آکسیجن
اوپر دی گیُ تصویر ایک ھونہار نوجوان عبد الرحمان راجپوت کی ہے. ان کی ایک چھوٹی سی تحریر فیس بک میں پوسٹ ھؤیُ. مجھے یہ تحریر بہت پسند آیُ.میں نے راجپوت صاحب سے خصوصی اجازت لی کہ میں اسے اپنی ویب سایُٹ کے کالم ” ہنسنا منع نہیں ہے ” میں اپ لوڈ کر لوں. راجپوت صاحب نے اس کا عنوان نہیں لکھا . میں نے اہنی طرف سے اس کا عنوان ” آکسیجن ” تجویز کیا ہے. تحریر یہ ہے :
” اس نے کہا – میرے بغیر جی لو گے…………..
میں نے کہا- آہو… ایڈی توں آکسیجن ………..”
بظاہر 13 الفاظ پر مشتمل یہ ایک چھوٹی سی تحریر ہے لیکن لڑکے کا جواب عام جوابات کی بہ نسبت بہت ہٹ کر ہے.اور یہی اس کی انفرادیت ہے. پتھر کو پتھر تو سبھی کہتے ہیں ، اگر آپ اسے قلب کوہسار کی قاش کہ دیں پورا ہجوم جھوم اٹھے گا. یہی نکتہ اس تحریر میں ہے.
جدایُ کا دکھ اور غم ضرور ہوتا ہے ، لیکن اسے روگ بنا لینا کہاں کی عقلمندی ہے .ناصر کاظمی نے کہا تھا :
بچھڑ چکے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں
یہی بات راجپوت صاحب نے اپنے 4 لفظوں پر مشتمل جواب میں نہیایت خوبصورت اور “ڈاکٹرانہ ” انداز میں بیان کی ہے. ایک اور بات جو ان کی تحریر میں پوشیدہ ہے وہ ہے اپنی خودانحصاری کا اظہار. یعنی ” کیا تم کویُ آکسیجن ہو جو اپنی زندگی کے لےُ تمہارا محتاج رہوں گا ” اور یہ جواب کامیاب ازدواجی زندگی کا راز ہے. ایک مشہور لکھاری کا ایک انٹرویو ٹی وی پر دیکھا( ان کا نام بھول گیا ہوں ) انہوں نے بتایا کہ ” شادی کی پہلی رات کو ہم میاں بیوی باتیں کر رہے تھے. اچانک بیوی نے فرمایُش کر دی ” ایک گلاس پانی تو لا دیجےُ ” میں نے جواب دیا ” بھلیےُ لوکے، وہ سامنے میز پر پانی کا جگ اور گلاسس پڑا ہے ، اٹھو جا کر پانی پیُو اور میرے لےُ بھی پانی کا ایک گلاسس لیتے آنا ” بیوی نے اٹھ کر پانی پیا اور میرے لےُ بھی پانی لے آیُ. پھر میری بیوی نے مجھ سے پوچھا ” آپ کو پتہ ہے میں نے آپ سے پانی لانے کی فرمایُش کیوں کی تھی ” میں نے کہا نہیں. کہنے لگی ” میری ماں نے مجھے کہا تھا کہ شادی کی پہلی رات کو اپنے خاوند سے پانی لانے کی فرمایُش کرنا. اگر وہ اٹھ کر تمہارے لےُ پانی لے آیا تو وہ ساری عمر تمہارا تابعدار رہے گا. اگر وہ پانی نہ لایا تو تم اپنی حدود میں رہنا ” لکھاری کے مطابق اس ایک بات نے میاں بیوی کی حدود متعین کر دیں اور ان کی ازدواجی زندگی نہایت کامیاب ہے.
راجپوت صاحب نے بھی یہاں حدود مقرر کر دی ہیں اور یہی چیز ان کی تحریر کو منفرد بناتی ہے.