Folks singers with their instruments.

دُلّا بھٹّی – پنجابی لوک گیت.

دُلّا بھٹّی – پنجابی لوک گیت.

پنجاب کے شہر پنڈی بھٹیاں کے نزدیک دریاےُ چناب کے کنارے آباد ایک گاؤں ” چُوچک ” کے مقام پر ایک شخص فرید خاں بھٹّی کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہُؤا. جس کا نام عبداللہ رکھا گیا.  . اس کی ماں کا نام ” لدّھی ” تھا. یہی لڑکا بعد میں دُلّا بھٹّی    کے نام سے مشہور      ہُؤا

دُلّا بھٹّی کے بچپن کے حالات دستیاب نہیں. جوان ہونے پر وہ ایک گبھرو جوان نکلا. یہ عہد مغل بادشاہ اکبر کا تھا. اس وقت اکبر بادشاہ اپنا ” دین الہی ” ایجاد کرچکا تھا. کہا جاتا ہے کہ دُلّا بھٹّی اس دین کے خلاف تھا. بعض حضرات شاہ حُسین المعروف مادھُو لال حُسین ، اُن کے مرشد شاہ بہلول دریایُ اور دُلّا بھٹّی کی ایک تکون بناتے ہیں جو اکبر کے دین الہی کی مخالفت میں قایُم ہُویُ. کچھ اور حالات بھی ہُوےُ ہوں گے، جن کی بنا پر دلّا بھٹّی اکبر بادشاہ کے خلاف ہو گیا. ساندل بار کے تقریبآ سبھی جاٹ اکبر بادشاہ کے خلاف تھے. دلّا بھٹّی اس گروہ کا لیڈر تھا . دلا بھٹّی اور اکبر بادشاہ کی درمیان کیُ معرکے ہُوےُ. لیکن دلا بھٹی کو شکست نہ دی جا سکی. مؤرخین اسے” جاٹوں کی شورش ” کا نام دیتے ہیں. اس شورش کا قلع قمع کرنے کے لیےُ اکبر چھ ماہ تک لاہور میں ڈیرے ڈالے رہا. اکبر دلا بھٹی کو گرفتار کرنے میں ناکام رہا. آخر ایک سازش کے تحت اس کی گرفتاری عمل میں آیُ اور اُسے 26 مارچ 1589 کو لاہور کے نولکھا بازار کے قریب تختہ دار پر لٹکا دیا گیا.

دُلّا بھٹّی کی جوانمردی کے قصّے آج بھی اس کے نام کی طرح مشہُور ہیں. وقت کے ساتھ ساتھ دلّا بھٹّی کی حکایت بھی مدھم پڑتی جا رہی ہے. ضرورت اس بات کی ہے کہ دُلّا بھٹّی جیسے آزادی کے لیےُ لڑنے والوں کو یاد رکھا جاےُ.

دُلّا بھٹّی کے بچپن کے حالات بھی ایسے ھی تھے جیسے عام لوگوں کے ہوتے ہیں. اصل قصّہ وہاں سے شروع ھوتا ہے جہاں سے اس کی چقبلش اکبر بادشاہ سے شروع ہُویُ. دونوں کی فوجوں میں کیُ معرکے ہُوےُ. جس میں دونوں طرف سے ہار جیت ہوتی رہی. حالت جنگ میں ہونے کی وجہ سے دُلّا بھٹّی کسی ایک مقام پر نہ ٹھہرتا تھا. ایسے ہی کسی مقام پر اُس کی ماں نے اُسے نصیحت کی.

دُلّا بھٹّی- پنجابی لوک گیت، نمبر 1

ماتا لدھّی پییُ بولدی ، سُن دُلیا سردار اوےُ
بنّے تے جٹ نہ چھیڑیےُ، ہٹّی دے وچ کراڑ اوےُ
رنڈی دا پُت نہ چھیڑیےُ ، جد بولدا کڈھدا گال اوےُ
پتّن تے ملاح نہ چھیڑیےُ، متے دے ونجھاں دی مار اوےُ
تینوں ہاڑا میں پانی آں رب دا، نیواں ہو کے جھٹ گزار اوےُ

اردو ترجمہ

دُلّا کی ماں لدھّی اُسے نصیحت کر رہی ہے کہ سردار دُلیا، میری بات سُنو.
کھیت کے وٹ پر کسان کو نہ چھیڑو، اور نہ ہی دُکان میں کسی بنیےُ کو چھیڑو.
کسی بیوہ ماں کے بیٹے سے چھیڑ خانی نہ کرو، وہ بگڑا ہُؤا جب بھی بولے گا گالی دے گا.
پتّن پر کسی ملاح کو نہ چھیڑو، وہ تمہیں اُن بانسوں سے مارنا شروع کردے گا جن سے وہ کشتی کو کھیتا ہے.
تمہیں خُدا کا واسطہ! تھوڑا سا کمزور طاہر کر کے وقت گزار لو، بادشاہ سے لڑایُ کا کیا فایُدہ.

یہ نصیحت ایک ماں کی تھی، جو یہ چاہتی تھی کہ اُس کا بیٹا اُس کی آنکھوں کے سامنے رہے. اور سکون سے رہے. دُلّا نے جو جواب دیا، وہ ایک بہادر شخص کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے.

دُلّا بھٹّی، پنجابی لوک گیت نمبر 2

میرا ناں دُلّا نہ رکھدیوں، رکھ دیندیوں کُجھ ہور نی
میں پُتّر آن بگّے شیر دا، میرے شیراں ورگے طور نی
میں بھنّاں دلّی دے کنگرے، دیاں شکّر وانگوں بھور نی
میں بنھنّاں اکبر دیان رانیاں، دیاں دلّی دے ول ٹور نی

اردو ترجمہ

ماں ! بہتر تھا تم میرا نام دُلّا نہ رکھتیں، بلکہ کویُ اور نام رکھ دیتیں.
میں سفید شیر کا بیٹا ہُوں. میرے طور طریقے شیروں جیسے ہیں. ( سفید شیر بہت کمیاب ہوتا ہے ،اسی لیےُ قیمتی ہوتا ہے )
میں دلّی کے میناروں اور بُرجوں کو شکّر کی طرح باریک پیس دُوں.
میں اکبر کی بیگمات کو گرفتار کر کے انہیں ( عزّت سے ) دلّی کی طرف روانہ کر دُوں. ( یہ غالبآ اُس زمانے کی بات ہے جب اکبر بادشاہ اپنی رانیوں سمیت لاہور میں ڈیرے ڈالے ہُوےُ تھا. )

اس قطعہ کے آخری مصرعے کو دوبارہ پڑھیےُ. دُلّا بھٹّی کہہ رہا ہے کہ میں اکبر بادشاہ کی بیگمات کو گرفتار کر لُوں اور انہیں ( عزّت سے دلّی کو روانہ کر دُوں ). یہ ایک بہادر شخص کا طریقہ ہے . جو سمجھتا ہے کہ اُس کی لڑایُ تو بادشاہ کے ساتھ ہے ، اس کی بیگمات سے نہیں. وہ دشمن کو زک پہنچانے کے لیےُ اس کی بیگمات کو گرفتار ضرور کرے گا لیکن ان کے ساتھ عزّت اور احترام کے ساتھ پیش آےُ گا. یہ ہے ایک حقیقی بہادر جوان کا رویّہ.

یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ لوگ اس بہادر آدمی کو بھُولتے جا رہے ہیں.

اس سے پہلے آپ ” پنجابی لوک گیت جگّا ” پڑھ چکے ہیں آج دلّا بھٹی پڑھیےُ.
آج کی محفل یہاں ختم ہو رہی ہے. آیُندہ کی بیٹھک میں پنجاب کا مقبول لوک گیت ” ماہیا ” زیر بحث آےُ گا.

انتظار فرمایےُ. وسدے رہو تے ہسدے رہو.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *