پنجابی اکھان، ردیف ” پ ” نمبر . 5 – 1
پنجابی اکھان ردیف ” ب” نمبر 26-21 ختم ہو چکی ہے. اب ہم نیُ ردیف ” پ ” شروع کرتے ہیں.
پنجابی اکھان میں ایک بات جو سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتی ہے وہ ہے ان کا اختصار. محض چند الفاظ میں پوری کہانی کا بیان ہو جانا ایک عجیب تاثر چھوڑ جاتا ہے. اس تاثر میں نتیجہ بہت نمایاں ہوتا ہے. لوگ اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ اتنی بڑی کہانی کو صرف چند الفاظ میں کیسے سمیٹ لیا گیا ہے. ان اکھان کے مصنف ایم اے پاس یا پی ایچ ڈی نہیں ہوتے تھے. ساد مسادہ لوگ اور دریا کو کُوزے میں بند کر دیا.
اب آپ پنجابی اکھان ردئیف پ سے شروع ہونے والے اکھان پڑھیےُ :
نمبر 1 – پا جانے ہر کویُ مٹکا جانے کویُ کویُ
ویسے تو ہر شخص آنکھوں میں سرمہ ڈال لیتا ہے ، کسی خاص محنت یا تکنیک کی ضرورت نہیں ہوتی. لیکن سرمہ ڈال کر آنکھوں کو اس طرح مٹکانا کہ لوگ دیکھتے رہ جایُں ، یہ ہنر کسی کسی کو ہی آتا ہے.
نمبر 2 – پایُ آٹا پنڈ پلیتھن
گوندھا ہؤا آٹا تو تقریباّ 8 کلو ہے، اس کی روٹیاں بنانے کے لیےُ تقریباّ چالیس کلو آٹا بطور خشکہ چاہیےُ. یہ عجیب بات دیکھی.
گوندھے ہوےُ آٹے سے روٹی بنابے کے لیےُ عورتیں ہاتھ پر چٹکی بھر خشک آٹا ڈال لیتی ہیں، اس خشک آتے کو دیہات میں “پلیتھن ” کہتے ہیں. شہروں میں اسے خشکہ کہتے ہیں. یہ خشکہ آتے کو ہاتھ کے ساتھ چمٹنے نہیں دیتا. ایک روٹی کے پیڑے کے لیےُ عموماّ چٹکی بھر خشکہ درکار ہوتا ہے. اس طرح 8 کلو گوندھے ہوےُ آٹے کے لیےُ اندازاّ آدھا کلو خشکہ درکار ہو گا. اگر کویُ 8 کلو گوندھے ہوےُ آٹے کے لیےُ چالیس کلو خشکہ مانگے تو یہ بہت زیادتی ہو گی.
‘ُپایُ ” اور “پنڈ” کی تشریح یوں ہے.
دیہات میں غلّہ کی پیمایش کے لیےُ پڑوپی اور ٹوپہ استعمال ہوتا ہے. چارپڑوپی کا ایک ٹوپہ بنتا ہے، جو تقریباّ دو کلو کا ہوتا ہے. چار ٹوپوں کی ایک ” پایُ ” بنتی ہے، جس کا وزن تقریباّ 8 کلو ہوتا ہے. سولہ توپوں کا ایک من ہوتا ہے.
کویُ غلّہ کسی چادر میں باندھ کر آپ اسے اکیلے اٹھا کر اپنی پیٹھ پر لاد لیں ، ایسے وزن کو ” پنڈ ” کہتے ہیں. اس کا وزن کم از کم ایک من ( 40 کلو) سے زیادہ ھونا چاہیےُ.
اردو زبان کا محاورہ ” دمڑی کی بڑھیا ٹکا سر منڈایُ” اس کہاوت کا ہم معنی ہے.
نمبر 3 – پایُ نہیں چار
اس غلّہ کا وزن ایک پایُ نہیں بلکہ چار ٹوپے ہے.
ایک شخص نے کسی سے گندم خریدی. خریدار نے چار ٹوپے بھر کر ایک طرف ڈالے. اور کہا کہ یہ ایک پایُ ہو گیُ. گندم بیچنے والا بولا ” نہیں نہیں، ایک پایُ نہیں بلکہ چار ٹوپے ہوےُ ہیں. ” اس طرح دل کو تسلّی دینے والی بات ہویُ کہ بیچی جانے والی گندم ایک پایُ نہین بلکہ چار ٹوپے ہے. چار کی تعداد بہر حال ایک سے زیدہ ہوتی ہے.
چار ٹوپوں کے وزن کو ایک پایُ کہتے ہیں.
نمبر 4 – پتّر مویا پرایا روندیاں ترس نہ آیا
بیٹا تو کسی اور کا فوت ہؤا تھا. فوتیدگی پر آیُ ہویُ عورتوں نے اتنے بین کیےُ کہ دوسروں کو بھی رلا دیا. انہیں ذرا بھی ترس نہ آیا کہ بیچارے تو پہلے ہی رو رو کر بے حال ہو چکے ہیں .
کسی کی فوتیدگی پر عورتیں اکٹھی ہوتی ہیں اور روتی ہیں. بعض عورتین بڑے دردناک الفاظ اور لہجے مین بین کرتی ہیں . وہ یہ خیال نہیں کرتیں کہ مرنے والے کے لواحقین تو پہلے ہی غم سے نڈھال ہیں، انہیں اس وقت تسلّی اور دلاسہ کے الفاظ کی ضرورت ہے نہ کہ رلانے والے بین کی.
نمبر 5 – پتلی نار کھاوے چار خاوند آکھے میری سرپھے دار
موٹی ونّی کھاوے کھنّی خاوند آکھے میری کوٹھی بھنّی
پتلی عورت ایک وقت میں پاہے چار روٹیاں کھا جاےُ، خاوند یہی سمجھے گا کہ یہ زیادہ کیا کھا سکتی ہے. یہ تو میری بچت کر رہی ہے. موٹی عورت چاہے روٹی کے دو لقمے کھاےُ، خاوند یہی سمجھے گا کہ اس موٹی کے معدے کو پر کرنے کے لیےُ بہت سا اناج چاہیےُ. یہ تو مجھے غریب کر دے گی.
حقیقت یہ ہے کہ موٹی عورت ، پتلی عورت کی بہ نسبت کم کھاتی ہے. وہ سمجھتی ہے اگر میں زیادھ کھاؤں گی تو اور موٹی ہو جاؤں گی.
جاری ہے.