پنجابی اکھان – ردیف ” ش ” 8 – 1
پنجابی اکھان اتںے دلچسپ ہیں کہ اگر ایک دفعہ پڑھنا شروع کر دیں، تو پڑھتے ہی چلے جایُیں . یہ تشخیص کسی ایک ردیف پر منطبق نہیں ہوتی. الف سے ے تک تمام حروف کے پنجابی اکھان قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں. قاری کی خواہش ہوتی ہے کہ میں سارے پنجابی اکھان ایک ہی نشست میں پڑھ لُوں.
پنجابی اکھان ردیف س ، نمبر 28- 21 پڑھنے کے لیےُ اس لنک پر کلک کریں.
ردیف ش کے اکھان نمبر 8-1 پڑھیےُ:
نمبر – 1 شاہاں دے دانے شاہاں ای کھانے
یہ دانے امیروں کے ہیں ، اور وہی کھایُں گے. غریب کا اس میں کویُ حصّہ نہیں.
اس کی مثال ایسی ہے جیسے آج کل کہ رہے ہیں کہ ملک کا خزانہ خالی ہے. خالی تو ہو گا جب یہ اسمبلی ممبران، وزرا، مشیران، کی فوج ظفر موج، ترجمانوں اور منظور نظر احباب پر بے دریغ خرچ ہوگا. غریب لوگ تو آج بھی دیہاڑی لگا کر اپنے بچّوں کے نصف پیٹ بھرتے ہیں. ملک کے خزانے میں ان کا کویُ حصّہ نہیں.
ایک شخص کے گھر کھیر پکی. سوچا کہ محلّے کے مولوی صاحب کو گھر بلوا کر انہیں کھلاتے ہیں. وہ آدمی مولوی صاحب کے پاس گیااور کہا ” مولوی صاحب ! ہم نے کھیر پکایُ ہے ” مولوی صاحب نے کہا ” ہمیں کیا ” ، اس شخص نے کہا ” کھیر آپ کے لیےُ پکایُ ہے ” . مولوی صاھب نے کہا ” پھر تمہیں کیا “. آج کل غریب آدمی بھی یہی کہ رہا ہے ” ملک کا خزانہ بھرا ہے تو ہمیں کیا ” حبیب جالب مرحوم نے بھی یہی کہا تھا :
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
نمبر 2 – شاہاں توں لاہنا ہووے سہی
یہ دعا کرتے رہو کہ امیروں کے ذمہ ہمارا کچھ بقایا رہے ، کچھ دینا نہ ہو،.
امیر آدمی کا قرض دار ہمیشہ اس سے دب کر رہتا ہے. اور امیر آدمی کی بیگار میں بھی رہتا ہے. کسی امیر کے زمہّ کسی کا کچھ نکلتا ہو تو وہ کم از کم امیر کی بیگار سے تو بچا رہتا ہے.
نمبر 3 – شریکاں دی کندھ ڈگّے تے دھکّا لاؤ
بھاویں آپ ای ہیٹھ آ جاؤ
تمہارے شریک یا مخالف کے گھر کی کویُ دیوار گرنے والی ہو، تو اسے اور دھکّا دو، چاہے تمہیں ااس دیوار کے نیچے دب جانے کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو.
اپنے کسی شریک سے نفرت کا اظہار اس سے بڑھ کر کیا ہوگا.
شریک کا لفظی معنی ” حصّہ دار ” ہے. آباؤاجداد کی وراثت مین حصّہ دار چچا زاد یا تایا زاد ہی ہو سکتے ہیں. اور عمومآ انہیں کے ساتھ دشمنی بن جاتی ہے. اس کے علاوہ زر، زن اور زمین کے جھگڑے بھی دشمنی کی وجہ بن سکتے ہیں. کسی جھگڑے یا فساد کے دویوں فریقوں کو ایک دوسرے کا شریک کہتے ہیں. آج سے چالیس پچاس پہلے تک ہر گاؤں مین ایسی دشمنیاں بہت ہوتی تھیں . اب لوگ سیانے ہو گیےُ ہیں کہ ان دشمینوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا.
نمبر 4 – شریکاں دا منہ لال ہووے تے اپنا چپیڑاں مار کے کر لو
اگر تم اپنے شریک یا مخالف کا منہ سرخ دیکھو ( جو عمومآ غصّہ کے وقت ہوتا ہے ) تو اپنا منہ بھی سرخ کر لو ، چاہے تمہیں اپنے منہ پر تھپّڑ ہی مارنے پڑیں.
دیہات میں اپنے شریک یا مخالف کے برابر نہ ہونا بڑی بے عزتی سمجھی جاتی ہے ، جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا.
یاد رہے اس کہاوت میں منہ کا سرخ ہونا غصّہ کی وجہ سے ہے نہ کہ ہایُ بلڈ پریشر کی وجہ سے.
نمبر 5 – شکل مومناں کرتوت کافراں
شکل و صورت تو مومنوں جیسی ہے سر پر پگڑی، منہ پر داڑھی، ہاتھ میں تسبہح
لیکن تمہارے کتروت بالکل کافروں جیسے ہیں.
یہ کہاوت غالبآ دوغلے آدمی کے متعلق کہی گیُ ہے.
نمبر 6 – شوم دا مال کنکول ای کھاہن
کنجوس اپنا مال نہ تو اپنے آپ پر خرچ کرتا ہے ، نہ ہی دوسروں پر. اپنا پیسہ سنبھال سنبھال کر رکھتا ہےحفاظت کے لیےُ زمین میں دبا دیتا ہے، جو بعد میں کیڑے کھا جاتے ہیں.
نمبر 7 – شوق دا کویُ مل نہیں
شوق پورا کرنے کے لیےُ جتنا بھی خرچ کرنا پڑے، کر دیا جاتا ہے. یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس قدر پیسہ خرچ ہؤا ہے.
نمبر 8 – شکل بھیڑی ہووے بندہ گل تے چنگی کرے
آدمی کی شکل و صورت تو اللہ نے بنایُ ہے، اس میں ہمارا کیُ عمل دخل نہیں، لیکن اچھّی بات کرنا تو ہمارے اپنے اختیار میں ہے.
محفل میں اگر کویُ آدمی غلط یا الٹی سیدھی بات کہ دے تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.
جاری ہے.