ُپنجابی آکھان . ردیف “و”
نمبر 10 – 1
نمبر – 1 . وجدیاں دے وج بھارے میسیاں پنڈ گالے
بہادر لوگ ہمیشہ ڈنکے کی چوٹ پر کام کرتے ہیں. اور اس کام کی سب کو خبر ہوتی ہے. اس کے برعکس ” میسنے ” لوگ چپکے چہکے جڑیں کاٹتے ہیں.
پنجابی زبان کا لفظ ” میسنا ” یا ” میسا ” ا پنے اندر وسیع معنی رکھتا ہے. سب کی سن کر کسی کی نہ ماننے والا، بے جا ضد کرنے والا،ا پنے منصوبوں کو چپکے چپکے مکمل کرنے والا، ( ایسے منصوبے عموماّ مردم آزار ہوتے ہیں ) بات کو دل میں رکھنے والا، بات کا جواب نہ دینے والا لیکن اندر ہی اندر جڑیں کاٹنے والا، بظاہر میٹھا لیکن اندر سے زہریلا وغیرہ سب ” میسنا ” کی تعریف میں آتے ہیں.
اردو زبان کا یہ شعرشاید میسنا کی تعریف کے نزدیک ہو سکتا ہے :
سن کویُ ہزار جو سناےُ
کیجیےُ وہی جو سمجھ میں آےُ
نمبر – 2. ویلے دی نماز کویلے دیان ٹکراں
صحیح نماز وہی ہے جو وقت پر پڑھی جاےُ. وقت گزر جانے کے بعد پڑھی جانے والی نماز ایسی ہے جیسے یونہی بے مقصد زمین پر ٹکریں مار لی جایُں.
نمبر 3 . وہلی جٹُی اُن ویلے
جاٹ کی بیوی گھر میں بیکار بیٹھی تھی. اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیےُ یا مصروف ظاپر کرنے کے لیےُ اس نے اون بیلنی شروع کر دی. اب بھلا اون کو بیلنے کی کیا تک ہے .
پھٹُی (کپاہ) کو رویُ میں تبدیل کرنے کے لیےُ اسے بیلنے میں سے گزارا جاتا ہے. بیلتے وقت رویُ ایک طرف گرتی جاتی ہےاور بنولے علیحدہ رہ جاتے ہیں. پھٹی کو بینے سے گزارے بغیر نہ رویُ حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی بنولے. اون میں تو بنولے قسم کی کویُ چیز ہی نہیں ہوتی. اون کو آپ بیلنے سے جیسی گزاریں گے، دوسری ظرف سے ویسے ہی نکل آےُ گی.
ایسا کام کرنا جس کا کویُ فایُدہ نہ ہو، محض وقت ضایُع کرنے والی بات ہو تو یہ کہاوت صحیح مفہوم ادا کرتی ہے.
نمبر 4 . وگُا ڈھول وساکھی دا میتھوں نہیں رہی دا
بیساکھی کے میلے کا ڈھول بجنے لگا ہے. مجھ سے رہا نہیں جا رہا. میں تو میلے میں جا کر بھنگڑا ڈالوں گا.
بیساکھ کے مہینہ میں کسان اپنی گندم کی فصل کے دانے اپنے گھر لا چکے ہوتے ہیں. اب کچھ دنوں کے لیےُ وہ فارغ ہیں. ان فراغت کے دنوں میں عموماُ میلے ٹھیلے لگتے ہیں. جہاں منچلے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا ڈال کر اپنا رانجھا راضی کر لیتے ہیں. ( رانجھا راضی کرنا = یعنی اپنا جی خوش کرنا ).
نمبر 5 . وہڑ کھوہ وچ ڈگُا اے اینہوں کھسُی کر کے کڈھو
نوجوان بیل کنویُں میں گر گیا ہے. کنویُن میں یہ خوب قابو آےُ گا. اسے وہیں پر کھسُی کر لو ، پھر کنویُں سے باہر نکالو.
نوجوان بیل خر مستیاں بہت کرتے ہیں. ہل میں جوتتے وقت ادھر ادھر بھاگتے ہیں. دیہات والوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ وہ ان بیلوں کو کھسُی کر دیتے تھے. ایسے بیل کو لٹا کر چار آدمی اس کی ٹانگیں پکڑ کر انہیں باندھ دیتے. ایک آدمی اس کے سینگھوں اور سر کو قابو کر لیتا. ایک شکنجے ( پلاس ) کے زریعے اس کے خصیوں سے زرا اوپراس کی رگوں کو مسل دیا جاتا، اس عمل کو ”خصُی ” کرنا کہتے ہیں. خصی بیل خرمستیاں کرنا چھوڑ دیتے ہیں. اور ان کی ساری توانیاں کاشتکاری کے کاموں میں کام آتی ہیں.
نمبر 6 . وچُوں وچُوں کھایُ جا اتُوں رولا پایُ جا.
چپکے چپکے سب کچھ کھاتے جاؤ، کویُ چیز نہ چھوڑو. بظاہر زور زور سے بولتے جاؤ کہ مین تو ایسی چیزیں کھاتا نہیں.
جب کویُ شخص اندر ہی اندر جڑیں کاٹتا رہے اور بظاہر دوستی کا دم بھرتا رہے تو ایسے شخص کے متعلق یہ کہاوت کہی جاتی ہے.
نمبر 7 = وتھ تے وتھ ہوندی اے، بھاویں اُنگل جتنی ہووے.
نوٹ – وتھ کو واؤ کے نیچے زیر لگا کر پڑھیےُ. وتھ کے کیُ معنی ہیں. جُدایُ، فاصلہ، فرق ،خالی جگہ وغیرہ.
فاصلہ تو فصلہ ہی ہوتا ہے، چاہے ایک اُنگلی کے برابر ہو.
یہاں وتھ یا فاصلہ کی تشریح کی گیُ ہے ،فاصلہ یا فرق ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کا نام ہے.
جاری ہے.