سپرا قبیلہ کا بے لوث سماجی کارکن – محمود رضا سپرا

Mehmood Sipra

سپرا قبیلہ کا بے لوث سماجی کارکن. محمود رضا سپرا

عنوانات:
نمببر 1 = تعارف نمبر 2 گاؤں کی گلیاں نمبر 3 = سڑکیں
نمبر 4 = بجلی نمبر 5 = تعلیم نمبر 6 = پُل
نمبر 7 = شناختی کارڈ نمبر 8 = زکات ، عُشر کمیٹی
نمبر 9 =کھیل کے میدان نمبر 10 = ٹیلیفون ایکسچینج
نمبر 11 -= سُویُ گیس نمبر 12 – یونین کونسلر نمبر 13 = مصالحتی کردار
نمبر 14 = تعمیر مسجد نمبر 15 = منظوری موہگہ
نمبر 16 = سر کلر روڈ.

نمبر 1 = تعارف:

ضلع منڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ کے گاؤں کرماں والا کے رہایُشی صُوبیدار ( ریٹایُرڈ ) عبدالخالق سپرا کے ہاں تیسرا بیٹا مورخہ 10 ستمبر 1967 کو پیدا ہُؤا جس کا نام محمود رضا سپرا رکھّا گیا. محمود نے ابتدایُ تعلیم مڈل سکول دھریکاں کلاں سے حاصل کی. پھالیہ ہایُ سکول سے میترک پاس کیا. علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام اُباد سے پہلے ایف اے اور پھر بی اے کیا. 1980 سے محمود سپرا نے فلاھی کاموں کا آغاز کیا. یہاں ہم اُن فلاحی کاموں پر ایک نظر ڈالیں گے جو محمود سپرا کی کوششوں سے پایہُ تکمیل تک پہنچے.

نمبر 2 =گاؤں کی گلیاں:

َ گاؤں کی گلیاں 1980 تک کچّی تھیں، بارش ہو جاتی تو ہر طرف کیچڑ ہو جاتا تھا ، محمود نے سب سے پہلے گلیوں کو پختہ کرانے کی طرف دھیان دیا. لوگ اپنے طور پر خرچ کرنے کو تیار نہ تھے. محمود نے علاقے کے ایم این اے سے متعدد ملاقاتیں کیں اور انہیں اس منصونے یا ترقیاتی کام کی اہمیّت کو تسلیم کرا لیا. اور اس طرح گاؤں کی گلیوں کو پہلی دفعہ 1982 میں پختہ اینٹیں لگا کر صاف ستھرا بنایا گیا.

  پختہ ایںٹیں 2004 تک ٹوٹ پھوٹ گییُں ، چنانچہ 2004 میں دوبارہ گاؤں کی تمام گلیوں کو نیےُ سرے سے پختہ کیا گیا.

اکتوبر 2018 میں گاؤں کی تمام گلیوں کو سیمنٹ اور بجری سے پختہ کر دیا گیا. اور یہ سب کام محمود سپرا کی کوشش سے ہُؤا.

Cemented streets.
Cemented streets.

نمبر 3 = سڑکیں:

پھالیہ شُوگر مل گاؤں کے شمال کی طرف نزدیک ہی واقع ہے.مل والوں نے مانو چک سے مل تک پکّی سڑک بنوایُ. مل سے گاؤں تک کچّا راستہ جاتا تھا. محمود سپرا نے بھاگ دوڑ کر کے اسے پُختہ اینٹیں لگوا کر آمد و رفت میں آسانی پیدا کر دی. بعد میں اسے سیمنٹ، بجری سے پُختہ کوا دیا. 2020 میں اس سڑک کے اختتام سے لے کر مسجد تک مٹّی ڈلوا کر اونچا کیا گیا اور سیمنٹ بجری سے پختہ کروایا.
گاؤں سے قبرستان تک پختہ اینٹوں کی سولینگ لگوای، جسے بعد میں نزدیکی نہر کے پُل تک بڑھا دیا گیا.

Cemented road .
Cemented road .

نمبر 4 = بجلی:

 عیسوی سن 1998 میں واپڈا والے بجلی کا ایک ٹرانسفارمر گاؤں میں اُتار گیےُ. ایک ہفتہ بعد اُسے واپس لینے آ ےُ کہ یہ ٹرانسفارمر موضع کڑیانوالا کے لیےُ تھا، غلطی سے اس گاؤں میں بھیج دیا گیا تھا ، اب واپس لینے آےُ ہیں.
سارا گاؤں اکٹھّا ہو گیا کہ یہ ٹرانسفارمر واپس نہیں دیں گے. اب یہ آ گیا ہے ، اس کے ساتھ ہمیں بجلی بھی دو. محمود نے بھاگ داڑ کر کے گاؤں کی لیےُ بجلی منطور کرا لی. پھر بجلی کے کھمبے لگ گیےٰ. اور لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں بجلی کے میٹر لگوا لیےُ.

صرف ایک ٹرانسفارمر پورے گاؤں کی بجلی کی ضروریات کے لیےُ ناکافی تھا. محمود سپرا دوسرے ٹرانسفارمر کے حصول کی کوشش کرنے لگا. اس سلسلے میں وہ صوباٰ یُ محتسب لاہور کے پاس کیُ دفعہ گیا کہ واپڈا ہمیں دوسرا ٹرانسفارمر نہیں دے رہا. آخر کار محمود سپرا کی کوششیں رنگ لایُیں. اور دوسرا ٹرانسفارمر لگنے سے گاؤں میں بجلی کی سپلایُ بہتر ہو گیُ .

محمود نے اس پر ہی اکتفا نہ کیا، اور تیسرا ٹرانسفارمر بھی گاؤں والوں کی سہولت کے لیےُ لگوا لیا.

گاؤں کے مشرق میں مہاجروں کے ڈیرے ہیں. ان ڈیروں پر بجلی نہیں تھی. ان مہاجروں میں خورشید، صدّیق ( بڑا اور چھوٹا ) بچنا، نایُب دین ،نزیر اور فقیریا شامل ہیں. محمود نے اپنی تگ و دو شروع کر دی. اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ ان مہاجروں کے ڈیروں میں بجلی کے نیےُ کھمبے لگ گیےُ، نیا ٹرابسفارمر لگ گیا اور ان ڈیروں میں بجلی بھی آ گیُ.

Electricity Pole
Electricity pole.

نمبر 5: تعلیم:

گاؤں میں لڑکیوں کے لیےُ ایک پرایُمری سکول تھا. محمود سپرا کی کوششوں سے جون 2019 میں اسے پرایُمری سے گورنمنٹ سیکنڈری سکول براےُ گرلز کا درجہ دے دیا گیا. سکول کی عمارت ایک کھُلی جگہ پر بنایُ گیُ، جس کے گرد اونچی پختہ چار دیواری ہے.
گاؤں سے گرلز سکول تک 3 ایکڑ لمبا راستہ پختہ اینٹوں سے بنوایا.
گاؤں کے بوایُز پراُیمری سکول کے لیےُ 2019 میں فرنیچرخریدا، سکول کے گرد چاردیواری بنوایُ اور سکول کے کمروں میں دروازے لگواےُ،

Govt. Secondary School for girls.
Govt. Secondary School for girls.

نمبر 6 . تعمیر پُل:

گاؤں کے مغرب میں نہر پر بہت پرانا بنا ہُؤا پُل ٹوٹ گیا تھا. جس سے گاڑیوں ، موٹر سایُکلوں کا گزرنا بند ہو گیا، لوگ بھی بہتی نہر سے گزرتے تھے. محمود سپرا نے دن رات ایک کر کے نیا پُل بنانے کی منظوری حاصل کی. پُل بنانے والوں کی رہایُش اور کھانے کا انتظام خود برداشت کیا. اہنی نگرانی میں سارا کام کرایا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ پُل میں استعمال ہونے والا سریا، سیمنٹ اور ریت کی مقدار صحیح ہو، تا کہ پُل مضبوط بنے. ایک دوسرا پُل بھی اسی نہر پر بنوایا، جس سے موضع دھریکاں کلاں کے زمینداروں کو اپنی زمینوں میں جانے کی بڑی سہولت ہو گیُ.

نمبر 7 ، شناختی کارڈ:

گاؤں کے لوگوں خصوصآ عورتوں کے شناختی کارڈ بنے ہُوےُ نہیں تھے. محمود سپرا نے 2012 میں نادرا کے عملہ کو گاؤں میں بُلوایا. جو شناختی کارڈ بنانے والی مشین بھی ساتھ لاےُ. یہ لوگ 3 دن تک گاؤں میں رہے. بہت سارے لوگوں نے اپنے شناختی کارڈ بنوا لیےُ. اس عملہ کی رہایُش اور کھانے پینے کا انتظام محمود سپرا نے خود کیا.
گاؤں کے بہت سارے لوگوں کے شناختی کارڈ نہیں بنے تھے، چنانچہ 2013 میں نادرا کے عملہ کو محمود سپرا نے پھر بُلایا. نادرا کا عملہ گاؤں میں 3 دن رہا . جب 18 سال سے زیادہ عمر کے سب لوگوں کے شناختی کارڈ بن گیےُ تو نادرا کا عملہ واپس چلا گیا، اس دفعہ بھی عملہ کی رہایُش اور کھانے پینے کا سارا انتظام محمود سپرا نے خود کیا.

نمبر 8 = زکات ، عُشر کمیٹی.

ستمبر 2019 میں محمود سپرا کو زکات، عُشر کمیٹی براےُ موضع کرماں والا اور موضع جونوکے کا صدر چُنا گیا. اپنی اس صدارت کے عرصہ میں اس نے صرف حقیقی غریب اور بیواؤں کی امداد کی سفارش کی. یہ اس لیےُ ممکن ہُؤا کیونکہ محمود سپرا دونوں مواضعات کے تمام لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا تھا کہ کون امداد کا صحیح حقدار ہے.

نمبر 9 : کھیل کا میدان :
گاؤں میں لڑکوں کے کھیلنے کے لیےُ کویُ پلے گراؤنڈ نہیں تھا. لڑکے گاؤں کے قبرستان میں جا کر کھیلتے تھے. محمود سپرا نے کوشش کر کے کھیلوں کے لیےُ 2 ایکڑ زمین مختص کروایُ. اب لڑکے اس میدان میں کھیلتے ہیں.

نمبر 10 = ٹیلیفون ایکسچینج :

گاؤں کے لوگوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ موضع کرماں والا میں ٹیلیفون ایکسچینج بھی لگ سکتا ہے . محمود سپرا نے اپنی انتھک کوششوں سے یہ ممکن کر دکھایا.. ٹیلیفون ایکسچینج کے لیےُ عمارت مہیّا کی گییُ. اور 2005 میں ٹیلیفون ایکسچینج نے کام شروع کر دیا. لوگوں نے گھروں میں تیلیفون لگوا لیےُ.

نمبر 11 : کونسلر

عیسوی سن 2015 میں یونین کونسلوں کے انتخابات  ہوےُ . اس سے پہلے موضع کرماں والا ، پنڈی کالُو یونین کونسل میں شامل تھا. نیُ حلقہ بندیوں میں اسے یونین کونسل   مانو چک میں شامل کر دیا گیا. گاؤں میں کویُ بھی الیکشن لڑنے کو تیّارنہ تھا.
گاؤں کے سارے زمیندار گھرانوں کے لوگ محمود سپرا کے گھر آےُ اور اُسے اپنے متفقہ امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کی پیشکش کی. ًمحمؤد نے انکار کر دیا. لیکن گاؤں کے لوگ مُصر رہے. اپنی مکمل سپورٹ کا یقیں دلایا. کافی بحث کے بعد وہ محمود سپرا کو الیکشن لڑنے پر تیار کرنے میں کامیاب ہو گیےُ. محمود سپرا بھاری ووٹوں سے کامیاب ہو کر کونسلر منتخب ہُؤا.

نمبر 12 = سُویُ گیس کی سُپلایُ .

کونسلر بننے سے بہت پہلے محمود سپرا گاؤں میں سویُ گیس لانے کی کوششوں میں مصروف تھا. سویُ ناردرن گیس پایُپ لایُن لمیٹڈ کو بہت پہلے درخواست جمع کرا دی گیُ تھی. محمود سپرا ہر 15 دن کے بعد سویُ گیس کے دفتر جا کر درخواست کی پیروی کرتا تھا. اس سلسلے میں علاقہ کے ایم این اے کو مدد کرنے کی اپیلیں بھی کیں. آخر کار سویُ گیس والوں نے گاؤں تک گیس لانے کے لیےُ پایُپ بچھا دیےُ. پھر ڈیمانڈ نوٹس جاری ہوےُ. ہر ایک کنکشن کے2،500 روپے جمع کراےُ گیےُ. .بعض غریبوں کے پیسے محمود سپرا نے اپنی جیب سے ادا کیےُ. سویُ گیس کا پہلا میٹر 17 ستمبر ، 2020 کو لگا. اب تقریباّ گاؤں کے ہر گھر میں سویُ گیس پہنچی ہویُ ہے.

Sui Gas Meter
Sui Gas Meter

نمبر 13 – تعمیر مسجد :

سروع سے ہی گاؤں میں ایک ہی مسجد تھی. پھر یوں ہُؤا کہ ایک نیا امام مسجد آیا، جو بریلوی عقایُد کا پیروکار ہے. اس نے گاؤں میں تفریق پیدا کر دی. اور گاؤں میں عقایُد کے لحاظ سے دو دھڑے بن گیےُ. ایک دھڑے نے ایک دوسری مسجد کی تعمیر محمود سپرا کی نگرانی میں شروع کر دی. مسجید کے لیےُ زمین ایک شخص نے بلا معاوضہ دی. مسجد 2015 میں 1،20،327 روپے میں مکمل ہویُ. مزدور اور مستری بلا معاوضہ کام کرتےرہے. اب اس مسجد میں پانچ وقتی نماز ادا ہوتی ہے.

نمبر 14 – منظوری موہگہ براےُ آب پاشی :

گاؤں کے پاس سے گزرنے والی نہر کے شمال کی طرف آب پاشی کے لیےُ کویُ ایک بھی موہگہ نہیں. محمود سپرا نے اس کمی کو دُور کرنے کے لیےُ محکمہ انہار سے رابطہ کیا اور انہیں باور کرایا کہ فصلوں کی بہتر آب پاشی کے لیےُ نہر کے شمال کی طرف ایک موہگہ نہایت ضروری ہے. اس موہگہ کی محکمہ انہار سے منظوری مل چکی ہے.

نمبر 15 – سرکلر روڈ :

محمود سپرا کی کوششوں سے گاؤں کے ارد گرد پختہ سرکلر روڈ کی تعمیر کی منظوری مل چکی ہے.

نمبر 16 – مصالحتی کردار :

محمود سپرا کا مصالحتی کردار نا قابل فراموش ہے. اس کی کسی سے لڑایُ نہیں تھی. گاؤں میں اکثر لڑایُ جھگڑے ہوتے رہتے ہیں. جس میں بعض لوگ ایک دوسرے کے خلاف پولیس میں پرچہ کٹوا دیتے ہیں. پولیس بعض لوگوں کو پکڑ کر اپنی حوالات میں بند کر دیتی ہے. ایسے میں لوگ محمود سپرا کے پاس آتے تھے. محمود سپرا نے ہمیشہ دونوں فریقوں میں صلح کرایُ اور ان کے آدمیوں کو تھانے کی حوالات سے رہایُ دلوایُ. یہ سب خدمات نلا معاوضہ ہوتی تھیں.
گاؤں میں روزانہ ہی رات کو سرکردہ لوگ بیٹھ کر گاؤں کے لوگوں کے اختلافات ختم کرانے کی کوشش کرتے ہیں. یہاں محمود سپرا کی حاضری ضروری سمجھی جاتی تھی. اور لوگ اس کا فیصلہ مانتے تھے.
ایسا کیُ دفعہ ہُؤا کہ محمود سپرا بیمار ہے یا اُسے بخار ہے. کویُ آدمی کسی کام سے آ گیا، محمود نے کبھی بہانہ نہ کیا کہ میں اس وقت بخار میں تپ رہا ہُوں، کل ساتھ چلوں گا. ًمحمود سپرا نے کپڑے پہنے اور اس آدمی کے ساتھ چل دیا.

کہتے ہیں کہ خدا اپنے نیک بندوں کو جلد ہی اپنے پاس بُلا لیتا ہے. محمود سپرا تقریبآ 3 ماہ بیمار رہنے کے بعد 25 مارچ 2020 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا.

محمود کویُ بہت بڑا لینڈ لارڈ نہیں تھا، لیکن اللہ نے اُسے دل بہت بڑا عنایت کیا تھا. اس نے جو فلاحی کام کرواےُ، اس میں اس کی محنت اور بعض میں مالی مدد بھی شامل تھی. زیادہ اخراجات والے کاموں کے لیےُ محمود سپرا علاقے کے ایم این اے سے ملتا، اور ایہیں اُس کام کی اہمیّت واضح کر تا. ایم این اے محمود سپرا کی اہمیت اور دیانت داری کی قدر کرتے تھے. وُہ ایسے ترقیاتی کاموں کے لیےُ فنڈ مہیّا کر دیتے تھے. کام ختم ہونے پر محمود سپرا انہیں اخراجات کی پوری تفصیل لکھ کر دیتا تھا. فنڈ میں سے ایک روپیہ بھی اپنی ذات پر لگانا گناہ سمجھتا تھا. یہی وجہ تھی کہ ایم ان اے ترقیاتی کاموں کے لیےُ ہمیشہ محمود سپرا پر اعتماد کرتے تھے.

ًمحمود پانچ وقت کا نمازی اور دوسروں کی مدد کے لیےُ ہر وقت تیّار رہتا تھا. گاؤں کے کمیوں کا بڑا ہمدرد تھا. حتّے الوسع ان کی مالی امداد اس طرح کرتا تھا کہ کسی دوسرے کو اس کی خبر تک نہ ہوتی تھی. جو کویُ اس سے ملنے اس کے گھر آتا، سب سے پہلے ، سردیوں میں اسے دودھ پتّی کی چاےُ پلاتا. گرمیوں میں شربت روح افزا پلاتا. پھر پوچھتا کی مسُلہ کیا ہے ؟.

محمود سپرا 25 مارچ 2020 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا. یہ وہ دن تھا جب کرونا کی وجہ سے ملک میں لاک ڈاؤن لگا. ًھمود سپرا کو فوت ہُوےُ پونے دو سال ہو چکے ہیں ، ابھی تک لوگ اس کے فاتحہ کے لیےُ آ رہے ہیں.

اللہ تعالے سے دعا ہے کہ وہ محمود کو جنت الفردوس میں اعلے مقام عطا فرماےُ. اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرناےُ. آمین، ثم آمین.

2 Responses

  1. Historical work
    To explore root of SIPRA .. it verbal folk .. recoded prothi ..nasib namma by family
    Meer alam…..
    It restoration of verbal & written history by respected author
    Keep it up …you are exploring history make and extended to next generation for nation building self hounar & pride
    PAKISTAN one nation theory …

Leave a Reply