پنجابی اکھان ، ردیف ” پ ” نمبر 19 – 6

پنجابی اکھان ، ردیف ” پ ” نمبر 19 – 6

پنجابی اکھان ردیف پ نمبر 5-1 پبلش ہو چکی ہے اب ہم اگلی قسط کی طرف بڑھتے ہیں.

اگر کویُ شخص اپنی بات کو پندرہ منٹ میں ختم کرے اور ایک دوسرا شخص اسی بات کو ایک منٹ میں نتیجے کے ساتھ بیان کر دے تو تعجب تو ہوگا. بالکل اسی طرح جب کویٰ شخص پوری بحث کے بعد موضوع سے متعلق صرف چند الفاظ میں نتیجہ سمیت پُوری کہانی ایک اکھان کی صورت میں بیان کردے ، تو ااس کا تاثر زیادہ دیر پا ہوگا. پنجابی اکھان یہی معجزہ دکھاتے ہیں.
وقت ہُوا ہے پنجابی اکھان ردیف پ، نمبر 19-6 کا.

right;”> نمبر 6 – پکّی کھیتی  ویکھ کے کیوں بھلن کسان
جھکھّڑ،جھولا،وا، ہنیری، گھر آوے تاں جان
فصل پکنے پر کسان سمجھتا ہے کہ گھر میں بہت غلّہ آےُ گا. اسے یہ نہیں بھولنا چاہیےُ کہ کچھ قدرتی آآفات اچانک آ سکتی ہیں، جیسے طوفان، بگولا، تیز آندھی، بارش وغیرہ. ان آفات سے بچ کر غلّہ گھر پہنچ جاےُ ، تب سمجھو اپنا ہؤا .
فسل پک جاےُ تو زیادہ غلّہ ہو جانے کی امید میں فخر نہیں کرنا چاہےُ. کچھ قدرتی آفات ایسی ہیں جو اچانک آ سکتی ہیں. یہ موقع اللہ کے فضل مانگنے کا ہوتا ہے. اور اس سے خیریت کی دعا مانگنی چاہیےُ.

نمبر 7 – پلّے نہیں سیر آٹا ہینگدی دا سگھ پاٹا
گھر میں کھانے کے لیےُ دو کلو آٹا بھی نہیں، لیکن اپنی امارت کا ڈھنڈورا پہٹتے پیٹتے گلا بیٹھ گیا ہے.
اس کہاوت میں لفظ ” ہینگنا‌” اپنے اندر خاص معنی رکھتا ہے. گدھا جب ڈھیچوں ڈھیچوًں کی آواز نکالتا ہے ، پنجابی زبان میں اسے ” ہینگنا ” کہتے ہیں . اب اگر کویُ تہی دست آدمی اپنی امارت کی شیخیاں بگھارنے لگے تو وہ گویا گدھے کی طرح احمق ہے.

نمبر 8 – پھتّو تیلن گلّاں آلی محمود پولی سننے آلا
باتیں کرنے والی پھتّو تیلن ہے اور سننے والا محمود جولاہا ہے.
یہاں پھر پھتّو کا ذکر آیا ہے، اور وہ بھی کسی تیلی کی بیوی کی شکل میں. اس کی باتوں میں دلچسپی لینے والا محمود جولاہا ہے. ظلع سرگودھا میں جولاہے کو ” پولی ” کہتے ہیں. جولاہے کو ” کاسبی ” بھی کہتے ہیں جو “کسبی” کی ترقّی یافتہ یا بگڑی ہویُ شکل ہے. کپڑا بننا ایک ہنر ہے جسے کسب بھی کہتے ہیں ، اس کسب کو جاننے والا کسبی یا کاسبی کہلاتا ہے. یہ کہاوت ایسے موقع پرکہی جاتی ہے جب کسی بات یا کام کے دونوں فریق ناقابل اعتبار ہوں.
امریکہ میں ایک ٹی وی پر ایک مزاحیہ شو ہوتا ہے ” کاسبی شو “. اب پتہ نہیں ہمارے ہاں کا کویُ “کاسبی” وہاں جا کر یہ شو کر رہا ہے.

نمبر 9 – پیا کال تے موےُ غریب ہویا سکال تے موےُ غریب
قحط پڑ جاےُ تو بھی غریبوں کی ہی شامت آتی ہے. ایک کلو گندم کا آتا پچّیس روپے میں ملتا ہے. خوشحالی آےُ تب بھی نزلہ غریبوں پر ہی گرتا ہے. پندرہ کلو آٹا دیں تب ایک روپیہ ملتا ہے. حقیقت یہ ہے کہ قحط ہو یا خوشحالی، غریب ہی مارے جاتے ہیں.

نمبر 10 – پنڈ پےُ نہیں اچکّے پہلاں
گاؤں ابھی آباد نہیں ہؤا، ااچکّے پہلے ہی ڈیرے جما بیٹھے ہیں کہ لوگوں کے گھر لوٹیں.

نمبر 11 – پیٹ نہ پیّاں روٹیاں سبھّے گللاں کھوٹیاں
پیٹ خالی ہو تو سب باتیں بھول جاتی ہیں، حتّے کہ عشق بھی.
پیٹ خالی ہو تو کچھ سجھایُ نہیں دیتا. عشق بھی خرافات لگنے لگتا ہے. شیخ سعدی نے اسے یوں بیان کیا ھے.
چناں قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق

نمبر 12 – پریرے پریرے جا کرماں دا کھٹیا کھا
اگر اس جگہ تمہارا رزق تنگ ہو گیا ہے تو کسی دوسری جگہ چلے جاؤ. اللہ وہاں تمہیں زیادہ دے گا.
لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ جب کسی جگہ آدمی کا رزق تنگ ہونے لگے تو وہ اس جگہ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلا جاےُ، تو اللہ اس کے رزق میں فراخی عطا کر دیتا ہے. اور یہ بات کسی حد تک صحیح ہے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرف جایا جاےُ. علم نجوم کے ماہرین اس سلسلے میں یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر آدمی اپنی جاےُ پیدایُش سے شمال کی طرف جا کر اپنا رزق تلاش کرے تو اس کے رزق میں فراخی کی امید کی جا سکتی ہے.

نمبر 13 – پلّے نہیں دھیلہ کردی میلہ میلہ
جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں اور ضد یہ ہے کہ میں میلے میں جاؤں گی.
کسی میلے میں جانے کے لیےُ جیب میں کچھ پیسے ہونے چاہیُں . اگر جیب خالی ہو تو میلے میں خرچ کیا کرے گی.

نمبر 14 – پتراں تے وہتراں کدی پرت پیمدی یے
کسی غریب کے اگر تین، چار بیٹے ہوں تو جوان ہو کر کویُ کام کریں گے اور اس طرح اپنی غربت دور کر سکیں گے. اسی طرح اگر کسی کے پاس تین یا چار جانور ہوں تو جوان ہونے پر انہیں بیچ کر یا ان سے کام لے کر اپنی غربت دور کر سکتا ہے.
لفظ ” وہتر ” اصل میں خچّر کے لیےُ بولا جاتا ہے.

نمبر 15 – پانے آلا ای جان دا اے جتّی کتھّے کتھّے لگدی اے
جوتا کہاں تنگ ہے اور کہاں سے تکلیف دیتا ہے یہ صرف وہ جوتا پہننے والا ہی جانتا اور بتا سکتا ہے
انگریزی زبان کا ایک محاورہ یے
Only the wearer knows where the shoe punches
مندرجہ بالا کہاوت اس انگرزی محاورہ کا صحیح ترجمہ ہے

نمبر 16 – پہلاں پیٹ پوجا پھر کم دوجا
سب سے پہلے تو پیٹ میں کچھ روٹی پانی ڈالا جاےُ، اس کے بعد دوسرے کام کریں گے.
لگتا ہے کسی بھوک کے مارے انسان نے یہ کہاوت کہی ہو گی.

نمبر 17 – پنج کوہ کھارا نت پیُ ونجاں سلاماں تے
یہاں سے پیر کھارا کا مزار صرف پانچ کوس کے فاصلے پر ہے . مین وہاں سلام کرنے روزانہ جا سکتی ہوں.
پنڈ دادن خاں کے آس پاس کسی بزرگ کا مزار ہے جسے ” پیر کھارا ” کے نام سے پکارا جاتا ہے. پیر کھارا نام کیسے پڑا، یہ تو پتہ نہیں. یا تو پیر صاحب خود کھارے پانی کی طرح کھارے ہوں گے، یا وہاں پر پایا جانے والا پانی کھارا ہوگا. بہر حال، لوگ اب بھی وہاں جا کر منتیں مانتے ہیں اور چڑہاوے چڑھاتے ہیں.

نمبر 18 – پترّ کپتر ہو جاندے نے ماپے کماپے نہیں ہوندے
بیٹے اپنی فرزندگی بھول سکتے ہیں ، والدین اپنی مامتا نہیں بھول سکتے.
پنجابی زبان میں بعض الفاظ سے پہلے “ک ” لگا دیا جاےُ تو اس لفظ کے معنی الٹ جاتے ہیں. جیسے پتّر یعنی تابعدار بیٹا، کپتّر یعنی نافرمان بیٹا، ماپے یعنی مہربان ماں باپ، کماپے کا مطلب ہوتا ہے والدین جو اپنی اولاد کی پرواہ نہ کریں.انہیں پیار نہ کریں . ایسے ہی ایک دوسرا لفظ چج یعنی سلیقہ، ہنر ہے اور کچج یعنی پھوہڑ پن، غیر ہنرمندی ہے.

نمبر 19 – پھل موسم دا گل ویلے دی
پھل اپنے موسم میں ہی مفید اور ذایُقہ دار ہوتا ہے، اسی طرح موقّعہ پر کہی ہویُ بات کا اثر زیادہ ہوتا ہے.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *