کیا ہم سب لفنگے ہیں ؟ (Bad manners)

کیا ہم سب لفنگے ہیں ؟ (Bad manners)

عنوانات:
نمبر 1 ؛ لفنگا کون ہے ؟.
نمبر 2 ؛ سب لوگ لفنگے نہیں ہوتے.
نمبر 3 : ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں ؟.

لفنگا کون ہے ؟

بات شروع کرنے سے پہلے یہ دہکھنا ضروری ہے کہ کون  شخص لفنگا ہے ؟. لفنگا پن عمومآ چھوٹی چھوٹی باتوں یا کاموں سے شروع ہوتا ہے. بچپن میں لڑکے اپنی ٹرنیلی جتانے کے لیےُ اپنے سے چھوٹے لڑکوں کو بلا وجہ ڈانتے یا مارتے رہتے ہیں. چھوٹے بچّے عمومآ مار کھا کر چُپ رہتے ہیں جس سے مارنے والے کا حوصلہ بڑھتا ہے اور دوسروں کو اپنے زیر رکھنے کی جبلی انا کو تسکین ملتی ہے. عمر بڑھنے کے ساتھ یہ عادت پُختہ ہو جاتی ہے. اور پھر کییُ دیگر ساتھی بھی مل جاتے ہیں.

ایک لفنگے میں عمومآ درج ذیل بُری عادتیں ہوتی ہیں :

نمبر 1 ؛ بد کلامی.
ایک لفنگا سب سے پیلے جو بُری بات سیکھتا ہے وہ ہے گالیاں بکنا. لفنگوں کے پاس عمومآ گالیوں کا بڑا ذخیرہ ہوتا ہے. جسے وہ توپ کے گولوں کی طرح استعمال کرتے ہیں. شریف آدمی عمومآ لفنگوں کے ساتھ منہ ماری نہیں کرتے. وہ سمجھتے ہین کہ لفنگے کی اپنی تو کویُ عزّت نہیں ہوتی، اس کے ساتھ متھّا لگا کر بے عزّت ہونے والی بات ہے. پنجابی زبان کا ایک اکھان یعنی محاورہ ہے

عزتوں ڈردا اندر وڑیا              مُورکھ آکھے میتھوں ڈریا

اس پنجابی محاورے کی تشریح کے لیےُ “ پنجابی اکھان، ردیف ع ،نمبر 6-1 ” پڑھیےُ.

نمبر 2 ؛ دنگا فساد کرنا.

لفنگے کی دوسری عادت ہر کسی سے لڑایُ جھگڑا کرنا ہے. لڑایُ جھگڑا کرنے کی اصل وجہ اپنی اہمیت جتانا اور دوسروں پر رُعب جمانا ہے.. جس کے لیےُ ایک لفنگا عمومآ ہر کسی سے لڑ پڑتا ہے.

نمبر 3 . لڑایُ جھگڑا کرنا.

لفنگا عمومآ ہر جھگڑے میں کُود پڑتا ہے چاہے اُس جھگڑے سے اُس کا کویُ تعلق واسطہ نہ ہو. یہاں بھی وُہی جبلت کار فرما ہوتی ہے کہ ” میں بھی ہُوں “.

نمبر 4 . بُرے کام کرنا.

لفنگے کا لڑایُ جھگڑوں کی وجہ سے پولیس سے اکثر واسطہ پڑتا رہتا ہے. وہاں پر پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے. پنجابی کے ایک محاورے کے مطابق ” کنویُں میں گرنے والا اور تھانے جانے والا سُوکھا نہیں نکلتا “. اس رقم کے انتظام کے لیےُ کیُ پاپڑ پیلنے پڑتے ہیں. جو عمومآ غیر قانونی زُمرے میں آتے ہیں. جیسے پولیس کو رشوت دے کر کسی کو چھُڑوانا اور اس میں اپنا حصہ رکھ لینا، جُوا کھیلنا، ستّے بازی، منشیات فروشی وغیرہ. اور جب کویُ ان غلط کاموں میں پڑ جاےُ ، پھر ان سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے.

نمبر 5 : بزرگوں اور عورتوں کی عزّت نہ کرنا.

لفنگے کی بہ ذات خود کویُ عزت نہیں ہوتی. اور یہ بات وہ خود بھی جانتا ہے. رد عمل کے طور پر وہ کسی کی عزّت دل سے نہیں کرتا. اُسے ہر کویُ اپنا مخالف نظر آتا ہے. جس وجہ سے وہ کسی بزرگ اور عورت کے ساتھ احترام سے پیش نہیں آتا.

سب لوگ لفنگے نہیں.
اب ایسی بھی بات نہٰیں کہ ملک کے سب لوگ لفنگے ہیں. ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں. ہمارے ملک کی یہ بد قسمتی ہے کہ ملک کے اکثر لوگ غیر تعلیم یافتہ ہیں. جس کی کییُ وجوہات ہیں. بعض ایسے بھی ہیں جنہیں اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کے سوا کسی دوسرے مسُلے پر غور کرنے کی فرصت ہی نہیں. یہ ہیں وہ لوگ جنہیں سیاسی لوگ جھوٹے وعدوں کے جال میں پھنسا کر اپنی دکان چمکاتے ہیں. ہمارے ملک میں سب سے زیادہ جھوٹ سیاست میں بولا جاتا ہے. اور سیاست دان اپنی اس روش کو بدلنے پر آمادہ نظر نہیں آتے.

ہماری بد قسمتی سے ملک مٰیں 2018 عیسوی کے عام انتخابات میں ایک ایسی سیاسی جماعت عام انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے برسراقتدارآ گییُ. جسے بیرونی طاقتوں کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے. اس سیاسی جماعت کو بے تحاشا بیرونی ناجاۃز فنڈنگ کی گیُ. اس سیاسی جماعت نے سب سے پہلے قوم کےاخلاق کو بگاڑا. ملک میں ترقیاتی کاموں کے فنڈ روک لیےُ. اپوزیشن کے سرکردہ لیڈروں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنا کر انہیں جیل میں ڈال دیا گیا. پارٹی کے ایسے آدمیوں کو وہ وزارتیں دی گییُں جن کے وہ اہل ہی نہیں تھے. اس پارٹی کی حکومت نے تما م محکموں کے سربراہوں پر مقدمات بناےُ. دیگر افسراں نے مقدمات کے خوف سے کام کرنا چھوڑ دیا. ایک ہی افسر کے پانچ پانچ ، چھے چھے دفعہ تبادلے کیےُ. اس طرح ہر طرف افترا تفری پھیل گییُ. معیشت کی ترقی کے اقدامات ختم ہو گیےُ . ایکسپورٹ کم ہو گییُ. فیکٹریاں بند ہونے لگیں. اور زر مبادلہ کے ذخاُیر خطرناک حد تک کم ہو گیےُ. اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا.

ایسا کیوں ہُوا ؟. اس لیےُ کہ حکومت کی ساری ٹیم نا اہل اور ناتجربہ کار تھی. وزارتیں ایسے لوگوں کو دی گییُں جنہیں اُن کا کویُ تجربہ نہیں تھا. وزارت کے اہل ہونے کا ایک ہی پیمانہ تھا. ” پارٹی کا ممبر ہونا “. نتیجہ یہ نکلا کہ غلط فیصلے کیےُ گیےُ، جن کا اثر معیشت پر پڑا، اور مہنگایُ بڑھتی گییُ. کسی وزیر کی غلطی سے ملک کو نقصان پہنچا تو متعلقہ وزیر سے کویُ باز پُرس نہ ہوتی تھی ، بلکہ اسے اس وزارت سے ہٹا کر دوسری وزارت دے دی جاتی.

ان سب باتوں کا اثر عوام پر پڑا. مہنگایُ بڑھ گییُ . غریب کے لیےُ بچّوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا. خودکشیاں بڑھنے لگیں. بعض لوگوں نے بے روزگاری سے تنگ آ کر ڈاکہ زنی اختیار کر لی. راہ چلتے لوگ لُوٹے جانے لگے. ڈاکوُں نے لُوٹنے کے نیےُ طریقے اختیار کر لیےُ اور یُوں ملک غیر محفُوظ سمجھا جانے لگا.

سابقہ حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے ملک میں مہنگایُ اتنی بڑھ گییُ کہ 80 فی صد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گیےُ. جب آپ کے بچّے آپ کے سامنے بھوک سے تڑپ رہے ہوں، آپ کی جیب میں پیسہ نہ ہو کہ آپ بچّوں کو کھانا کھلا سکیں، تو آپ کویُ انتہایُ قدم اُٹھانے پر مجبور ہو جایُیں گے. چوری کریں گے، ڈاکہ ڈالیں گے، اگر بزدل ہیں تو خودکُشی کر لیں گے. بُرے حالات انسان کو ذہنی انتشار میں مبتلا کر دیتے ہیں. ایسے میں انسان اول فُول بکنے لگتا ہے. ہمارے ہاں بھی حالت یہاں تک جا پہنچی ہے.

سن دو ہزار اٹھارہ عیسوی تک پاکستان کے سب لوگ اخلاقی لحاظ سے مناسب سطح پر مانے جاتے تھے. اس کے بعد گویا سب کچھ اُلٹ پلٹ ہو گیا. آج کا سب سے بڑا مسُلہ اخلاقی گراوٹ کا ہے. سابقہ حکومت نے ایک منصوبہ کے تحت بد کلامی کے کلچر کو فروغ دیا ہے. لوگ انتہایُ بد کلامی کا مظاہرہ کرتے ہیں. خاص و عام کا ایک ہی وطیرہ ہے. گالیاں بکنے پر کویُ سرزنش نہیں. صلاےُ عام ہے گالیاں بکنے والوں کے لیےُ. رشوت کے بغیر کویُ کام نہیں ہوتا سواےُ خودکشی کے. ایک جماعت اپنے خاص منصوبہ کے تحت ملک کے اداروں پر الزامات کے حملے کر رہی ہے. کسی ثبُوت کے بغیر مخالفین پر بے ہُودہ اور چوری کے الزامات لگاےُ جا رہے ہیں. یہاں تک کہ ملک کی حفاضت پر مامور فوج کو بھی نہیں بخشا گیا. پمارا دشمن خوشی منا رہا ہے کہ اُن کا کام ہمارے ہاں کا ایک سیااست دان کر رہا ہے. اس سیاسرت دان کے متعلق حکیم محمد سعید شہید نے بہت پہلے ہوش رُبا انکشافات کیےُ تھے. . جس پر حکیم صاحب کو شہید کر دیا گیا تھا.

کیا کیا جاےُ ؟

نمبر 1 – سب سے پہلے بد کلامی یا گالیاں بکنے والوں کے لیےُ ضابطہُ اخلاق بنا کر انہیں عبرت ناک سزایُں دی جاییُں. معاشرہ اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ ڈنڈے کے بغیر سدھر نہیں سکتا.

نمبر 2 – زنا بالجبر اور بچّوں کے ساتھ بداخلاقی کرنے والوں کے کو سر عام پھانسی دی جاےُ. تا کہ لوگ عبرت پکڑیں. ہمارا معاشرہ اتنا بگڑ چُکا ہے کہ سخت سزاؤں کے بغیر درست نہیں ہوگا.

نمبر 3 ؛ ڈاکہ زنی کی سزا کم از کم 10 سال قید کی سزا ہونی چاہیےُ. چور کا داہنا ہاتھ کاٹ دیا جاےُ .

نمبر 4 . عدالتوں میں جھُوٹی گواھی دینے والے کو 5 سال قید کی سزا ملنی چاہیےُ.

نمبر 5 ؛ نشہ کرنے والے افراد کے لیےُ علیحدہ رہایُش گاہیں ہوں جہاں سے وہ باہر نہ نکل سکیں.

نمبر 6 ؛ ملک میں گداگر اتنے ہو گیےُ ہیں جیسے ملک کے 50 فی صد لوگ بھیک مانگنے نکل کھڑے ہیں. ہر مانگنے والے کو ان کے لیےُ بنایُ گییُ مخصوص پناہ گاہوں میں رکھا جاےُ، جہاں انہیں ایسے ہُنر سکھاےُ جاییُں جن سے وہ اپنے گھر میں ان ہُنروں کے ذریعے اپنی روزی کما سکیں.

نمبر 7 ؛ ایوب خاں نے اقتدار میں آ کر کییُ سیاست دانوں کو 10 سال کے لیےُ سیاست میں حصّہ نہ لینے کے لیےُ ” ایبڈو ” کا سہارا لیا. اپنے ملک کے موجودہ سیاست دان ہر دفعہ اسیمبلیوں میں آ کر اپنے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں. وہ ایسا کویُ قانون بننے ہی نہیں دیتے جس سے ان کے اقتدار پر زد پڑتی ہو. “ایبڈو” کی طرح کویُ قانون بنا کر ان سیاست دانوں کو کم از کم 10 سال کے لیےُ سیاست میں نہ آنے کا پابند کر دیا جاےُ. اور پھر ملک کی بہتری کے لیےُ قانون سازی کی جاےُ. ذہن میں رہے کہ بناےُ گیےُ قانون پر سختی سے عمل کیا جاےُ.

نمبر 8 ؛ رشوت خوری ہماری جڑوں میں داخل ہو چکی ہے. رشوت ختم کرنے کے لیےُ تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں.ایک آخری تجویز پہش کی جا رہی ہے.حکومت، پراییُویٹ اداروں کا ہر ملازم ، افسران، وزرا سب ہی یہ حلف اُٹھاییُں ؛ ” میں خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ حلف اُٹھاتا ہُوں کہ میں اپنی ملازمت، پریُویٹ زندگی میں کبھی بھی رشوت، نزرانہ کسی بھی شکل میں نہیں لُوں گا، یا قبُول نہیں کروں گا. اگر میں اپنے اس عہد کی خلاف ورزی کروں تو اللہ تعالے مجھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیُے دوزخ میں ڈال دے ”
امید کی جاتی ہے کہ لوگ اس عہد کی پابندی کریں گے. اور اگر وہ اس عہد کی خلاف وازی کرتے ہیں تو وہ جانے اور ان کا اللہ جانے.

للہ تعالے ہم سب کا حامی و ناصر ہو ( سواےُ رشوت خوروں کے )


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *