پنجابی اکھان – ردیف “ع ” نمبر 6 – 1 – ردیف “غ” نمبر 1

پنجابی اکھان – ردیف ” ع ” نمبر 6 – 1

عشق کے اسرار و رمُوز تو عاشق اور معشوق ہی جانتے ہیں، لیکن بعض پنجابی اکھانوں میں بھی کچھ رمز کی باتیں کہی گییُ ہیں. جیسے ردیف ع کے پہلے اکھان میں بتایا گیا ہے کہ بعض حاسد لوگ عاشق و معشوق میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں. ان غلط فہمیوں کو دُور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ محبت کرنے والے دونوں فریق آپس میں براہ راست بات چیت کر کے غلط فہمیوں کو دُور کر لیا جاےُ. اس طرح حاسد لوگ بھی اپنے ارادوں میں ناکام ہو جاییُں گے.

پنجابی اکھان ردیف ش ، نمبر 8-1   پڑھنا چاہیں تو اس لنک پر کلک کریں.

اب ردیف ع اور غ کے پنجابی اکھان پڑھیےُ:

 

نمبر 1 – عاشق دوبدو جھورا چتواں نوں
عاشق اور معشوق تو روبرو ہو کر اپنے گلے شکوے دور کرنے لگے. ان دونوں کے درمیان بدگمانیاں پیدا کرنے والے÷والی کو فکر لاحق ہو گیُ کہ میرا بھانڈا پھوٹ جاےُ گا.

نمبر 2 – عزتوں ڈردا اندر وڑدا مورکھ آکھے میتھوں ڈردا
عزّت دار تو لڑایُ جھگڑے سے دور رہنے کے لیےُ گھر کے اندر چلا گیا. کم عقل یہ سمجھنے لگا مجھ سے ڈر کر گھر کے اندر چلا گیا.
لڑایُ، جھگڑنا فساد مچانا یہ سب تلنگوں کے کام ہیں. عزّت دار تو ان باتوں سے دور بھاگتے ہیں.

نمبر 3 – عیدوں بعد تنبا ساڑنا ایں
شلوار تو عید پر پہننی تھی. عید گزر گیُ، اب اگر شلوار سل کر آ بھی گیُ تو کس کام کی.
جب کوٰیُ چیز موقع پر نہ ملے، اور بعد میں ملے، تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.
دیہاتی شلوار کو ” تبنا‌” کہتے تھے ، آج کل یہ لفظ متروک ہو گیا ہے.

نمبر 4 – عشقوں وی گیُ شکاروں وی گیُ
بھج گیُ طباکھڑی دالوں وی گیُ             
عاشق بھاگ گیا یا چھوڑ کر چلا گیا. اب عشق اور شکار دونوں سے گیُ. مٹّی کے چھوٹے طباق میں دال تھی، طباق بھی ٹوٹ گیا، اور دال زمین پر گر گیُ. گویا سب کچھ ہاتھ سے گیا.
مٹّی کے بڑے پختہ برتن کو ” طباق‌” کہتے اس سے چھوٹے برتن کو ” طباکھڑی ” کہتے ہیں. گویا طباکھڑی ، طباق کی چھوٹی بہن ہے.

نمبر 5 – عقل ہے تے سوچاں ای سوچاں
عقل نہیں تے موجاں ای موجاں            
آدمی کے پاس عقل ہو یعنی وہ عقلمند ہو تو وہ ہر کام میً ” کہیں ایسا نہ ہو جاےُ کہیں ویسا نہ ہو جاےُ. ” کے چکّر میں پھنسا رہتا ہے. جبکہ بے عقل یا تھوڑی عقل رکھنے والا ہر کام میں بے خطر کود پڑتا ہے. وہ ایسے ویسے کی سوچ میں پڑتا ہی نہیں.
یہ حقیقت ہے کہ عقلمند آدمی ہر کام کی اونچ نیچ سوچ کر کام میں ہاتھ ڈالتا ہے. اور بعض دفعہ اسی سوچ بچار میں موقع گنوا دیتا ہے. وہ جو کسی نے کہا ہے
ارادے باندھتا ہوں ، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جاےُ، کہیں ویسا نہ ہو جاےُ
جناب افضل کامیانہ صاحب نے اس مضمون کو یوں بیان کیاہے :
لوگ جو عالی وقار ہوتے ہیں
وہی زیادہ توہم شکا ہوتے ہیں
اس کے برعکس کم عقل کام میں بے خطر کود پڑتا ہے. وہ صرف یہ کہتا ہے ” اللہ مالک ہے “.

نمبر 6 – عادتاں سراں تایُں
کسی کام کی عادت مرتے دم تک ساتھ رہتی ہے
آدمی کویُ کام مسلسل کرتا رہے، تو اس کی یہ عادت اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے . جو مرتے دم تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی. بعض لوگ اپنی مضبوط قوت ارادی کے ذریعے کویُ عادت چھوڑ سکتے ہیں. میں 55 سال تک سگریٹ پیتا رہا. کیُ دفعہ دو دو تین تین مہیںے سگریٹ پینا چھعڑ دیا. آج سے تقریبآ دس سال پہلے پختہ ارادہ کیا کہ اب سگریٹ نہیں پیوں گا. وہ دن اور آج کا دن ، سگریٹ نہیں پیا.، اب تو سگریٹ کے دھویُں سے بھی نفرت ہو گیُ ہے.
ایسے ھی کسی سگریٹ پینے والے شخص نے کہا تھا ” سگریٹ پینا چھوڑنا بہت آسان ہے ، میں کیُ دفعہ چھوڑ چکا ہوں “.

پنجابی اکھان – ردیف ” غ “

نمبر 1 – غریباں روزے رکھّے دن وڈّے آ گیےُ
غربت بزات خود ایک بڑی مصیبت ہے. غریب کو ویسے ہی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا. ایسے ہی ایک غریب نے حکم خداوندی سمجھ کر ماہ رمظان میں روزہ رکھا. سحری میں کھانا اتنا نہ تھا کہ پیٹ بھر کر کھاتا.ستم بالاےُ ستم یہ کہ گرمیوں کے دن تھے. جب دن بڑے ہوتے ہیں اور راتیں چھوٹی.. بھوک اور پیاس سے اس کا برا حال ہو گیا.
یہ کہاوت ایسے موقعقں پر کہی جاتی ہے جب کویُ غریب کویُ کام شروع کرے اور وہ کام ختم ہونے میں نہ آ رہا ہو. اس پر اخراجات بھی بڑھتے جا رہے ہوں.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *