میری آواز سنو – آنٹی آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟ قسط نمبر 4

میری آواز سنو.

آنٹی! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟. قسط نمبر – 4

 

آیےُ ان شعبہ جات پر ذرا تفصیل سے بات ہو جاےُ :

نمبر 1 – فلم سازی
یہ وہ شعبہ ہے جس نے بے حیایُ پھیلانے میں سب سے زیادہ حصّہ ڈالا ہے، خصوصاُ رقص نے. فلموں میں رقص اتنے بے ہودہ ہوتے ہیں کہ آدمی اپنی فیملی کے ساتھ فلم نہیں دیکھ سکتا. ذرا سوچیےُ ، آج کل کی پنجابی فلموں میں جو ڈانس شامل کیےُ جاتے ہیں کیا ہمارے معاشرے میں واقعی ایسے ڈانس کیےُ جاتے ہیں ؟. خصوصاُ دیہاتی معاشرہ میں تو کسی ڈانس کی اجازت نہیں.کہا جاتا ہے فلم کی کہانی معاشرے کے اقدار کی نمایُندگی کرتی ہے. کیا ہمارہ معاشرہ ایسا ہے جیسے فلموں میں دکھایا جاتا ہے ؟.
یہاں فلم ساز یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اگر فلموں میں دانس نہ ڈالے جایں تو فلمیں فلاپ ہو جایںً گی اور فلموں میں لگایا ہؤا ہمارہ سرمایہ ڈوب جاےُ گا. فلم ساز سرمایہ بڑھانے کے لیےُ فلم میں بے ہودہ ڈانس شامل کرتا ہے. اس کا سرمایہ تو بڑھ جاُ گا لیکن اس کے ساتھ وہ معاشرے میں پھیلنے والی بے ہودگی کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے .
دیکھیےُ . ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے یا سمجھتے ہیں. اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قیامت کے دن ہمارا حساب کتاب ضرور ہوگا. آپ کسی عالم دین سے پوچھ لیں کہ فلم کی کمایُ حلال ہے یا حرام. اگر حرام ہے توآخرت میں یہ ہمارے گلے پڑے گی. سیدھی سی بات ہے سرمایہ لگانے کے لیےُ اور بھی شعبہ جات ہیں جہاں آپ کا منافع حلال ہو گا.
آج کل کی فلموں مین کیا ہوتا ہے ؟. عورتوں کے جسم کی نمایُش کی جاتی ہے. فلم کا شعبہ ویسے ہی بدنام ہے. تو بدنامی کے کیچڑ میں کیوں کودا جاےُ ؟. پیسہ جایُز طریقہ سے کمایا جا سکتا ہے اور ناجایُز طریقہ سے بھی. ناجایُز طریقہ سے آنے والا پیسہ قیامت کے دن ہمیں دوزخ میں لے جاےُ گا جو بہت ہی بری اور خوفناک جگہ ہے.

نمبر 2 – فیشن شو
دوسرے نمبر پر بے حیایُ پھیلانے میں فیشن شو کا نام آتا ہے. فیشن ڈیزایُنرز عورتوں، مردوں کے پہناووں کے لیےُ ہر سال نیےُ نیےُ ڈیزایُن تیار کرتے ہیں. پھر فیشن شو منعقد کرا کر وہ کپڑے ماڈل لڑکیوں اور لڑکوں کو پہنانتے ہیں . اور یہ ماڈلز حاضرین کے سامنے ریمپ پر ان کی نمایُش کرتے ہیں. حسینایُں ان کپڑوں میں اپنے جلووں کی نمایُش کرتی ہیں . تا کہ لوگ ان کپڑوں کو خریدیں.
کیا ہم نے عورتون کو اپنی کمایُ کا زریعہ بنایا ہؤا ہے ؟.

نمبر 3 – اشتہار
بڑے شہروں میں جگہ جگہ بڑے بڑے اشتہاری بورڈ لگے ہیں. جن پر مختلف مصنوعات کے ساتھ عورتوں کی تصاویر ہوتی ہیں. کیا یہ ضروری ہے ہر اشتہار پر کویُ عورت ہی ہو ؟.

نمبر4 – ڈرامے
مختلف ٹی وی سٹیشن پر روزانہ مختلف ڈرامے پیش کیےُ جاتے ہیں. آپ نے کبھی کسی ڈرامے میں کسی لڑکی کے سر اور سینہ پر دوپٹّہ دیکھا ہے ؟. اوّل تو دوپٹعہ لینے یا اوڑھنے کا تکلف ہی نہیں کیا جاتا، اگر دوپٹّہ نظر آ بھی جاےُ تو گلے میں ڈال کر پیچھے کمر کی طرف پھینکا ہؤا ہوتا ہے. کوشش کی جاتی ہے کہ درامہ کی کردار لڑکیاں زیادہ سے زیادہ پر کشش نظر آیُن. جس کے لیےُ مختلف طریقے اختیار کیےُ جاتے ہیں :
نمبر 1 – سر اور سینہ سے دوپٹّہ غایُب کر کے سینے کے ابھار کو زیادہ دکھایا جاتا ہے.
نمبر2 – قمیض عموماُ بازو کے بغیر ( سلیو لیس ) ہوتی ہیں تاکہ بازو ننگے نظر آیُں – ہندوستانی فلموں میں عورتوں کے کپڑے بہت ہی مختصر ہو گیےُ ہیں. یہاں بھی اسی ڈگر پر چلنے کی کوشش کی جا رہی ہے. میں نے ایک ڈرامے میں ایک لڑکی کو نیکر پہنے ہوےُ دیکھا ہے،. یعنی یہاں بھی بے حیایُ اپنے عروج کی طرف جا رہی ہے. اس کی ایک مثال 11 جون 2020 ، رات 9 بج کر 45 منٹ پر ” پلے” تی وی پر نشر ہونے والے ایک ڈرامے میں نظر آیُ. جس میں ایک لڑکی نے ایسا لباس پہن رکھا تھا جس سے وہ تقریباّ تین چوتھایُ حصہ ننگی نظر آ رہی تھی. ( ایسے ڈریس کو ریپ اراؤنڈ کہتے ہیں.). استغفراللہ. کیا ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامے سنسر نہیں ہوتے ؟. اگر ہوتے ہیں تو یہ بے ہودگی کیسے نشر ہو گیُ ؟.کیا یہ قوم میں بے ہودگی پھیلانے کی دانستہ کوشش ہے ؟، اگر ہے تو اس کے پیچھے کون ہے ؟. ہمارا معاشرہ مسلم معاشرہ ہے اور ہم ہندووں اور یہودیوں والی بے ہودگی برداشت نہیں کر سکتے.

جاری ہے


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *