پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 9

پنجابی ڈھولے 
قسط نمبر – 9

اس سے پہلے آپ ” پنجابی ڈھولے ، قسط نمبر 8 ” تک پڑھ چکے ہیں. قسط نمبر 9 حاضر ہے. اس ڈھولے کو پڑھنے کے بعد غور کیجیےُ، یہ ڈھولا کتنی مشکل زمین میں کہا گیا ہے. دنیا میں شایُد ہی کویُ شعر ایسی مشکل زمین میں سننے کو ملے. ملاحظہ کیجیےُ :

ڈھولا نمبر : 1آ

پار جھناں توں پراں، ٹھٹ چا بدّھا اے جوانہہ
دل طلبیندا رہندا اے، ونج کے ڈھولے نوں مل آوانہہ
اوہ بھیڑا جپھیاں گھت کے ملن نہیں دیندا، توڑے اکھیاں نال تک آوانہہ
اکھّیں مُول تکنّ نہ دیندیاں، گل لگن نہ بانہہ
ساڈے آون توں بھاگا پانا ایں، اسی آون وی چھوڑ وسانہہ
جے تُوں اپنی صورت دا مان کریناں ایں، اسی لے کے کورا کاغذ اُتّے چھاپے چا چڑسانہہ
جے تیرے ملن دی تاہنگ ہویُ، اسی اوہو کاغذ لے بسانہہ
پر تُوں وی ہڈّوں سُکھ نہ سونسیں، جدوں اسی یاد تینوں پُسانہہ
جیوندا وتنا ایں تے موڑ مہاراں، بھیڑیا مت دووے گھر وچھڑے مر جوانہہ

( چناب دریا کے اُس پار جوانہہ کے جھُنڈ ہیں( جوانہہ ایک کانٹے دار چھوٹا سا پودا ہوتا یے، جو عموماّ گندم کے کھیتوں میں اس کے ساتھ ہی اگتا ہے. سخت گرمی میں بھی سرسبز رہتا ہے )
تمہیں ملنے کی ہر وقت خواہش رہتی ہے، جی چاہتا ہے جا کر تمہیں مل آؤں.
وہ گلے لگ کر ملنے نہیں دیتا، چلیں اُسے دور سے ہی دیکھ آؤں.
تُم اتنے دور ہو کہ نہ تو تمہیں آنکھیں دیکھ سکتی ہیں ، نہ گلے مل سکتے ہیں.
اگر تم میرے آنے سے ناراض ہوتے ہو تو ہم آنا بھی چھوڑ دیں گے.
تمہیں اپنے خوبصورت ہونے کا بڑا گھمنڈ ہے، ہم کورے کاغذ پر تمہاری تصویر بنا لیں گے.
جب کبھی تم سے ملنے کو جی چاہا، تو اس تصویر کو دیکھ لیا کریں گے.
لیکن یہ یاد رکھنا، تُم بھی سکھ کی نیند نہ سو سکو گے جب کبھی ہماری یاد آ گیُ .
اگر تم زندہ ہو تو ایک دفعہ ضرور واپس آؤ، ایسا نہ ہو کہ ہم دونوں بچھڑے ہی مر جایُیں ).

اتنی مسکل زمین میں کویُ پنجابی زبان کا شاعر ہی شعر کہ سکتا ہے.

ڈھولا نمبر – 2

واہنڈا نت ٹُراؤ، بھیڑا لنگھدا اے کولوں مار کے پھیریاں
اک میں تاپ رنجانی، دوجا مار سُٹیا اے لٹکاں تیریاں
ڈھینی ساڈی چھڈ کے اگاں جا لایُ آ، اوتھوں وی شالا رہ کے آ جاہن تیریاں
ترُٹ گییُ دی اک مثال ہور دسّاں، جیوں ویلے دھمّی دے پکیاں تُوتاں تے جاندیاں گھُل انہیریاں

( میرا محبوب روز کا پردیسی ہے، آج بھی جانے والا ہے، دو تین دفعہ یہاں سے گزر چکا ہے.
ایک تو مجھے تمہاری جُدایُ کا بخار چڑھا ہے، اس پر تُمہاری چال، قربان جاؤں.
مجھے رنجیدہ چھوڑ کر تم نے کسی اور جگہ دل لگا لیا ہے، اللہ کرے وہاں بھی تمہاری دوستی ٹوٹ جاےُ.
جس کی یاری ٹوٹ جاےُ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے سحری کے وقت آندھی آےُ اور شہتُوت کے درختوں کے سارے پکے ہُوےُ شہتوت جھڑ جاییُں اور درخت پھل کے بغیر کھڑے رہ جاییُں )

مالی سارا سال شہتوت کے درختوں کی دیکھ بھال کرتا ہے ان کی گوڈی کرتا ہے، ان کی جڑوں میں کھاد ڈالتا ہے صرف اس آس پر کہ سال کے بعد ان پر پھل لگے گا ، جسے توڑ کر وہ کچھ مالی فایُدہ حاصل کر سکے گا، جس دن اس کا ارادہ شہتوت توڑنے کا ہوتا ہے اسی دن سحری کے وقت تیز آندھی آ جاےُ، اور سارے شہتوت درختوں سے جھڑ کر زمین پر ادھر اُدھر بکھر جایُیں اور درخت بے ثمر کھڑے رہ جایُیں تو مالی کی کیا حالت ہو گی. میری حالت بھی ایسی ہی ہے ).

کسی کی امیدوں کی تباہی کی مثال کا یہ ایک عمدہ نمونہ ہے، جو اس ڈھولے کے آخری مصرعہ میں بیان کیا گیا ہے.

اگلی قسط میں آپ کو ایک ایسا ڈھولا ملے گا ، جس میں ایک اچھوتا خیال پیش کیا گیا ہے. ڈنیا کی کسی شاعری میں غالباّ ایسا خیال پیش نہیں کیا گیا، اگلی قسط کا انتظار کیجیےُ.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *