خیال اپنا اپنا – ہنسنا منع نہیں ہے

ہنسنا منع نہیں ہے.

عنوانات
نمبر 1. خیال اپنا اپنا.
نمبر 2 . ہرنام سنگھ اور بحری جہاز.

خیال اپنا اپنا.

مختلف پرندے مختلف آوازیں نکالتے ہیں کوّا کایُیں کایُٰیں کرتا ہے، کبوتر غٹرغوں غٹرغوں کی آواز نکالتا ہے، چڑیا چوں چوں کرتی ہے. سب سے خوبصورت یا سریلی آواز کویُل کی ہوتی ہے. جو اکثر برسات کے موسم میں ہی سنایُ دیتی ہے. بھورے تیتر کی آواز میں تسلسل پایا جاتا ہے. تیتروں کی ایک نسل کالے تیتر کہلاتی ہے. اور ان کی آواز بھورے تیتروں سے بہت مختلف ہوتی ہے. پرندوں کے شوقین کالے تیتروں کو بھاری قیمت پر خرید کر انہیں پنجروں میں رکھتے ہیں. کالے تیتر عمومآ صبح اور شام کو زیادہ بولتے ہیں. اور ان کی آواز کو کیُ معنی پہناےُ جا سکتے ہیں.
نمبر1: کالا تیتر بول رہا تھا ایک مولوی صاحب کا اس کے پاس سے گزر ہوُا تیتر کی آواز سنی ، کہنے لگے ” سبحان اللہ، تیتر کہ رہا ہے ” سبحان تیری قدرت”.
نمبر 2: پھر ایک پنڈت کا گزر ہؤا، اس نے اپنی سمجھ کے مطابق کہا تیتر کہ رہا ہے “سیتا رام دسرتھ ” .
نمبر 3: پھر ایک قصایُ کا گزر ہؤا، تیتر کی آواز سن کر کہنے لگا ، تیتر کہتا ہے ” سری کھروڑے کج رکھ”.

ہرنام سنگھ اور بحری جہاز
میں بحری جہاز پر سیلر تھا . کمپنی نے ایک نیا بحری جہاز خریداجو جاپان کی بندرگاہ فاکوکا” پر کھڑا تھا. کمپنی نے ایک دوسرے بحری جہاز سے ھم سب پاکستانیوں کو جاپان بھیج دیا. ان دنوں پاکیستانیوں کے لےُ جاپان کے لےُ ویزا نہیں تھا، ایُر پورٹ پر ہی انٹری لگ جاتی تھی. ہم ایک ہفتہ فاکوکا میں ٹھہر کر بحری جہاز کے ذریعہ ساؤتھ کوریا کی بندرگاہ انچن پہنچے. وہان سے چینی لے کر اسرایُل کے لیےُ چل پڑے. راستہ میں یونان کی ایک بندرگاہ پر ٹھہرے .کھانے پینے اور جہاز کے لیےُ ایندھن وغیرہ لیا. اس کے ساتھ عملہ کے کچھ مزید ممبر بھی آےُ. ان میں 3 سری لنکن اور دو انڈین تھے. دونوں پنجاب کے ان پڑھ کسان تھے. ایک کا نام راجندر سنگھ اور دوسرے کا نام ہرنام سنگھ تھا. دونوں ” مونے سکھ” تھے. مونے سکھ داڑھی مونچھ نہیں رکھتے. بعض کلین شیو ہوتے ہیں اور نعض نے صرف مونچھیں رکھّی ہوتی ہیں . راجندر کا اپنے گاؤں میں اپنا ٹریکٹر تھا اور اسے انجن کی کچھ سوجھ بوجھ تھی. اسے ایجن روم میں “وایُپر ” لگا دیا گیا. ہرنام کو میس بواےُ کی ڈیوٹی ملی. جہاز روانہ ہؤا موسم کاعتبار نہیں ہوتا . کسی بھی وقت تیز ہوایُیں چلنے لگتی ہیں. جو جہاز کو بری طرح ہلاتی رہتی ہیں. ایسے وقت میں جہاز کی حرکت دو طرح کی ہو سکتی ہے :
1 – جہاز کا اگلا سرا اونچا ہو جاتا ہے اور پچھلا سرا نیچے ہو جاتا ہے. اور پانی کی لہر گزرنے پر اگلا سرا نیچا اور پچھلا سرا اوپر اتھ جاتا ہے. جہاز کی یہ حرکت بڑی خطرناک تصّور کی جاتی ہے. اس میں جہاز کے درمیان سے دو ٹکڑے ہونا کا خدشہ رہتا ہے.
2 – دوسری صورت میں جہاز کبھی دایُں اور پھر بایُں طرف جھولے کی طرح جھولتا ھے. یہ حرکت اتنی خطرناک نہیں ہوتی.
جو آدمی پہلی دفعہ بحری جہاز میں سفر کرے یا ملازمت کے لیےُ آےُ، تو اسے زبردست قسم کی الٹیاں شروع ھو جاتی ہیں،. ھرنام سنگھ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہؤاوہ اپنے کیبن میں جا کر لیٹ گیا، اور الٹیان کرتا رہا. میں اسے تسلّی دینے کے لیےُ اس کے پاس گیا. اسے تسلّی دی کہ شروع میں ایسا ہوتا ہے، آنُدہ سے تم اس کے عادی ہو جاؤ گے. وہ اس ایجنٹ کو گالیان دینے لگا جس کے زریعے اسے بحری جہازپر نوکری ملی تھی. ہرنام کے الفاظ یہ تھے :
” حرامزادے ایجنٹ نے ہمیں دھوکا دیا. وہ کہتا تھا بحری جہاز کے بڑے بڑے پہیے ہوتے ہیں . واہ گورو کی قسم، اگر مجھے پتہ ہوتا کہ  جہاز نے سمندر         میں چلنا ہے ، تو میں کبھی بھی یہ ملازمت قبول نہ کرتا” .


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *