• عنوانات
      :
      • 1 . tمعذرت
      2 . ڈھولا نمبر 1
      3 . ڈھولا نمبر 2

معذرت

سب سے پہلے میں اپنی لمبی غیر حاضری پر معذرت خواہ ہوں. دراصل میری ویب سایُٹ ہیک ہو گییُ تھی. ڈیویلپر اس پر کام کرتا رہا، اس وجہ سے دیر ہو گییُ. اب آپ اس ویب سایُٹ کو نیےُ انداز میں دیکھیں گے. اسے اب دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، یعنی انگلش اور اردو.
جب آپ سایُٹ کو کھولیں گے تو انگلش ورژن کھلے گا. ہوم پیج کے داہنی طرف یر اردو ورثن لکھا نظر آےُ گا. اس پر کلک کرنے سے اردو سایٹ کا ہوم پیج کھل جاےُ گا. انگلش کا ورژن دیکھنے کے لیےُ سایُٹ کے داہنی طرف انگلش ورژن پر کلک کریں. تو آپ کے سامنے انگلش کا ہوم پیج کھل جاےُ گا.
ا.

اس سے پہلے آپ ” پنجابی ڈھولے ، قسط نمبر 13 ” پڑھ چکے ہیں. اب قسط نمبر 14 حاضر خدمت ہے.

غلام اکبر نے پُنّوں کے عشق میں ڈوبی سسّی اور اس کی ماں کی گفتگُو کو موضوع سخن بنایا ہے. جسے ان ڈھولوں میں بیان کیا گیا ہے:

ڈھولا نمبر 1

پُنّوں کی محبت میں ڈوبی سسّی کو اس کی ماں سمجھا رہی ہے:

دُور ہو جا میری اکھیاں اگّوں، چڑھی لٹک وی آن اُلارے
ہُٹھّاں دا بھاڑی تُوں امام بناویں، تیری مت نوں کون سنوارے
تھل نوں سجدہ کرنی ایں سسّیےُ. جتھوں نسدے لوگ بھٹیارے
سد حکیم تیرا علاج کراساں، تیرے گھُتّھے نیں عقل پواڑے
علم پڑھا کے کُجھ نہیں کھٹیا، تُوں لاہیں آسمانوں توں تارے
اُستاد تیرے نوں سد گل کریساں غلام اکبر پیا آہندا اے ، وت ہو گیےُ صبح دے کارے
اردو ترجمہ:

سسّی! تم میری آنکھوں کے سامنے سے دُور ہو جاؤ، پتہ نہیں تمہیں کس چیز کا نشہ چڑھا ہؤا ہے.
اونٹون پر بار برداری کرنے والے کو تم اپنا پیشوا بنا رہی ہو، نادانی لی اس بات پر تمہیں کون سمجھاےُ.
تم اس گرم اور ہلاک کر دینے والے تھل صحرا کو سجدہ کرتی ہو، جس سے تنور گرم کرنے والے اور گرمی کے عادی لوگ بھی پناہ مانگتے ہیں.
میں حکیم کو بلا کر تمہارا علاج کرواؤں گی، تمہارا دماغ چل گیا ہے.
تم نے علم پڑھ کر بھی کچھ نہیں سیکھا، اُلٹا تم آسمان سے تارے توڑنے جیسی باتیں کرتی ہو.
غلام اکبر کہتا ہے ( اس کی ماں نے کہا ) کہ صبح تمہارت استاد کو بلاؤں گی، اور اس سے بات کروں گی کہ اس نے اپنی شاگردی میں تمہیں یہی کچھ پڑھایا ہے.

ڈھولا نمبر 2

سسّی اپنی ماں کو جواب دے رہی ہے:
ذرا بہہ جا امّاں میریےُ، تینوں میں اک گل سمجاییُں
ہُٹھّاں دا طعنہ کیوں دتّا ای ، ایہہ ذات کمینی تاں ناہیں
ہُٹھاں دے چھیڑو یعقوب دے پُتّر ، جے سچّی گل اکھایُیں
پھڑ مہار ہٹھّاں دی ٹُریا، جیہڑا لولاک دا سایُیں
مال خرید کے دمشق توں آندا، اونہاں ہٹھاں نوں سدا سراہیں
مہار ہٹھاں دی اک قیدی پھڑی، اُنہاں ہٹھاں دیاں رد بلاییُں
تھل پُنوں دا کیوں نندیا ای ماےُ، سُن تھلاں دیاں صفت ثنایُیں
ایس تھل وچ بانگ صبح دی مل گیُی جس جنّت دیاں دسیاں جایُیں
ایس تھل دیاں خبراں اگّے نبی سنایاں، تینوں وچ کتاب وکھایُیں
جیہڑا منکر ہوسی ایس تھل دا، اُس نوں حشر نوں سخت سزایُیں

اردو ترجمہ:

امّاں ! ذرا ٹھہرو، میں آپ کو ایک بات بتاؤں
آپ مجھے اُونٹوں والے کا طعنہ کیوں دیتی ہیں، یہ کویُ کمینی ذات تو نہیں
ان اونٹوں کو یعقوب علیہ السلام کے بیٹے چراتے تھے، اور اس میں کویُ جھُوٹ نہیں
دو جہانوں کے سردار خود ان اونٹوں کی مہار تھام کر تجارت کے لیےُ سفر کرتے رہے
دمشق سے مال خرید کر اللہ کے رسول انہی اونٹون پر لاد کر واپس مکّہ آتے تھے
کربلا کے قیدی جن اونٹوں پر سوار تھے ، ان کی مہار ایک قیدی کے ہاتھ میں تھی. جسے ہم بڑی عزّت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
امّاں! آپ نے تھل صحرا کی تضحیک کیوں کی ؟ ذرا اس کی تعریف سنیےُ
اس صحرا جیسی زمین میں کسی نے فجر کی نماز کے لیےُ اذان دی
اس صحرا کے متعلق بہت عرصہ پہلے ہی اس کی فضیلت بیان کی گیُ ہے
جو کویُ صحرا کی فضیلت سے انکار کرے گا، اُسے حشر کے دن سخت سزا ملے گی.

جاری ہے.