Electronic Voting Machine

الیکٹرانک ووٹنگ مشین – حصہ دوم

الیکٹرانک ووٹنگ مشین

حصہ دوم

الیکٹرینک ووٹنگ ختم یا رد کرنے والے ممالک:

دنیا کے کیُ ممالک نے الیکٹرانک ووٹینگ شروع کی لیکن بعض وجوہات کی بنا پر اس سسٹم کو ختم یا منسوخ کرنا پڑا. بعض وجوہات یہ ہیں :
نمبر 1 – سیکورٹی — الیکٹرانک ووٹینگ سسٹم میں سیکورٹی لیکج دیکھنے میں آیُ.
نمبر 2 – سسٹم نا قابل اعتبار ثابت ہؤا.
نمبر 3 – ہر الیکشن میں سسٹم کو اپ ڈیٹ کرنے اور دیکھ بھال . پر بہت اخراجات اٹھنے لگے.
مندرجہ زیل ممالک نے اپنے بعض انتخابات میں الیکٹرک ووٹنگ استعمال نہیں کی
نمبرشمار- ملک- انتخابات
نمبر 1 ارجنٹایُن نیشنل
نمبر 2 – برکنا فاسہ نیشنل،میونسپل
نمبر 3 – کینیڈا نیشنل
نمبر 4 – فن لینڈ نیشنل، میونسپل، 17-2016 منسوخ
نمبر 5 – فرانس ” ” 2017 منسوخ
نمبر 6 – جرمنی ” ” پابندی 2009.
نمبر 7 – گھانا
نمبر 8- انڈونیشیا
نمبر 9 – آیُرلینڈ ” ” پابندی 2010
نمبر 10- قازکستان ” ” “2011
نمبر 11- لیتھوانا
نمبر 12-ملایُشیا
نمبر 13- موزنبیق
نمبر 14- نیدرلینڈ ” – پابندی 2007
نمبر 15- ناروے ” میونسپل
نمبر 16- روس
نمبر 17 سپین
نمبر 18- سویڈن
نمبر 19- زمبابوے
نمبر 20- انگلینڈ
source: Wikipedia

ہماری حکومت الیکٹرانک ووٹینگ پر بضد کیوں ؟

ہماری موجودہ حکومت کا ہر کام نرالا ہوتا ہے. حکومت کے سربراہ کے ذہن میں جو آےُ ، اسے کرنے کے لیے سارا زور لگا دیتی ہے. چاہے ملک کے لیےُ وہ بات فایُدہ مند نہ ہو. آج کل حکومت کا سارا ٹبّر ای-وی-ایم کے گُن گانے پہ لگا ہے. انہیں شایُد ان کے متعلق پوری معلومات نہ ہوں. ان مشینوں کو کیسے :ہیک : کیا جاتا ہے. ان مشینوں کو کہاں سے حاصل کرنا ہے. یہ عین ممکن ہے کہ جس سپلایُر سے مشینیں لی جایُں وہ پرانی مشینیں دے دے. ان مشینون کی کوالٹی اور کام کو کون چیک کرے گا. اس سارے پراجیکٹ پر کتنا خرچ آےُ گا. یہ خرچ کس کی جیب سے نکلے گا. سارے وزرا یہی گن گا رہے ہیں کہ ان مشینوں کے ذریعے الیکشن کا نتیجہ صرف ایک منٹ میں پتہ چل جاےُ گا. ( غلط یا صحیح، انہیں اس سے غرض نہیں )اس سے پہلے جن ملکوں نے ان مشینوں کو 2000 سے استعمال کرنا شروع کیا ہے وہ ن مشینوں کو ان وجوہات کی وجہ سے رد کر چکے ہیں :
نمبر 1- ان مشینون کو بآسانی ‘ہیک” کیا جا سکتا ہے.
نمبر 2- یہ مشینیں بناتے وقت ان کے سافٹ ویُر میں تبدیلی کر کے اپنی مرضی کے نتایُج حاصل کیےُ جا سکتے ہیں.
نمبر 3- ان کے نتایُج پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سو فی صد صحیح ہیں.
نمبر 4- ہمارے ملک میں جنرل الیکشن ہر 5 سال بعد ہوتے ہیں. آج کی خریدی ہویُ مشینیں 5 سال بعد جب کہ نیُ ٹیکنالوجی آ چکی ہو گی ، ان پرانی مشینوں پر اعتماد کیا جا سکے گا؟.
ہر الیکشن پر نیُ مشینیں خریدی جایُں گی ؟ یعنی ہر دفعہ اربوں کا خرچہ !.

مزید مشکلات

ہمارے ملک کا سایُنس اینڈ ٹیکنالوجی کا محکمہ جن صاحبان کے سپرد رہا ہے یا ہے ، وہ سایُنس کی الف بے سے بھی واقف نہیں. اس محکمے کے چھوٹے سے بڑے تک یہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کیسے کام کرتی ہے. ان مشینوں میں اگر کویُ نقص پیدا ہو جاےُ تو اسے کون درست کرے گا. اپنے ملک میں یہ مشینیں بنانے کے لیےُ کم از کم 20 سال کا عرصہ درکار ہوگا. وہ بھی اس صورت میں جب کہ محکمہ کا سربراہ کویُ قابل سایُنس دان ہو اور اسے ہر 5 ماہ بعد تبدیل نہ کر دیا جاےُ.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مشینین کہاں سے بنوایُ جایُں ؟. پرانی مشینیں خریدنا بے وقوفی ہو گی. بنی بنا یُ گیُ مشینوں کو انسپیکشن کے بغیر خریدنا گویا ملین ڈالروں کو سمندر میں پھینکنا ہے. مشینیں بنواتے وقت ان کے ہر کام کی نگرانی ضروری ہوگی. ایسے معتبر اور کام کو سمجھنے والے انسپیکٹر کہاں سے ملیں گے؟. کسی دوسرے ملک کا انسپیکٹر لگانے کی صورت میں اس بات کی کیا گارنٹی ہوگی کہ وہ اپنا کام پوری ایمانداری سے کرے گا. کویُ بھی شخص 100 ملین ڈالر کے عوض مشینوں کے سافت ویُر میں چند الفاظ کی فایُل شامل کر کے
مشینوں کے پررے عمل کو نا قابل اعتبار بنا سکتا ہے. ایسے غلط کام کی نشان دہی بھی بڑی مشکل ہوتی ہے.
دنیا کے ہر سافٹ ویُر میں ، خواہ وہ کتنی ہی محنت اور عرق ریزی سے بنایا گیا ہو، اس میں کہیں نہ کہیں کویُ ایک آدھ خلا یا نقص ضرور ہوتا ہےجس میں سے ” ہیکر ” اس میں داخل ہو کر چند الفاظ شامل کر کے پورے سافٹ ویُر پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیتا ہے. اور اپنی مرضی کے نتایُج کو حاصل کرنا ممکن بنا لیتا ہے.یہ ایسا مسُلہ ہے جس پر قابو پانا بہت مشکل ہے.
موجودہ حکومت کے اب تک کے سارے اقدامات سے حکومتی پارٹی یا اس کے حواریوں کو ہی فایُدہ پہنچا ہے. عام آدمی مہنگایُ کے بوجھ تلے آ کر خودکشی کر رہا ہے. عوام ہر روز وزیروں، مشیروں کی تقریریں سنتے ہیں اور تقریروں سے کسی بھوکے کا پیٹ نہیں بھرتا. ان مشینوں کی خریداری پر جو اربوں روپیہ خرچ ہوگا، وہ پیسہ مہنگایُ کو کم کرنے پر خرچ کیا جاےُ تو اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا.

ملک میں پچھلے چار پانچ ضمنی انتخابات میں حکمران پارٹی کو بری طرح شکست ہویُ ہے اور وہ کسی بھی حلقہ میں کامیاب نہیں ہویُ. انہی شکستوں کے بعد ملک کے وزیر اعظم کے رویُے میں دو تبدیلیاں دیکھنے میں آیُں.
نمبر 1 – وزیر اعظم ہر تقریر میں دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی تعریف کرتے تھکتے نہیں. یہ درست ہے کہ ایسے پاکستانی محنت مزدوری کر کے اپنے ملک میں زر مبادلہ کی شکل میں رقوم بھیجتے ہیں. جس کی ملک کو اشد ضرورت ہے. اس طرح ان کے اس کام کی تعریف تو بنتی ہے.
نمبر 2- پاکستان کے محترم صدر صاحب نے وزیر اعظم کی اڈوایُس پر ایک آردینینس جاری کیا ہے جس میں سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے.

اپنے ملک کے لوگ احمق نہیں ہیں. وزیر اعظم کے اوپر ، جلدی میں کیےُ گیےُ اقدامات ، کو وہ ایک دوسری نظر سے دیکھتے ہیں. ان کے خیال میں، ملک میں ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد ، حکمران پارٹی کو اپنی مقبولیت کا اندازہ ہو گیا ہے. اور ان کے خیال میں، موجودہ مہنگایُ، بے روزگاری، حکومتی نااہلی ، آےُ روز کے تبادلے، اقربا پروری، وزرا اور مشیروں کی بھرمار، غیر ضروری پوسٹیں بنا کر اپنی پارٹی والوں کو نوازنا، اپنے ساتھیوں کو ایسی وزارتیں دے دینا جن کے وہ اہل ہی نہیں، جو کام بھی شروع کیا اس میں ناکامی ہویُ وغیرہ وغیرہ ایسی وجوہات ہیں کہ ان کا اگلے الیکشن میں جیتنا مشکل ہے.( بشرطیکہ 2018 والے الیکشن والا جھرلو استعمال نہ ہو). سمندر پار پاکستانیوں کی تعریف، انہیں ووٹ کا حق دینا ، ان کی ہمدردیاں جیتنے کی ایک کوشش ہے.
سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا اچھی بات ہے. لیکن اس میں فراڈ کا بہت اھتمال ہے. سمندر پار پاکستانی اپنا ووٹ کہاں ڈالیں گے ؟. زیادہ احتمال یہ ہے کہ پاکستانی سفارت خانوں کے مختلف دفاتر میں پولنگ ستیشن بنا دیےُ جایُں گے. جہاں ووٹروں سے اپنی مرضی کے امیدواروں کے حق میں ووٹ لیےُ جایُں گے. اور آزادانہ ووٹنگ کا ڈھنڈورہ پیٹا جاےُ گا. حکمران پارٹی کی پچھلی تاریخ تو یہی ظاہر کرتی ہے کہ وہ جیت کے لیےُ ہر ناجاُیُز طریقے کو حلال سمجھتی ہے. اس طرح ان کی کوشش ہوگی کہ سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹوں کے زریعے اکثریت حاصل کرے.. دھاندلی کی شکایت پر تحقیقات کرنے اور الزام ثابت کرنے مین برسون لگ جایُں گے، جیسے فارن فنڈنگ کیس میں ہو رہا ہے. پانچ سال بیت گےُ، آج تک پارتی کا سربراہ، بار ہا بلانے کے باوجود الیکشن کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہؤا. ایک مرکزی وزیر پر جھوٹا حلف نامہ جمع کرانے کا الزام تھا، پورے پانچ سال وہ الیکشن کمیشن کے سامنے حاضر نہیں ہؤا. خیر، اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے. اور اس کے انصاف میں ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا ملے گی. غریب امیر کی تفریق نہیں ہوگی.

جاری ہے


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *