Dont do that again

پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 4

پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 4

بعض ڈھولے طویل ہوتے ہیں اور بعض مختصر. لیکن ان کا اختصار وہ مزا دیتا ہے جو طویل ڈھولوں میں نہیں ہوتا. مختصر ڈھولے کی ایک مثال یہ ڈھولا ہے:

ڈھولا نمبر 1

چڑھیا ای تارا نال چڑھی آ مُنّی
میرا ڈھول ٹراؤ میں ساری رات وی رُنّی
لاہماں توں بھج گیا اُتلا نالے بھج گیُ لک دی لُنگی                                                                    آکھو نی سہیلیو اج دی رات رہ جاےُ بھلکے ٹُر جاےُ سویلے دھمُی

  اردو ترجمہ –

صبح کا ستارہ نکلا ہے اس کے ساتھ دوسرا ستارہ ” منّی ” بھی ہے.
آ میرا محبوب جانے والا ہے، اسی غم میں میں ساری رات روتی رہی ہوں.
میرے آنسووں سے میرے دوپٹُے کا پلّو اور میری لُنگی بھی بھیگ گیُ.
میری سہیلیو ! اسے کہو کہ وہ صرف آج کی رات رک جاےُ، اور کل صبح سویرے ہی چلا جاےُ.
یہاں لفظ “ڈھول” محبوب کے معنوں میں استعمال ہؤا ہے. ” ڈھول ” اور ” ڈھولا ” کے متعلق معلومات کے لیےُ دیکھیےُ “ پنجابی ڈھولے – تعارف

چمکدار ستارہ” زہرہ ” عموماُ سورج نکلنے سے بہت پہلے دکھایُ دیتا ہے، اس کے ساتھ ایک دوسرا نسبتاُ کم روشن ستارہ بھی ہوتا ہے . دیہات میں اسے ” منّی ” کا نام دیا گیا ہے. جب کویُ یہ کہتا ہے کہ تارہ نکلا ہؤا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ستارہ زہرہ طلوع ہو چکا ہے. اس ڈھولے میں بھی تارہ سے مراد ستارہ زہرہ ہی ہے. جو عموماّ سبح صادق کے وقت طلوع ہوتا ہے.
مندرجہ بالا ڈھولے کے چار مصرعوں میں پوری کہانی بیان کی گیُ ہے. جو کچھ اس طرح ہے؛ لڑکی کا محبوب آج صبح جانے والا ہے. (یہ نہیں بتایا گیا کہ لڑکی کا محبوب کویُ پردیسی ہے جو آج واپس اپنے وطن جا رہا ہے یا کسی دور دراز مقام پر اپنی ملازمت پر جا رہا ہے ) میں اسی غم میں ساری رات سو نہیں سکی، اور صبح کا ستارہ بھی طلوع ہو چکا ہے. اپنے محبوب کے چلے جانے کے غم میں میں ساری رات روتی رہی ہوں، میرے آنسووں سے میرے دوپٹے کے دونوں پلُؤ بھیگ گیےُ. اور میری ” لنگی ” بھی بھیگ گیُ. ( آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے دیہات میں شلوار کی جگی دھوتی، چادر یا رنگ دار ” لنگی ” پہنتے تھے ) میری سہیلیو، میرے محبوب سے کہو کہ وہ صرف آج کی رات نہ جاےُ. کل صبح چلا جاےُ.
محبوب کی جدایُ کے غم میں رونے والی دوشیزہ کے آنسووں سے مجھے ایک شعر یاد آ گیا. شاعر کے نام کا پتہ نہیں. شعر کچھ یوں ہے :
ہم رونے پہ آیُں تو دریا ہی بہا دیں
شبنم کی طرح ہمیں رونا نہیں آتا
یہاں بھی کچھ ایسی ہی حالت دکھایُ دیتی ہے.
یہاں ایک لفظ ” اُتلا ” آیا ہے ، پنجابی زبان کے اس لفظ کے معنی ہیں ” وہ چیز یا کپڑا جو سر کے اوپر ڈالا جاتا ہے. آج کل اسے دوپٹّہ کہتے ہیں. دیہات میں بڑی عمر کی عورتیں اب بھی دوپٹے کو ” اُتلا ” ہی کہتی ہیں.

یہاں سے ہم اُن پنجابی ڈھولوں کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں جن میں کانوں کے بُندوں اور سر کے بالوں کا ذکر ہے. یہ ذکر عمومآ پہلے مصرعے مین ہی ملتا ہے. باقی ڈھولے مین مضمون علیحدہ علیحدہ ہیں ا ور ہر ڈھولے کا تاثّر مختلف ہے.

ڈھولا نمبر – 2

کنّاں میریاں نوں بُندے ، سر تے چھتیاں دیاں چھنّیں
اگّے تینوں بہوں ہوڑیا اے گلی ساڈی وی توہیں نہ ونجیں
تیریاں بہوں وچاراں ہوندیاں نیں کل سُن آیُ آں میں اپنی کنّیں
گواہڈ ای میرا بھیڑا ، لُوتی ویہڑا، ماپے نی ظنّی
حق نکاح دلاں دے ہوندے کی کرنیاں نی ڈھو کے بُوہے تے کُوڑیاں جنجیں
سٰیّاں چا ماری تاڑی کیڈا ٹھٹ چا بدھّا اے سمّی
پھُلاں دی میں سیج وچھایُ، وچ لونگاں دی پایُ آ بنّی
ساری رات میں رہی ساں اڈیکدی، میریاں جُڑ گیاں ویلے دے دھمّی
جیوندا وتنا ایں تے پرتا گھت مہاراں نوں ، کیڈی ڈھل لایُ آ پردیس دی لمّی

  اردو ترجمہ –

میرے کانوں میں آویزے ہیں اور سر پر لمبے لمبے بال ہیں
اس سے پہلے بھی تمہیں کتنی دفعہ کہہ چکی ہُوں کہ ہماری گلی میں احتیاطآ نہ آیا کرو.
تمہارے بار بار آنے پر گلی میں کیُ چہ میگویُاں ہو رہی ہیں، کچھ تو کل میں اپنے کانوں سے سن آیُ ہوں.
میرے پڑوسی بہت بُرے ہیں، اردگرد والے لگایُ بجھایُ میں ماہر ہیں ،اور نیرے ماں باپ تو بہت ہی شکّی مزاج ہیں ( ایسا نہ ہو ان کے کانوں میں ہمارے پیار کی بھنک پڑ جاےُ )
اصل نکاح تو دلوں کے ہوتے ہیں، یہ بارات ورات سب فضول رسمیں ہیں.
کل رات) سہیلیوں نے تالی بجانی شروع کی، اور سمّی ( عورتوں کا ایک لوک رقص) شروع ہو گیا.بڑا مزا آیا.
میں نے اپنے بستر پر پھولون کی چادر بچھایُ، درمیان میں لونگوں سے حد بندی کی.
میں ساری رات تمہارا انتظار کرتی رہی. ( مگر تم نہ آےُ ) پھر صبح کے وقت میرے آنکھ لگ گیُ.
اگر تم زندہ ہو تو ایک دفعہ ضرور واپس آؤ. کافی مدّت ہو گیُ تمہیں پردیس گےُ ہوےُ.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *