پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 10

پنجابی ڈھولے.

قسط نمبر – 10

آپ نے “ پنجابی ڈھولے، قسط نمبر – 9 ” تک پڑھ لیےُ. آج جو پنجابی ڈھولا آپ پڑھنے جا رہے ہیں، وہ ڈھولا ہے جس کا ذکر قسط نمبر 9 میں کیا گیا تھا. یہ ڈھولا اپنے خیال اور مضمون میں غالباّ دنیا کا اپنی طرز کا واحد ڈھولا ہے جو صرف پنجابی زبان میں ہی ملتا ہے.

دیہاتی لڑکی اپنے محبوب کے متعلق سوچتی ہے ، سوچتے سوچتے اسے اپنے محبوب پر غُصّہ آ جاتا ہے، اس کے جذبات کو اس ڈھولے میں بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے:

ڈھولا نمبر – 1

سُوہا چولا اُتّے مُنّی ہور دھرایُیے
بیلی دی ساجنی روٹی ،آٹا مہمون والے گھُرٹے توں چل پہاییےُ
بیلی ھووے کھانے دا کھاؤ، لڈؤاں تھال بھراییےُ
بیلی ہووے نیندر دا بھُکھا، پنگھُوڑا پٹ دا، وچ لوری دے سواییےُ
بیلی ہووے عشق دا بھُکھا، سد کے نار نُورانی، اوہدے نال حق نکاح پڑھاییےُ
بیلی ہووے حُقّے دا چھیکا، حُقّہ جھنگ دا، نڑی گنڈیرے دی، حویجہ پاک پتنی، تمباکو کوٹ ٹہلی دا، گُڑ ڈربی، اگ سکڑی جنڈ دی،بیلی نوں دھر چھکاییےُ
جے چڑھ جاوے بیلی نوں کیف، مجھ ہووے نیلی دی پنج کلان، مُونگر ساھی وال دا، بھر بیلی دے مُنہہ لاییےُ
ویکھو نی سییّو ، کیہا گیا اے بھیں طور زمانے دا ، اج رُٹھڑے بیلی دا کی بناییےُ
بیلی ہووے ہُٹھ بلوچاں دا،اوہدی ننگی کنڈی لُون ڈھواییےُ
بیلی ھووے واہک جٹّاں دا، اونہوں چوا کے گڈھڑی واہنا وچ رُلاییےُ
بیلی ہووے جے اڑہک وہڑ ، اونہوں چاہڑ کے عشقے ماہلے دے کھوپے، پڑانے وچ پھرااییےُ
بیلی ہووے حلوانی بکرا، اونہوں ذبح چا کراییےُ
اوہدیان کر کے بوٹیاں، کُنّی وچ چا پاییےُ
اندر وڑدی تے باہر نکلدی، جھوکا نمڑا سیک دواییےُ
اج پکا کے پتلے پتلے پھُلکے ، بیلی دے نال ٹیم ٹیم کے کھاییےُ
ایہ دو چار گلّاں دُ کھ توں کیتیاں نے، بیلی میرا بہشتی میوہ، اگاں جا کے پھُلاں نال تُلاییےُ.

( میرے کُڑتے کا رنگ سُرخ ہے، اس پر ایک پھول بنا لُوں، خوبصورت لگے گا.
آج میرے محبوب کی دعوت ہے، روٹی پکانے کے لیےُ آٹا مہموں والی پن چکّی سے پسوا کر لاؤں گی.
اگر محبوب کھانے کا زیادہ ہی شوقین ہُؤا، تو اُسے لڈّووں سے بھرا تھال کھانے کو دُوں گی.
اگر محبوب نیند کا شوقین ہُؤا تو اُسے ریشمی پنگھوڑے میں لوری دے کر سلاؤں گی.
اگر محبوب عاشق مزاج ہُؤا تو تو ایک نہیایت خوبصورت عورت سے اس کا نکاح کرا دوں گی.
اگر میرا محبوب حُقہ پینے کا شوقین ہُؤا تو جھنگ شہرکا بنا ہُؤا حقہ ، جس کی نڑی گنڈھیرے کی ہو، اس کی ٹوپی (مٹّی کا بنا ہُؤا پیالہ سا جس میں تمباقو رکھ کر اوپر آگ کے کویُلے رکھے جاتے ہیں ) پاک پٹن کی بنی ہُویُ ہو، تمباکو کوٹ ٹہلی والے گاؤں کا، اس پر ڈربی گُڑ، جنڈ کے درخت کی چھال سے بنی ہُویُ آگ رکھ کر اسے حقہ پلاؤں گی.
حقہ پیتے پیتے اگر محبوب کو نشہ سا چڑھ جاےُ، تو ساھی وال شہر کے بنے ہوےُ گلاس میں، نیلی بار کی پنج کلان بھینس ( وہ بھینس جس کے چاروں پیر اور دُم سفید ہو اور اس کی پیشانی کے بال سفید ہوں، پنج کلان کہلاتی ہے. ایسی بھینس بڑی خوبصورت سمجھی جاتی ۃے ).کا دودھ بھر کر اسے پلاؤں.
سہیلیو ! غور تو کرو زمانہ کتنا بدل گیا ہے، میں اپنے روٹھے ہُوےُ ساجن کو کیسے مناؤں!.
جی چاہتا ہے اگر میرا ساجن بلوچوں کا اونٹ ہو تو اس کی ننگی پیٹھ پر نمک لاد کر اُسے دوڑاؤں.
اگر میرا ساجن زمیندار کا مزارع ہو تو اس کے سر پر بھاری گٹھڑی رکھ کر اُسے تازہ جوتی ہُویُ زمین ، جس کی سطح ٍغیر ہموار ہوتی ہے اور جس میں چلنا مشکل ہوتا ہے، دوڑاؤں.
اگر میرا ساجن نوجوان بیل ہو تو اُس کی آنکھیں عشق کے ” کھوپوں ‘ سے باندھ کر اُسے رہٹ کے دایُرے میں پھراؤں.
میرا محبوب اگر بکرا ہو اُسے آج ذبح کر دوں.
اس کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں کر کے ہانڈی میں ڈال کر چولہے پر رکھ دُوں.
اندر باہر نکلتےچولہے کی آگ کو مدہم رکھوں، حتےّ کہ سالن تیار ہو جاےُ.
پتلی پتلی روٹیاں پکا کر ساجن کے گوشت سے تیار کردہ سالن کے ساتھ مزے لے لے کر کھاؤں.
میں نے جو یہ دو چار باتیں کی ہیں محض افسوس اور دُکھ کی وجہ سے کہی ہیں، ورنہ میں بھلا اپنے محبوب سے اس طرح کا سلوک کر سکتی ہوں . میرا محبوب تو بہشت کا میوہ ہے، وہ تو پھولوں سے تولنے کے قابل ہے. )

مندرجہ بالا ڈھولے میں چند الفاظ کی تشریح ضروری ہے. ان الفاظ کا مطلب سمجھ کر یہ ڈھولا دوبارہ پڑھیےُ، اس کا لطف دوبالا ہوگا. الفاظ کی تفصیل یوں ہے :

گھُرٹ = پہلے زمانے میں نہروں پر پن چکیاں بنی ہوتی تھیں، جہاں سے لوگ گندم پسواتے تھے. ان پن چکیوں کو ” گھُرٹ یا گھُراٹ ” کہتے تھے.
حقہ = حُقّہ پینے والوں کے مطابق جھنگ شہر کے بنے ہوےُ حقّے بہترین ہوتے ہیں. یہ چمڑی اور پیتل سے بنے ہوتے ہیں اور ان میں ڈالا گیا پانی کافی دیر تک ٹھنڈا رہتا ہے.
نڑی = حقہ کا اہم جز ” نڑی ‘ ہوتی ہے. بڑی نڑی عربی زبان کے ہندسہ دو کی شکل کے مشابہ ہوتی ہے اس کا ایک سرا حقہ کے اندر رہتا ہے اور دوسرے سرے کو منہ سے لگا کر کش لیا جاتا ہے. گنڈھیرے کی لکڑی سے بنی ہویُ نڑی بہترین ہوتی ہے. اس لکڑی کی اپنی خوشبو ہوتی ہے جو حقہ کی اپنی بدبو کو زایُل کر دیتی ہے. گنڈیرے کی سیدھی لکڑی کو اندر سے کھوکھلا کر لیا جاتا ہے اور پھر اسے کویُلوں کی نرم آنچ کے زریعے خم دے کر نڑی کی سکل بنا لی جاتی ہے. نڑی کے اوپر کپڑا لپیٹ کر اوپر پیتل کی باریک تار لپیٹ دی جاتی ہے. تاکہ کپڑا نکل نہ جاےُ. چھوٹی نڑی سیدھی ہوتی ہے اور اس کا نچلا حصہ حقہ کے اندر پانی میں ڈوبا رہتا ہے. . چھوتی نڑی کے اوپر والے حصہ پر حویجہ یا ٹوپی رکھی جاتی ہے. گنڈیرے کا پودا پشاور کے علاقہ میں پایا جاتا ہے. آج کل گنڈیرے کی جگہ بانس کی پتلی ٹہنی استعمال کی جا رہی ہے.
حویجہ = مٹّی سے بنا ہُؤا پختہ پیالہ سا جو اوپر سے کھلا ہوتا ہے. نیچے سے بہ تدریج پتلا ہوتا ہے. نچلا حصّہ اس طرح بنایا جاتا ہے کہ وہ چھوٹی نڑی کے اوپر والے سرے پر ٹھیک بیٹھتا ہے. اسے حقے کی ” ٹوپی ” بھی کہتے ہیں. اس ٹوپی کے پیندے میں بختہ اینٹ سے کاٹا ہُؤا گول ٹکڑا رکھتے ہیں.اسے ” روڑ ” کہتے ہیں. اس کے اوپر ہاتھ کی ہتھیلی پر باریک کیا ہُؤا تمباکو رکھتے ہیں. اس تمباکو کے اوپر تھوڑا سا گُر رکھتے ہیں. تمباکو وہ اچھّا ہوتا ہے جس کا کش لینے پر نہ تو کھانسی ہو اور نہ تلخ لگے، اس میں تھوڑی سی مٹھاس بھی ہو. اسے پینے پر تھوڑا سا دھوآں نکلے اور دس بارہ گھنٹوں تک ایک جیسا ذایُقہ دے.
سکڑی = حقہ کے حویجے میں آگ کے جو کویُلے رکھے جاتے ہیں، وہ کویُلے ایسے ہونے چاہییُں جو جلدی نہ بجھ جایُیں .جنڈ کے درخت کی چھال کی آگ کے کویُلے بڑی دیر تک دہکتے رہتے ہیں، اسی لیُے اسے حقے کے لیےُ آگ کو بہترین مانا جاتا ہے. دوسرے نمبر پر شیشم کے درخت کی چھال کی آگ بہترین مانی جاتی ہے.
پنج کلان = بھینسوں کا رنگ عموماّ کالا ہوتا ہے. بعض بھینسوں کے چاروں پاؤں، دُم کے نچلے نصف حصّے اور پیشانی کے درمیان کے بالوں کا رنگ سفید ہوتا ہے، ایسی بھینس کو ” پنج کلان ” کہتے ہیں، ایسی بھینسیں بڑی خوب صورت اور زیادہ دودھ دینے والی ہوتی ہیں.
واہن = فصل کٹ جانے کے بعد زمین عموماّ ہموار اور خشک ہوتی ہے. اس زمیں میں اگر ہل جوتا جاےُ تو زمین چھوٹے بڑے ٍغیر ہموار ان گھڑے ٹکڑوں میں بدل جاتی ہے، اس غٍیر ہموار زمین کو ” واہن : کہتے ہیں اور اس میں چلنا مشکل ہوتا ہے.
کھوپے = رہٹ چلانے کے لیےُ جب بیلوں کو جوتا جاتا ہے تو ان کی آنکھوں پر چمڑے کے بنے ہوےُ ، نصف دایُرے کی شکل کے کور چڑھا دیےُ جاتے ہیں، انہیں ” کھوپے ” کہتے ہیں. ان کا فایُدہ یہ ہوتا ہے کہ بیلوں کی آنکھیں تو کھُلی رہتی ہیں، لیکن وہ ادھر اُدھر دیکھ نہیں سکتے ، اور اس طرح وہ صرف چلنے پر ہی دھیان دیتے ہیں.
پڑانا = رہٹ مین جوتے ہُوےُ بیل ایک دایُرے میں چلتے رہتے ہیں، اس دایُرے میں ایک راستہ سا بن جاتا ہے، جسے ” پڑانا ” کہتے ہیں.
ڈربی گُڑ = حویجے میں تمباکو رکھنے کے بعد اس کے اوپر تھوڑا سا گُڑ رکھتے ہیں، گُڑ کو تمباکو کے اوپر ایک ڈھیلے کی شکل میں رکھنے کی بجاےُ اسے اتنا پھیلا لیا جاتا ہے کہ گڑ کی پتلی تہ سارے تمباکو کو ڈھانک لیتی ہے ، اسے ڈربی کرنا کہتے ہیں،
دُنیا کی باقی زبانوں کا تو پتہ نہیں لیکن ہماری قومی زبان اردو میں اس قسم کی خیالات کی شاعری نہیں ملتی. اس ضمن میں ایسی شاعری کا سہرہ پنجابی زبان کے سر پر ہی ہے.

پنجابی ڈھولوں کی دُنیا بڑی وسیع ہے اور پورے پنجاب میں موجود سارے ڈھولوں کو جمع کرنا تقریباّ نا ممکن ہے. چیدہ چیدہ ڈھولے پیش کیےُ گیے ہیں. ڈھولوں کی اگلی اقصاط میں ڈاکؤوں کے قصے ہیں. جو بہت مشہور ہیں. تیّار رہیےُ.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *