Adhoora Sawal – Pehchan – ہنسنا منع نہیں ہے.

ہنسنا منع نہیں ہے.

عنوانات :
نمبر 1 : ادھُورا سوال
نمبر 2 : پہچان

ادھورا سوال

بعض لوگوں میں ایک اچھی یا بری عادت ھوتی ہے کہ وہ صرف اسی بات کا جواب دیتے ہیں جو پوچھی جاےُ. یا ادھورا سوال پوچھتے ہیں ، جبکہ اس کے ساتھ جڑے ہؤےُ دوسرے سوال کا پوچھنا بھی ضروری ہوتا ہے. میں اپنا مدعا ایک مثال کے ذریعہ واضح کرتا ہوں :
یونانی فلسفی بقراط اپنے مکان سے تھوڑی دور چہل قدمی کر رہا تھا. اس سے ایک آدمی نے پوچھا ” بھایُ صاحب، بقراط کا گھر کس طرف ہے ” بقراط نے جواب دیا ” سیدھے چلے جایُے ، اگلے چوک سے دایُں طرف مڑ جایُں، اپنے داہنے ہاتھ مکان گنتے جایُں ، آتھواں گھر بقراط کا ھے. ” . وہ شخص بتاےُ ہوےُ پتہ پر پہنچا اور کہا میں نے بقراط سے ملنا ہے. گھر والوں نے بتایا کہ بقراط گھر سے باہر نکلا ہوا ہے تھوڑی دیر تک آ جاےُ گا. آپ انتظار کر لیں. تھوڑی دیر بعد بقراط گھر آ گیا. اس آدمی نے کہا کہ میں نے بقراط سے ملنا ہے. بقراط نے کہا ” فرماٰیےُ ، میں ہی بقراط ہوں “. وہ آدمی بولا ” اگر آپ بقراط ہیں ، تو جب میں آپ سے ملا ، اس وقت آپ نے کیوں نہ بتایا کہ میں بقراط ہوں ” بقراط نے جواب دیا ” بھایُ، آپ نے بقراط کے گھر کا پتہ پوچھا ، وہ میں نے آپ کو بتا دیا، اگر آپ پوچھتے بقراط کہاں ملے گا تو میں آپ کو بتاتا کہ میں ہی بقراط ہوں”.

ہمارے گاؤں میں بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا.
رحمت خاں عرف رحماں کی بھینس بیمار ہو گیُ، وہ غلام ً محمد عرف گاماں کے پاس آیا اور اس سے پوچھا ” تمہاری بھینس بیمار ہویُ تھی ، تم نے اسے کون سی دوایُ دی تھی ؟ ” گاماں نے جواب دیا ” میں نے ایک پاؤ کالا نمک، ایک پاؤ پرانا گڑ، ایک چھٹانک ادرک، ایک پاؤ گلقند ، ایک پاؤاجوایُن دیسی، ایک پاؤ سونف کو کوٹ چھان کر ایک پاؤ دیسی گھی میں اچھی طرح ملا کر اس کے لڈو بناےُ اور بھینس کو کھلا دےُ ”
رحماں نے سب دوایُں لیں اور بتاےُ ہوےُ طریقہ کے مطابق بھینس کو کھلا دیں. دوسرے دن اس کی بھینس مر گیُ.
رحماں، گاماں کے پاس آیا اور کہا ” میں نے تمہاری بتایُ ہویُ دوایُاں بھینس کو کھلایُں اور میری بھینس مر گیُ”
گاماں نے جواب دیا ” بھینس تو میری بھی مر گیُ تھی “

پہچان

ایک لڑکا امام مسجد ، جو کہ نا بینا تھے، کے پاسس کھیر کی ایک پلیٹ لایا. حافظ صاحب اور لڑکے کے درمیان گفتگو کچھ اس طرح کی ہویُ :
حافظ صاحب ؛ ہاں بیٹا، یہ کیا ہے ؟
لڑکا : حافظ صاحب، یہ کھیر ہے، آپ کی لیےُ لایا ہوں.
حافظ صاحب: اچھا ، کھیر ہے. بتاؤ کھیر کس رنگ کی ہوتی ہے ؟.
لڑکا : جناب ، کھیر کا رنگ سفید قمیض کی ظرح ہوتا ہے.
حافظ صاحب: اچھا اچھا، سمجھ گیا. سفید قمیض کا رنگ ایسا ہوتا ہے جیسے نیلے تہ بند کا ھوتا ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *