ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 14- فیشن
Our burning issues # 14 – Fashion
Fashion
کیا ہی اچھّا وقت تھا جب لوگ صرف ریڈیو پر خبریں سُنتے تھے. جب ہم نے ترقی کی تو ٹیلی ویژن کی نشریات شروع ہو گییُں. ٹیلی ویژن کے ابتدایُ پروگراموں پر فیشن کا اثر نہیں پڑا تھا. اداکاروں کا لباس شریفانہ ہوتا تھا. ٹی وی پر مرد حضرات خبریں پڑھا کرتے تھے. ٹی وی پر ایسے ڈرامے نشر ہوتے تھے، جنہیں سارا خاندان ایک جگہ بیٹھ کر دیکھتے تھے. اشتہارات بھی تہزیب کے دایُرے میں ہوتے تھے. لیکن اب ہم نیےُ اور ترقی یافتہ دور میں بس رہے ہیں. جہاں فیشن کا دور دورہ ہے . ترقی کا یہ بُخار ہماری مشرقی تہذیبی روایات کو ڈبو رہا ہے.
عنوانات
ترقی کی خواہش
فیشن کا پھیلاؤ
ٹیلی ویژن اور فیشن
اشتہارات اور فیشن
مردوں، عورتوں کا فیشن
نچ مجاجن نچ
اندھی تقلید
ترق کی خواہش
انسان جبلّی طور پر ترقی کا خواہش مند ہوتا ہے. اس کے ساتھ ساتھ وہ تبدیلی بھی چاہتا ہے. نیُ نیُ ایجادات انہی دو محرکات کا نتیجہ ہوتی ہیں. انسان نے پتھر کے زمانہ سے لے کر اب تک جتنی ترقی کی ہے ، وہ سب ” ھل من مزید ” کی خواہش کی تکمیل ہے. انسان کی ایک دوسری جبلت بھی ہے، وہ ہے ” دوسروں پر غلبہ ” اس جبلت یا خواہش نے دُنیا میں بہت فساد پھیلا یا ہے. پہلے وقتوں میں جو جنگیں ہوتی رہی ہیں ، وہ دوسروں پر غلبہ پانے کی خواہش کا نتیجہ تھیں. آج کل جو سایُنسی ایجادات ہو رہی ہیں یا ہو چُکی ہیں ، وہ سب اسی خواہش کا نتیجہ ہیں.
آج سے ساٹھ ستّر سال پہلے کا زمانہ بڑا پُر سکون تھا. لوگ قناعت پسند تھے. ذیادہ کی لالچ نہیں تھی. عورتیں سادہ لباس پہنتی تھیں. پھر آہستہ آہستہ خیالات بدلتے گیےُ. انسان وُہی کچھ بنتا ہے ، جو وہ سوچتا ہے. مغربی تہذیب بدلنے لگی. ہر جگہ ترقی کرنے کا جنون پیدا ہو گیا. ٹیلی ویژن ایجاد ہو گیا. مغربی تہذیب کی چکا چوند نے دوسروں کو متاثر کیا. جس میں عورتوں کا لباس مُختصر ہوتا گیا. نیم عُریانی کو فیشن کا درجہ مل گیا. ہمارے ہاں کی عورتیں بھی اس سے متاثر ہو گییُں. بہت سارے ممالک میں ” فیشن ڈیزایُننگ ” کے ادارے کھُل گیےُ، جو ہر سال لباس کے نیےُ نیےُ ڈیزایُن تیار کرتے ہیں. جو عُریانی کو بڑھاوا دے رہے ہیں. عورتیں بے ہودہ لباس پہننے کو اپنانے لگیں.” ذیادہ دولت کماؤ ” زندگی کا حاصل بن گیا. جایُز اور ناجایُز کا تصور مٹ گیا. اسے ہم نے ترقی کا نام دے دیا.
فیشن کا پھیلاؤ
بہت ّعرصہ ہُؤا ، میں اپنے درزی سے اپنی سلایُ شدہ پینٹ لینے گیا. درزی ایک زنانہ قمیض کے سامنے کے حصّے پر ایک پھُول بنا رہا تھا . میں نے پوچھا ” آپ ایک نیےُ اور اچھے کپڑے پر پھول کیوں بنا رہے ہیں ؟. ” درزی ہنسنے لگا، کہنے لگا ” تقریبآ ایک ماہ پہلے ایک مشہور گھرانے سے ایک پرنٹڈ کپڑا آیا جس سے ایک زنانہ سُوٹ بنانا تھا. کپڑے کی کٹایُ کرتے ہُوےُ قمیض کے سامنے کا حصہ غلطی سے کٹ گیا. میں ڈر گیا کہ مجے اتنا کپڑا نیا لانا پڑے گا. کپڑا خاصہ مہنگا تھا. میرے ذہن میں ایک ترکیب آیُ. کٹے ہُوےُ کپڑے کی جگہ میں تین خوبصورت پھُول بنا دیےُ. وہ مشہور گھرانے والے سلے ہُوےُ کپڑے لے گیےُ. میں ڈر رپا تھا کہ پتہ نہیں مجھے اس غلطی کی کیا سزا ملے گی. پانچویں روز اُسی گھرانے سے پانچ سُوٹوں کا مختلف رنگوں کا کپڑا آ گیا. کہا گیا کہ ان سُوٹوں پر ویسے ہی پھُول بننے چاہییں ، جیسے پہلے والے سُوٹ پر بنے تھے. میں نے ایک سوٹ پر ویسے ہی پھؤل بنا کر اسے ڈسپلے کر دیا. اس ڈیزایُن کو دیکھ کر اب تک 18 سوٹوں کے آرڈر آ چکے ہیں. “. یہ ایک مثال ہے کہ فیشن کس طرح پھیلتا ہے. عورتوں میں نیا فیشن بڑی تیزی سے پھیلتا ہے. عورتوں کی اسی کمزوری سے فیشن ڈیزایُنر فایُدہ اٹھاتے ہیں اور نت نیےُ فیشن ایجاد کرتے رہتے ہیں. اپنے نیےُ فیشن کے لباسوں کو متعارف کرانے کے لیےُ فیشن شو منعقد کراےُ جاتے ہیں.
ٹیلی ویژن اور فیشن
ٹیلی ویژن پر پیش کردہ ڈراموں کو زیادہ مقبول بنانے کے لیےُ کرداروں کو نت نیےُ فیشن کے لباس پہناےُ جاتے ہیں. ایسے لباسوں کو دیکھ کر لوگ ان کی نقل کرتے ہُوےُ اسی ڈیزایُن کے کپڑے پہن کر فخر محسوس کرتے ہیں. یہ رُجحان عورتوں میں زیادہ ہے.
اشتہارات اور فیشن
آج کل ایسا کویُ اشتہار دیکھنے کو نہیں ملتا جس میں عورت کو نہ دکھایا گیا ہو. آیسے اشتہارات میں عورتوں کا لباس “سکن ٹایُٹ ” قسم کا ہوتا ہے. ایسے اشتہارات جنسی بے راہ روی کو بڑھاوہ دینے کا سبب بنتے ہیں. پتہ نہیں لوگ پیسہ کی خاطر ایسے اشتہارات کیوں شایُع کرتے ہیں. اچھا ہوگا کہ ایسے اشتہارات شایُع کرنے والے کسی عالم دین سے پوچھ لیں کہ ان اشتہرات سے ان کی مصنوعات کی فروخت سے ہونے والی آمدنی حلال ہے یا ؟.
مردوں ، عورتوں کا فیشن
انسان کپڑے پہنتا ہے تاکہ اس کے جسم کا پردہ قایًم رہے. یہ حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے. مرد کا شرعی ستر ناف سے لے کر گھُٹنوں سے نیچے تک ہے. عورت کا شرعی ستر سر سے لے کر پاؤں تک ہے. ہاتھ اور چہرہ پردے سے باہر رکھے جا سکتے ہیں. عورتوں کا لباس ایسا ہونا چاہیےُ کہ ان کے جسم کی بناوت ظاہر نہ ہو. آج کل کیٰی عورتیں سکن ٹایُٹ کپڑے پہنتی ہیں جن سے ان کے جسمانی خد و خال نمایاں ہوتے ہیں. سر سے دوپٹہ تو مدت ہُویُ اُتر چُکا. لگ بھگ تمام ٹی وی سٹیشنوں پر عورتیں ہی خبریں پڑھتی ہیں. صرف ایک تی وی سٹیشن ایسا ہے جس کی اینکر پرسن ایک عورت ہے جو اپنے سر، جسم کو کپڑوں سے ڈھانکے رکھتی ہے. صرف ہاتھ اور نصف چہرہ تی وی پر نظر آتا ہے. باقی تمام جسم کپڑوں سے ڈھکا ہوتا ہے.( محترمہ کو اپنی عزّت آپ کرنے کے احساس کو سلام ) عام لیڈی اینکر پرسن کے سر پر دوپتۃ نہیں ہوتا. سینہ ڈھکا ہُؤا نہیں ہوتا. دوپتہ کی جگہ اپنے سر کے بال لمبے کر کے انہیں اپنے سینے پر ڈال لیتی ہیں. مرد حضرات بھی پیچھے نہیں رہے. بعض مرد حضرات کی پینٹ ( خصوصآ نوجوان ) اتنی سکن ٹایُٹ ہوتی ہے کہ ان کی ٹانگیں لکڑی کی بنی ہُویُ لگتی ہیں. ایسی ہی سکن ٹایُٹ پینٹ پہنے ہوےُ ایک لڑکے کو دیکھ کر ایک دوست نے اپنے دوسرے دوست سے پوچھا “یار یہ لڑکا اس پینٹ کے اندر کیسے گھُسا ؟ ” اس کے دوست نے جواب دیا ” میں حیران ہُوں یہ لڑکا اس پینٹ سے باہر کیسے نکلے گا “؟ یُوں لگتا ہے لہ ایسی سکن ٹایُت پینٹ پہننے والے یا تو بہت ہی کفایت شعار ہیں ، ہا پھر تھوڑے سے کھسکے ہُوےُ ہیں. انسان اپنے پہننے والے کپڑوں کا ایسا فیشن اختیار کرے جس میں اس کی شخصیت با وقار لگے.
نچ مجاجن نچ
آج کل سارے ٹی وی چینلز پر کھانے ، پینے کی اشیا کی مشہوری کے لیےُ ایسے اشتہارات دکھاےُ جا رہے ہیں ، جن میں مرد اور عورتیں اکٹھا رقص کر رہے ہوتے ہیں. ایک اشتہار میں ایک بڑی اماں بھی اس شُغل میں شامل ہیں. اشتہار بنانے والے ادارے غالبآ اس مقولے پر عمل پیرا ہیں :
تیری سرکار میں پہنچے ، تو سبھی ایک ہُوےُ
آشتہار بنانے والے ادارے یہ نہیں سوچتے کہ وہ قوم کو کس گناہ کی دلدل میں پھینک رہے ہیں. آیسے صاف سُتھرے اشتہارات بھی بناےُ جا سکتے ہیں، جنہیں سارا خانداں ایک جگہ بیٹھ کر دیکھ سکے. مغربی تہذیب کی پیروی کرنا ضروری نہیں. اشتہار بنانے والے یہ اعتراض کر سکتے ہیں ، کہ وہ عورت کی موجودگی کے بغیر اشتہار دیکھنے میں دلچسپی کون لے گا ! اس طرح تو اشتہار کا آرڈر دینے والی کمپنیاں اشتہار نہیں بنواییُں گی. ہمارا اشتہار بنانے کا کام تو ٹھپ ہو جاےُ گا. ذرا سوچییےُ، اشتہار بنانے کے علاوہ اور کویُ کاروبار بھی کیا جا سکتا ہے. اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو کویُ فیکٹری لگا لیجییےُ. لوگوں کو روزگار دینے کا ذریعہ بنیں. حلال کی کمایُ کھاییُں ، اور اپنی عاقبت سنواریں.
اندھی تقلید
کسی اچھے کام یا رسم کی تقلید کر لینے مین کویُ حرج نہیں. فیشن میں اچھی باتوں کو اپنا لیں. لیکن وہ رسومات ، عادات یا مماثلت جو ہمارے مسلم عقیدے کے خلاف ہو ، اسے اپنانے سے گریز کرنا چاہیےُ . میں نے ایسے مسلم لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو غیر مسلم معاشرے میں بھی اپنے عقیدے پر قایًم ہیں. وقت پر نماز پڑھتے ہیں. حرام کھانا نہیں کھاتے. مغربی معاشرے میں رہتے ہُؤےُ بھی خرافات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں. آدمی کو اگر آخرت کی فکر ہو تو وہ غلط کاموں سے بچنے کی حتے الوسع کوشش کرتا ہے. یاد رکھیےُ، اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں. اللہ تعالے آپ کا حامی و ناصر ہو. آمین.
” ہمارے سُلگتے مسایٌل, نمبر 13، عدم مساوات ” ضرور پڑھیےُ . اور ہمیں اپنے خیالات سے آگاہ کیجیےُ.
One Response
Usually I do not read article on blogs however I would like to say that this writeup very compelled me to take a look at and do it Your writing style has been amazed me Thank you very nice article