Article in daily Jang, Lahore about E.V.M

الیکٹرانک ووٹنگ مشین – حصہ سوم

الیکٹرانک ووٹنگ مشین

 حصہ سوم

الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ایسے ہی نہیں بن جاتیں. ان پر زر کثیر صرف ہو گا. جو ہماری پہلے سے گرتی ہویُ معاشی حالت پر ” مرتے کو مارے شاہ مدار ” والی کیفیت ہو گی. کبھی اندازہ لگایا کہ الکشن کے لیےُ پورے ملک کے لیےُ کتنی مشینیں درکار پوں گی ؟. ان کے لیےُ بیٹریاں، کیبلز اور دیگر ضروری سامان کے لیےُ کس قدر سرمایہ چاہیےُ ؟. کیا ہماری گرتی ہویُ معیشت یہ بوجھ اٹھا سکے گی ؟. ذاتی خواہش کو ملکی مفاد پر ترجیح دیں.
دنیا کے کتنے ہی ممالک ای-وی-ایم کا تجربہ کر کے واپس پیپر بیلٹنگ کی طرف آ چکے ہیں، اور ہم ان کے تجربات سے فایُدہ اٹھانے کی بجاےُ ایک غیر ضروری مہنگے تجربہ کی ترف جانے کا پراپوگنڈا کر رہے ہیں. کیا اندھی تقلید اس لیےُضروری ہے کہ یہ ایک شخص کی خواہش ہے جو اپنے تین سالہ دور حکومت میں ہر شعبہ میں بری طرح ناکام ہؤا ہے؟.
قانون کے مطابق پاکستان الیکشن کمیشن ہی اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ ملک میں کون سا طریقہ انتخابات ہو. الیکشن کمیشن پہلے ہی پیپر بیلٹینگ کے حق میں فیصلہ دے چکا ہے. اگر اداروں کے اختیارات میں مداخلت کرنی ہے تو ملک میں مارشل لاُ لگا کر سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیں اور پھر ” سنجیاں ہوون گلیان وچ مرزا یار پھرے ” کے مطابق جو مرضی ہو کرو.
ہمارے ملک کے تمام الیکشن غنڈہ گردی، دھونس دھاندلی کے واقعات سے بھرے ُڑے ہیں. لوگ پولنگ آفیسرز کو ووٹوں کے تھیلوں سمیت اغوا کر لیتے ہیں اور اپنے امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد جعل سازی کے ذریعے بڑھا لیتے ہیں. ای-وی-ایم کے تحت ووٹنگ میں اگر لوگ ان مشینوں کو ہی توڑ دیں یا غاٰیُب کر دیں تو پھر کیا ہوگا؟.
اپنے ملک کے مفاد کے لیےُ ٹھنڈے دل سے سوچیےُ. نیےُ نیےُ تجربات کر کے ہم بہت کچھ گنوا چکے ہیں ، خصوصاُ اپنے ملک کا وقار اور عزّت. دوسرے ممالک ہمیں وہ مرتبہ اور عزّت دینے کو تیار نہیں جو آج سے چار سال پہلے دیتے تھے،
آخر میں روزنامہ ” جنگ ” لاہور کی اشاعت مورخہ 11 میُ 2021 میں محترم طاہر خلیل اپنے ایک مضمون میں یوں رقم طراز ہیں :

سیاسی منظر نامہ، اوورسیز پاکستانیون کو ووٹ کا حق “سیاسی نعرہ” ؟

عملی شکل مشکل مرحلہ ہو گا. محض آردی ننس جاری ہونے سے ہر خواہش کی تکمیل نہیں ہو سکتی.
اسلام آباد (طاہر خلیل) الیکشن کمیشن عید کے بعد سیاسی جماعتوں سے رابطے کا ارادہ رکھتا ہے. تاکہ آیُندہ عام انتخابات میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں سے مشاورت ہو سکے. اور ان کی تجاویز کے تحت انتخابی عمل میں سابقہ غلطیوں کا ازالہ کر کے انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے. 2018 کے انتخابات میں رزلٹ منیجمنٹ سسٹم ( آر ایم ایس ) فیل ہونے سے الیکشن کمیشن کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا تھا. رزیلٹ منیجمنٹ سسٹم کی ناکامی کی دو بڑی وجوہات سامنے آیُ تھیں. ایک تو یہ کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کا نظام بہت کمزور ہے. ملک کے دور دراز علاقوں میں اب بھی انٹر نیٹ بوسٹر ہی موجود نہیں اس لیےُ وہاں انٹر نیٹ کی رسایُ مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے. دوسرا یہ کہ بڑے شہروں کو چھوڑ کر ملک کے بیشتر علاقے اب بھی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ سے متاثر ہیں. خاص طور پر سابقہ فاٹا کے اضلاع میں تو کیُ کیُ دن بجلی کی سپلایُ معطل رہتی ہے. اسی طرح کی لوڈ شیڈنگ کا جواز ایک ہی بتایا جاتا ہے کہ جن علاقوں کے لوگ بجلی کے بل ادا نہیں کرتے، یا بجلی چوری کرتے ہیں، وہان بجلی سپلایُ نہیں ہو سکتی. یہ حقیقت ہے کہ ملک کو سنگین توانایُ بحران کا سامنا ہے حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے
الیکٹرانک ووٹنگ اور بیرون ملکوں میں پاکستانی تارکین وطن کے لیےُ ووٹ کا حق ” سیاسی نعرہ ” تو ہو سکتا ہے. ان دونوں منصوبوں کو سیاسی ًمحازآرایُ اور خستہ حال معیشت کی موجودگی میں عملی شکل دینا مشکل مرحلہ ہو گا. محض آردی ننس جاری ہونے سے ہر خواہش کی تکمیل نہیں ہو سکتی.
سیاسی پارٹیاں اور الیکشن کمیشن انتخابات کے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں. یہ فیصلہ حکومت نہیں، الیکشن کمیشن کے کرنے کا ہے. اس کی آیُنی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی کیسے بنانا ہے. آیُن کے آرٹیکل 218 میں واضح طور پر قرار دیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فرض ہوگا کہ وہ انتخابات کا انتظام کرے اور اسے منعقد کراےُ. اور ایسے انتظام کرے جو اس امر کے اطمینان کے لیےُ ضروری ہوں کہ انتخابات ایمانداری، حق اور انصاف کے ساتھ قانون کے مطابق منعقد ہوں، اور بد عنوانیوں کا سد باب ہو سکے.
حکومت انتخابات کے دونوں بڑے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر یک طرفہ فیصلہ نافذ کرنے کی خواہش کی تکمیل چاہتی ہے جبکہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے معاملے میں الیکشن کمیشن اور پولیٹیکل پارٹیز کے ساتھ ایک اور بڑا سٹیک ہولڈر وہ دوست ممالک ہیں جہاں اوورسیز پاکستانی اپنا حق راےُ دہی استعمال کریں گے. ایک بڑا سوال تو یہ ہے کہ کیا پاکستان کا قانون دوسرے ملکوں میں نافذ کر سکتے ہیں ؟ کیا خلیجی ملکوں میں جہاں اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور وہاں روایُتی جمہوریت نہیں، پاکستانی تارکین وطن کو پسندیدہ جماعتوں اور ان کے امیدواروں کی سیاسی کمپین کی اجازت ملے گی ؟ جمہوریت کے جو قوانین ہم نے رایُج کر رکھے ہیں ، دنیا کے دوسرے ممالک انہین کیوں کر تسلیم کریں گے ؟.
آپنے ملک کو بچایُے ، اپنا وقار بحال کیجیےُ. تاکہ پم بھی دنیا میں سر اٹھا کر چل سکیں. ا
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو. پاکستان زندہ باد. پاکستان پایُندہ باد.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *