.
جس انسان کی قسمت میں لکھا ہُؤا رزق ابھی باقی ہو ، اسے کویُ نہیں مار سکتا.

یہیں پر سہتی سے جھگڑتے ہُوےُ ، جوگی بنا ہؤا رانجھا کہتا ہے :

دوست سویُ جو پیڑ وچ بھیڑ کٹّے، یار سویُ جو جان قربان ہووے
شاہ سویُ جو کال وچ دُکھ کٹّے، گل بات دا جو نگہبان ہووے
گاں سویُ جو سیال وچ دودھ دیوے، بادشاہ سویُ جو شاہ بان ہووے
نار سویُ جو مال بن بیٹھ جاوے، پیادہ سویُ جو بھُوت مسان ہووے
امساک ہے اصل افیم باہجوں، غُصّے بناں فقیر دی جان ہووے
روگ سویُ جو نال علاج ہووے، تیر سویُ جو نال کماں ہووے
کنجر سویُ جو غیرتوں باہج ہووے، جویں بھابڑا بناں شنان ہووے
قصبہ سویُ جو ویر بن پیا وسّے، جلاد سویُ جو مہر بن جان ہووے
کنواری سویُ جو کرے حیا بُہتا، نیویں نظر تے لہجہہ زبان ہووے
بناں جنگ تے چور دے مُلک وسّے، پٹ سویُ بن ان دی پان ہووے
باہج رب دے کسے توں نہ ڈرییےُ، جے پکّا یقین ایمان ہووے
جڑاں پُٹ کے اوہدیاں رکھ دییےُ، ظُلم کرنے والا جو سُلطان ہووے
سیّد سویُ جو شُوم نہ ہووے کاذب، زانی سیاہ تے نہ قہردان ہووے
وارث شاہ فقیر بن حرص غفلت، یاد رب دی وچ غلطان ہووے

اردو ترجمہ:

دوست وُہی ہے جو مصیبت، مشکل میں ساتھ دے، اپنے دوست پر جان قُربان کرنے سے دریغ نہ کرے.
بادشاہ یا حاکم ایسا ہو جو قحط کے زمانے میں رعایا کا خیال رکھے، اپنی بات اور وعدہ پر پُورا اُترنے والا ہو.
گاےُ وُہی اچھّی ہے جو سردیوں میں دُودھ دے، بادشاہ وہی اچھا ہے جو رعایا پر مہربان ہو.
جو عورت دولت نہ ہوتے ہُوےُ بھی اپنا گھر بساتی ہے وُہی سچّی گرہستن ہے، پیادہ وہی اچھا ہے جو شمشان گھاٹ میں بھی جاتے ہُوےۃ نہ ڈرے.
صحیح امساک وُہی ہے جو افیُون کے بغیر ہو، فقیر کی خاصیت یہ ہے کہ اُسے غُصّہ نہیں آتا.
ہر بیماری کا علاج بھی ہوتآ ہے، تیر کمان کے بغیر کس کام کا.
کنجر وُہی ہے جو بے غیرت ہو.
جو گاؤں امن سے رہتا ہے وہی اچھا گاؤن ہے، جلاد کے دل میں رحم نہیں ہوتا .
کنواری لڑکی اپنی نگاہ نیچی رکھتی ہے ، نرم اور آہستہ لہجے میں گفتگو کرتی ہے.
مُلک وہی اچھا ہے جہاں جنگ اور چور نہ ہوں، ریشم کا وہی کپڑا اچھا ہے جسے گندم کے میدے کی پان نہ لگی ہو.
تمہیں خدا پر یقین ہے تو اس کے سوا کسی سے نہ ڈرو.
جو حاکم اپنی رعایا پر ظُلم کرے، اس کی حاکمیت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکو.
سیّد نہ کنجوس ہوتا ہے ، نہ جھُوٹ بولنے والا، اسی طرح وہ نہ زانی، نہ سیاہ کرتوتوں والا اور نہ ظالم ہوتا ہے.
وارث شاہ کہتا ہے کہ فقیر تو حرص، طمع اور غفلت کے بغیر خدا کی یاد میں ڈوبا رہتا ہے.

اس جھگڑے میں رانجھا اپنی ” جوگیّت ” جتانے کے لیےُ مزید کہتا ہے :

عدل بنا سردار ہے رُکھ اپھل، رن گدھی جے اوہ وفادار ناہیں
ناز بناں ہے کنچنی بانہہ جیسی، مرد گدھا جو عقل دا یار ناہیں
ہمّت باہج جوان، بن حُسن دلبر، لُون باہج طُعام سنوار ناہیں
شرم باہج مُچھّاں، بناں عقل داڑھی، طلب باہج فوجاں بھرم بھار ناہیں
عمل باہج عالم جیہڑا ہو بیٹھے، کُتب لدیا خر کسے کار ناہیں
پانی باہج دریا نہ وہندڑے نی، استغفار بناں چُھٹکار ناہیں
بے پرواہیاں بناں معشوق ناہیں، سر دتیاں باہج دیدار ناہیں
اکھّی ڈٹھیاں باہج پرتیت ناہیں، جویں بناں یقین اعتبار ناہیں
فقیر ہو کے صبر نہ کرے جیہڑا، جُبّہ فقر دا اوس درکار ناہیں
جُسّہہ رُوح بغیر ڈراؤنا ایں، لست باہج جویں سنسار ناہیں
عقل باہج وزیر، صلوات مومن، تے دیوان حساب شمار ناہیں
وارث رن، فقیر، تلوار گھوڑا، چارے تھوک ایہہ کسے دے یار ناہیں

اردو ترجمہ :

انصاف نہ کرنے والا بادشاہ، پھل نہ دینے والے درخت کی مانند ہے، جو عورت خاوند کی وفادار نہیں ، وہ گدھی کی مانند ہے.
طوایُف جو ناز نخرہ نہ کرے، وہ گویا بازُو کی طرح سیدھی سادی ہے، جو مرد عقلمند نہیں وہ گدھے کی مانند ہے.
جس جوان میں ہمت اور حوصلہ نہیں، وہ بھی کویُ جوان ہے، جو حسین نہیں وہ کس کا معشوق بنے گا، نمک کے بغیر سالن مزیدار نہیں بنتا.
شرم کے بغیر مُونچھیں، عمل کے بغیر داڑھی فضول ہے، بادشاہی کا بھرم رکھنے کے لیےُ فوج ضروری ہے.
بے عمل عالم اُس گدھے کی مانند ہے جس پر ڈھیر ساری کتابیں لدی ہوں.
دریا اُس وقت تک دریا ہے جب تک اس میں پانی بہتا رہے. استغفار کیےُ بغیر بخشش نہیں.
جو معشوق بے پرواہ نہ وہ معشوق کیسا، سر کی بازی لگاےُ بغیر دیدار نہیں ہوتا.
جب تک آنکھوں سے دیکھ نہ لیا جاےُ، پختہ یقین نہیں ہوتا.
جو فقیر صبر کرنا نہ جانے، اسے فقیری کا چولہ اُتار دینا چاہییےُ.
رُوح کے بغیر جسم ڈراؤنا لگتا ہے، لست کے جواب میں اقرار کیا تو یہ دُنیا بنی.
وزیر کے لیےُ عقلمند ہونا، مومن کے لیےُ نماز کا پابند ہونا ضروری ہے.
وارث شاہ کا کہنا ہے کہ عورت، فقیر، تلوار اور گھوڑا چاروں کسی کے دوست نہیں ہوتے.

انجام

رانجھا اور سہتی کا یہ جھگڑا طویل ہو جاتا ہے. رانجھا سہتی کا ہاتھ دیکھتا ہے . سوچتا ہے اسے کیا بتاؤں، مجھے تو اس کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں. وہ ایسے ہی عمومی باتیں بتاتا رہا. باتوں باتوں میں اس کے مُنہ سے یُونہی نکل گیا ” سیتی ! تُم مُراد پاؤگی.” سیتی دم بخود رہ جاتی ہے. سوچنے لگی کہ یہ جوگی تو پُہنچا ہُؤا ہے، جو دل کی باتیں جان لیتا ہے، اصل میں سہتی ایک شخص سے پیار کرتی تھی ، جس کا نام مُراد بلوچ تھا. سہتی نے کہا کہ میری بھابھی بیمار رہتی ہے، اس کا ہاتھ دیکھ کر بتاؤ اسے کیا بیماری ہے. ہیر جب سے بیاہ کر آیُ تھی رانجھے کی جُدایُ میں بستر پر پڑ گیُ تھی. ہیر گھونگٹ نکالے آیُ. رانجھا نے اُسے بتایا کہ تمہیں عشق کا روگ ہے. یہاں پر ہیر رانجھا کو پہچان لیتی ہے.

رانجھا ایک باغ میں ڈیرے ڈال لیتا ہے. لوگ اُس کے پاس مرادیں پُوری کرانے کے لیےُ آتے ہیں.
آخر ہیر اور سہتی نے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا. اور اپنے اپنے محبوب کے ساتھ بھاگ جانے کا فیصلہ کر لیا. ایک دن ہیر اور سہتی سیر کو جاتی ہیں. ہیر ایک جگہ گر پڑتی ہے. سہتی نے شور مچا دیا کہ ہیر کو سانپ نے ڈس لیا ہے. ہیر کو گھر لے جایا گیا. یہاں سہتی نے مشورہ دیا کہ باغ میں ایک جوگی بیٹھا ہے وہ کالے ناگ کے ڈسنے کا زہر اُتار دیتا ہے، اُسے بُلایا جاےُ. ( یہ منصوبہ ان تینوں نے پہلے بنا لیا تھا ) رانجھے کو بُلایا گیا. اس نے کہا ” ہیر کو بہت ہی زہریلے ناگ نے ڈسا ہے. اس کا زہر اتارنے کے لیےُ ہیر کو ایک علیحدہ کوٹھری میں رکھا جاےُ. اس کے ساتھ سہتی بھی رہے. اس کوٹھڑی میں صبح تک کویُ آدمی نہ آےُ” پروگرام کے مطابق مُراد بلوچ بھی آ جاتا ہے. ہیر رانجھے کے ساتھ اور سہتی مراد بلوچ کے فرار ہو جاتی ہے

صبح کھیڑوں کو پتہ چلتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہو گیا ہے. وہ ان کی تلاش میں اُٹھ کھڑے ہُوےُ. سیتی اور مراد تو ہاتھ نہ آےُ. لیکن ہیر اور رانجھا ایک دوسری ریاست میں پکڑے جاتے ہیں. انہیں ریاست کے راجہ کی عدالت میں پیش کیا گیا. راجہ نے دونوں کے بیانات سُن کر ہیر کو کھیڑوں کے حوالے کر دیا. یہاں پر رانجھا راجہ کو بد دُعا دیتا ہے. اتفاقآ راجہ کے شہر میں آگ لگ گیُ. راجہ کو خیال آیا کہ اس نے شاید کھیڑوں کو ہیر دے کر جوگی ( رانجھا ) کے ساتھ بے انصافی کی ہے، اور شہر میں آگ کا لگنا اسی بے انصافی کی سزا ہے. اس نے ہیر کو کھیڑوں سے لے کر جوگی کے حوالے کر دیا. رانجھا اسے لے کر اپنے گھر تخت ہزارہ کی طرف چل دیا.

ہیر جب اپنے میکے کے گاؤں کے پاس سے گزرتی ہےتو اسے اپنے ماں باپ کی محبت ستانے لگی. رانجھا سے کہا کہ وہ اپنے والدین سے ملنا چاہتی ہے. ہیر کے والدین نے رانجھا سے کہا کہ وہ بارات لے کر آےُ اور ہیر کو بیاہ کر لے جاےُ. رانجھا اپنے گھر تخت پزارہ واپس آ گیا.

اُدھر ہیر کے چچا کیدُو نے نے ہیر کے والد چُوچک کو اس بات پر راضی کر لیا کہ ہیر کو رانجھا کے ساتھ نہ بیاہا جاےُ، اس طرح تو ہماری بے عزتی ہوگی. کیدو نے دھوکے سے ہیر کو زہر دے دیا اور وہ مر گیُ. رانجھے کو ہیر کے مرنے کی خبر ملی تو وہ پاگل سا ہو گیا اور اسی غم میں اپنی جان دے دی.

دامودر نے کہانی وہیں ختم کر دی تھی جہاں ہیر رانجھے کو مل گیُ تھی. مگر وارث شاہ نے کہانی کا انجام المیہ بنایا ہے. اور دوسرے شعرا بھی المیہ ہی بناتے رہے.

ہیر وارث شاہ کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب اس کی زبان ہے. تمام کہانی ٹھیٹ پنجابی زبان میں ہے.کہانی کے کردار ہمارے معاشرے کے جیتے جاگتے کردار ہیں. اس کے اشعار دلوں کا حال کہتے معلوم ہوتے ہیں، اور ابدی سچایُیاں بیان کرتے ہیں.

کُوڑی دُنیا تے شان گمان کُوڑا، وارث شاہ ہوری سچ کہہ چلے وے


Comments

2 responses to “قصّہ ہیر رانجھا ، قسط نمبر 2 – Story of Heer Ranjha”

  1. Greetings, I noticed that you recently visited my weblog. In an effort to repay the favor, I am composing this message to suggest that you consider incorporating some of your suggestions into my own site.

    1. Sipra World

      Thank you very much for your comments. I guess i did not visit your web site. Would you pl. like to email me your web site URL on this address “hearth785@gmail.com” Thanks in advance and have a nice day.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *