پنجابی اکھان ، ردیف ” د” نمبر 10 – 6

پنجابی اکھان، ردیف ” د ” نمبر 10 – 6

بعض پنجابی اکھان ایسے ہیں جو کسی فرقہ، گروہ یا قبیلے کی ذہنیت ، ان کا رہن سہن یا عمومی برتاؤ ظاہر کرتے ہیں. . اُن کا ذکر اپنے موقع پر کیا جاےُ گا. آج کی نشست میں د سے شروع ہونے والے پنجابی اکھان میں ہندُو بنییےُ کی عمومی صفت ” نفع ، نقصان کا ذکر کیا گیا ہے. جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک بنیا پُوجا پاٹ کے وقت بھی اپنے کاروبار سے نفع کیسے حاصل کرتا ہے
پنجابی اکھان ردیف د ، نمبر 5-1 میں ردیف د کے مذید پنجابی اکھان پڑھیےُ.

اب پنجابی اکھان ردیف د کے مذید اکھان پڑھیےُ؛ .

 

نمبر 6 – دیوی دا درشن نالے گڈھیاں دا پھیرا
پیازوں سے ٹوکرا بھر کر لے جاتا ہوں، پیاز بیچ لوں گا. مندر بھی ادھر ہی ہے ، لگے ہاتھوں دیوی کا داشن بھی کر آؤں گا.
اس کہاوت میں بنیےُ کی ذہنیّت کی عکّاسی کی گیُ ہے. بنیا ایسا نہیں کرتا کہ صبح مندر پاٹ پوجا کرے، اور واپس آ کر پیازوں سے ٹوکرا بھرے اور بیچنے کے لیےُ نکلے. وہ دونوں کام ایک ہی پھیرے میں کر لیتا ہے. صبح پیازوں سے ٹوکرا بھرا، گلی گلی جا کر بیچا اور واپسی پر مندر میں پاٹ پوجا کر لی.
اردو زبان کا محاورہ ” ایک پنتھ، دو کاج ” اس کہاوت کا ہم معنی ہے.

نمبر 7 – دھےُ ! تینوں آکھیا اے نوہنے! توں کن کر
بیٹی!، تمہیں فلاں کام کرنے کو کہا ہے، تمہارا نام تو ایسے ہی لے لیا، اصل مخاطب تو بہو ہے.
بعض عورتیں تھوڑی سی عقلمند ہوتی ہیں. وہ سمجھتی ہیں کہ براہ راست بہو کو کویُ کام کرنے کو کہا جاےُ تو شاید وہ برا مان جاےُ، اس لیےُ وہ اپنی بیٹی سے کہتی ہیں کہ فلاں کام کر دو. اب یہ ایک اچھّی بہو کا فرض بنتا ہے کہ ساس کی اس بات پر کان دھرے.

نمبر 8 – دو تے دو چار روٹیاں
کسی نے بھوک کے ستاےُ ہوےُ ایک شخص سے پوچھا کہ دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں ؟. اس نے جواب دیا ” چار روٹیاں “. یعنی بھوکے شخص کو ہر طرف روٹیاں ہی دکھایُ دیتی ہیں.
اردو زبان کا محاورہ ” ساون کے اندھے کو ہر طرف سبزہ دکھایُ دیتا ہے ” اس کہاوت کا صحیح ترجمہ ہے.

نمبر 9 – دم دا دم نہ جھورا نہ غم
ہم تو دنیا میں اکیلے ہیں ، کسی کا غم نہ دکھ. اپنے حال میں مست ہیں.
ایک پاکستانی فلم بنی تھی ” اکیلا ” . اس کا ایک گانا تھا
منزل ہے نہ ہمدم ہے
کچھ ہے تو اگر دم ہی دم ہے
میں اس دنیا میں اکیلا ہوں
اکیلا ہوں، میں اکیلا
یہ گانا شاید اسی کہاوت سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے.

نمبر 10 – دوانی دی کھوتی چوانی دا ڈھنگا
گدھی کی قیمت تو دو آنے ہے، مگر اسے باندھ رکھنے کے لیےُ جو رسّہ استعمال کیا گیا ہے اس کی قیمت چار آنے ہے. یعنی چیز اتنی قیمت کی نہیں جتنا پیسہ اسے سنبھالنے میں خرچ ہو رہا ہے.
گدھے یا گدھی کو باندھ کر نہ رکھا جاےُ تو وہ ادھر ادھر چرنے نکل جاتی ہیں، اور پھر اسے ڈھونڈنا پڑتا ہے. گاؤں کے وہ گھرانے جن کے مویشی زیادہ ہوتے ہیں وہ مویشیوں کا چارہ ڈھونے کے لیےُ عموماّ ایک گدھی خرید لیٹے ہیں. گدھی کو چرنے کے لیےُ چھوڑنے سے پہلے اس اگلا بایاں پاؤں اور پچھلا دایاں پاؤں ایک رسّی سے باندھ دیتے ہیں یعنی رسّی کا ایک سرا اگلے دایُں پاؤں کے ساتھ بندھا ہوتا ہے اور دوسرا سرا پچھلے بایُں پاؤں کے ساتھ بندھا ہوتا ہے یہ رسّی عموماّ 4 فت لمبی ہوتی ہے اس رسّی کو پنجابی زبان میں ” ڈھنگا ” کہتے ہیں.ڈھنگا لگی ہویُ گدھی بھاگ نہیں سکتی لیکن چل پھر سکتی ہے.
اردو زبان کا محاورہ ” دمڑی کی بڑھیا، ٹکہ سر منڈایُ ” اس کہاوت کا صحیح ترجمہ ہے.
پاکستان میں 1960 سے پہلے تک ایک روپیہ میں سولہ آنے ہوتے تھے . دو آنے کو دونّی یا دوانی ، چار آنے کو چونّی اور آتھ آنے کو اٹھنّی کہتے تھے. ایک آنے کو مزید پیسہ ،دھیلہ پھر دمڑی مین تقسیم کیا گیا تھا. یہ سسٹم انگریزوں کا رایُج کردہ تھا جسے صدر ایّوب نے تبدیل کیا اور ایک روپیہ مین 100 پیسہ بناےُ گیےُ.

جاری ہے.

Leave a Reply