عادات

عادات

ہر علاقہ کے رہایُشیوں کی اپنی اپنی عادات ہوتی ہیں، خصوصاّ زبان کے معاملے میں. اندازاّ 60 سے 100 کلو میٹر کے فاصلے پر لوگوں کی زبان اور بولنے کا لہجہ تھوڑا سا مختلف محسوس ہوتا ہے. لاھوریوں کی زبان کا لہجہ ضلع سرگہدھا یا ملتان والوں کے لہجے سے مختلف ہوگا. چلیےُ ہم اسے ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں :

نمبر 1 : خالص لاھوری ” ر ” کو ” ڑ ‘ بولتے ہیں. جیسے ادھر کو ادھڑ ، تمہاری کو تمہاڑی ، کر کو کڑ، اور سمندر کو سمندڑ بولیں گے. یو ٹیوب پر ایک لاہوری صاحب اپنا چینل چلاتے ہیں، وہ ” ر ” کو ہمیشہ ” ڑ ‘ بولتے ہیں جیسے آپ ایسا کڑو وغیرہ. ایک سیاسی پارٹی کے لاہوری لیڈر ہمیشہ ” ر” کو “ڑ ” ہی بولتے تھے.
نمبر 2 : – لاہوری پیسہ کو پیخہ کہیں گے.
نمبر 3 – لاہوری ” آ جاؤ” کو “آ یاؤ” کہتے ہیں.
نمبر 4 – لاہوریوں کی اکثریت پنے آپ کو ” بھلوان ” کہ کر بلانے پر خوش ہوتے ہیں. بھلوان در اصل پہلوان کی لاہوری شکل ہے. اس بات کی کویُ اہمیت نہیں ہوتی کہ بھلوان کہلوانے والا سنگل پسلی کا آدمی ہے. صرف لاہوری ہونا شرط ہے.
نمبر 5- لاہوریوں کا تکیہ کلام اخلاق سے کچھ گرا ہؤا ہے اس لیےُ میں نے اس لفظ کو نہیں لکھا.
نمبر 6 – لاہورےُ کھانے پینے کے دھنّی ہوتے ہیں.

نمبر7 – راولپینڈی کے رہایُشیوں کو ” پنڈی وال “کہتے ہیں. یہاں کے لوگ عموماّ اختصار پسند ہیں. باتیں بہت ہی مختصر کرتے ہیں (سواےُ سیاست دانوں کے ) اور یہ اچھّی بات ہے. بہت سارے الفاظ کو بلا ضرورت کیوں استعمال کیا جاےُ. لاھوری ویگن ڈرایُور دور سے آتے ہوےُ مسافر کو آواز دے گا ” بھایُ جی، جانا جے ” جب کہ پنڈی وال ڈرایُور صرف ایک لفظ کہے گا ” جلسو ”
یہ ضلع راجگان کا ہے . ہر دوسرا آدمی اپنے نام کے ساتھ ” راجہ ” لکھتا ہے. جیسے راجہ اشفاق احمد وغیرہ.

نمبر 8 – کچھ عرصہ پہلے تک ضلع جہلم میں ایک روایت تھی. مہمان کو چاےُ پیش کی جاتی، مہمان نے چاےُ پی کر پیالی کو پرچ میں سیدھا رکھ دیا. میزبان برتن اٹھا کر لے گیا اور چاےُ کی پیالی کو چاےُ سے بھر کر لے آیا. مہمان نے وہ چاےُ بھی پی لی اور پیالی کو پرچ میں سیدھا رکھ دیا. چاےُ تیسری بار پھر آ گیُ. یہ ایک رواج تھا. چاےُ کی پیالی کو سیدھا رکھ دینا کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ مہمان مزید چاےُ پینے کا خواہش مند ہے. اگر چاےُ پینے کی مزید حاجت نہیں تو پیالی کو پرچ میں الٹا کر کے رکھیں. یہ رواج ،پتہ نہیں ابھی بھی ہے یا نہیں.

نمبر 9 – خیبر پختون خواہ کے لوگ کسی کو اپنے پیچھے سے گزرنا پسند نہیں کرتے. ہاں ان کے سامنے سے گزر جایُں ، کویُ بات نہیں.

نمبر 10 – ترکی کے لوگ چاٹی کی لسّی بہت پسند کرتے ہیں. ایسی لسّی بوتلوں میں بند بازار میں عام ملتی ہے. اس لسّی کو وہ ” آیُرن ” ( Iron ) کا نام دیتے ہیں.

نمبر 11 – عربی لوگ کسی بات پر رضامند ہوں تو اپنے داہنے ہاتھ کی انگشت شہادت کو اپنی ناک کے سرے پر رکھیں گے. اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ آپ کا کہا سر آنکھوں پر.

نمبر 12 – آستی چڑھانا – مختلف ملکوں میں اس کا مطلب مختلف لیا جاتا ہے ؛
نمبر 1 – پاکستان میں آستین چڑھانے کا مطلب ہوتا ہے لڑایُ کی تیاری.
نمبر 2 – ہالینڈ اور برطانیہ میں آستین چڑھانے کا مطلب ہوتا ہے کام کی لیےُ
تیار ہونا.
نمبر 3 – جرمنی میں آستین چڑھانے کا مطلب ہوتا ہے صاحب اب آرام کریں
گے.

نمبر 13 – امریکی دفتر میں فون پر بات کرتے ہوےُ اپنے پاؤں میز پر رکھ لیتے ہیں.

نمبر 14 – دفتر میں میز پر پاؤں رکھنا جاپان میں معیوب سمجھا جاتا ہے.

نمبر 15 – قدیم یونان کے فلسفی بہت مشہور ہیں. آج کل کے یونانیوں کو دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ انہی فلسفیوں کی اولاد ہیں جن کی عقل و دانایُ کی دھاک اس وقت کی معلوم دنیا پر بیٹھی ہویُ تھی. آج کل کے یونانیوں کی دو عادات ( دوسری عادات کے علاوہ ) قابل غور ہیں
نمبر 1 – ان سے جب کویُ کام خراب ہو جاتا ہے تو وہ سیدھے کھڑے ہو کر اپنے
ہاتھ پھیلا لیتے ہیں اور اپنے خدا ( یسوع مسیح ) کو گالیاں دینے لگتے
ہیں. زیادہ غصّے میں ہوں تو اپنے دوسرے خدا مریم علیہ السلام کے
متعلق نازیبا الفاظ کہنا شروع کر دیتے ہیں. ( استغفر اللہ )
نمبر 2 – ان کے انکار کرنے کا ایک الگ ہی سٹایُل ہے. جب کسی چیز سے انکار
کرنا ہو تو زبان سے کچھ نہیں کہیں گے. بلکہ اپنی آنکھوں کے ابروؤں
کو ذرا سا اوپر چڑھاتے ہوےُ منہ سے ” چچ ” کی آواز نکال دیں گے.

نمبر 16 – ہر مذہب کے ماننے والے آپس میں ملنے پر کچھ الفاظ بولتے ہیں .جیسے مسلمان السلام علیکم کہین گے، یونانی جب آپس میں ملتے ہیں تو ” یاسو ” کہتے ہیں. لفظ ” یاسو” غالباّ یسوع کی بگری ہویُ شکل ہے.

نمبر 17 – دنیا کے تقریباّ تمام لوگ ٹیلیفون کال سننے سے پہلے ” ہیلو” کہتے ہیں. سپین، پرتگال اور جنوبی امریکہ کے تقریباّ تمام ممالک کے لوگ ” ہولا ” کہتے ہیں.

نمبر 18 – فرانس کے بعض علاقوں میں ایسے کیفے بھی ہیں جہاں آپ اس وقت تک کرسی پر نہیں بیٹھ سکتے جب تک آپ وہاں موجود تمام لوگوں سے ہاتھ نہ ملا لیں.

نمبر 19 – میانوالی کے لوگ ٹیلی فون پر اگر 10 منٹ بات کریں تو اس میں سے 7 منٹ “اور سناؤ ” کہنے پر صرف کرتے ہیں.

نمبر 20 – افغانستان کے لوگ ملنے پر حال احوال پوچھنے میں 5 منٹ لگا دیتے ہیں.

نمبر 21 – کسی ملاقات یا تقریب وقت پر نہ پہنچنے کی عادت صرف پم میں ہی نہیں. دوسرے ممالک کے لوگ بھی اس مرض میں مبتلا ہیں :
نمبر 1 – جرمن عموماّ وقت پر پہنچتے ہیں .
نمبر 2 – امریکی 15 منٹ پہلے پہنچ جایُں گے.
نمبر3 – برطانوی شاید 15 منٹ دیر سے پہنچیں .
نمبر 4 – پاکستانی شاید ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ دیر سے پہنچیں.
نمبر 5 – اٹلی کے لوگ بھی ایک گھنٹہ دیر سے پہنچیں گے.

نمبر 22 – فلپایُن کے لوگ جلد ہی دوست بن جاتے ہیں اور پھر اس دوست سے چمٹ جاتے ہیں اور ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے.

نمبر 23 – روس میں لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوتے وقت ” دس ودانیا ” کہتے ہیں. جاپانی ” سارو نارا ” اور سپینش زباین بولنے والے ” چاؤ ” یا ” آدیوس ” کہتے ہیں.

نمبر 24 – عرب ممالک میں کس کے گھر جایُں تو وہاں پر موجود چیزوں کو غور سے نہ دیکھین اس سے میزبان یہ سمجھتا ہے کہ آپ کو ان چیزوں کی ضرورت ہے.

نمبر 25 – فلپایُن کے لوگوں کا اعتقاد ہے کہ دایُں ہتھیلی میں خارش ہو تو خرچ کا سامنا کرنا پڑے گا، بایُں ہتھیلی میں خارش ہو تو پیسہ آنے کی امید کی جا سکتی ہے

نمبر 26 – آج سے چالیس پچاس سال پہلے تک اموماً 40 سال سے زیادہ عمر کے ہر شخص کے سر کے بال کانوں کی لووں تک لمبے ہوتے تھے اور سر پر سفید پگڑی ضرور ہوتی تھی. اس پگڑی سے وہ بہت سے کام لیتے تھے :
نمبر 1. یہ پگڑی سر کے بالوں کو سمبھالے رکھتی تھی.
نمبر 2. یہ پگڑی سر کو سورج کی گرمی سے بچاتی تھی.
نمبر 3. اگر کوٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰئ دوسرا کپڑا دستیاب نہ ہو تو منہ ہاتھ دھونے کے بعد اس پگڑی کے ایک سرے سے ہاتھ اور منہ کو صاف کیا جا سکتا ہے.
نمبر 4. کھیت میں یا کسی کھلی جگہ پر جہاں بیٹھنے کے لیےُ کوئ صاف جگہ نہ ہو تو سر سے پگڑی اتار کر اسے زمین پر رکھ لینے کے بعد اس پر تشریف رکھی جا سکتی ہے.وارث شاہ نے اسے یوں بیان کیا ہے:
سروں لاہ کے چتڑاں ہیٹھ دھردے       مزہ آؤندا تدوں صفایئاں دا   
یعنی اپنی پگڑی کو سر سے اتار کر زمین پر رکھ کر اس پر بیٹھ جاتے ہیں. یہ ہے صفائ کا طریقہ اور اس کا مزہ.
آج کل تو اس پگڑی کا رواج نہیں رہا. لیکن بعض علاقوں میں اب بھی لوگ پگڑی باندھے .نظر آتے ہیں


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *