Charkha

پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 3

پنجابی ڈھولے، قسط نمبر3

آپ نے کبھی کسی بھی گیت میں مختلف حقایُق یا نصیحتیں پڑھی ہیں ؟. آیُے آپ کو پنجابی کا ایک ڈھولا سناتا ہوں ، پھر آپ فیصلہ کیجیےُ کہ شاعر سچ کہ رہا ہے یا غلط .
ڈھولا نمبر – 1

چیچی دیا چھلیا تینوں ٹھل کے پاہیےُ
نہ آپ سکھیےُ ، نہ لوک سکھایےُ
نہ کدھّاں ٹپیےُ، نہ چور سدایےُ
نہ اکھّاں بھر کے تکیےُ، ہتھاں نال بھجایےُ
جیوندا وتنا ایں تے پرتا گھت مہاراں نوں، جھوکاں پہلی جایُ تے لایےُ

  اردو ترجمہ :

چھوٹی انگلی کے چھلّے ، تمہیں انگلی میں پیار سے پہنوں
نہ تو خود کویُ برا کام کرنا سیکھیں، اور نہ ہی دوسروں کو ایسے کام سکھایُں
دیواریں پھاندیں گے تو لوگ چور تو کہیں گے، پھر ایسے کام کیوں کریں.
کسی کو آنکھ بھر کر نہ دیکھو، اس طرح راز ظاہر ہو جاتے ہیں، اپنے ہاتھوں کے اشاروں سے باتیں سمجھایُ جایُں .
اگر تم زندہ ہو تو ایک دفعہ واپس آؤُ، دوستی وہیں رکھنی چاہیےُ جہاں پہلے تھی.

ڈھولے کے آخری مصرعے میں ایک لفظ ” جھوک ” آیا ہے. یہ خالص پنجابی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی دوستی یا پیار کے ہیں. لڑکیوں کے ایک گیت کا نام ” جھوک” ہے.
اس ڈھولے میں ایک دوسرا لفظ ” جا یا جایُ ” آیا ہے. پنجابی زبان کے لفظ ” جا ” کے دو معنی ہیں نمبر 1 = کسی قطعہ زمین یا جگہ کے لیےُ لفظ ” جا ” بولا جاتا ہے.
نمبر 2 = بھینس، گاےُ یا بکری کے نوزایُدہ بچّے کو بھی ” جا ” کہ کر پکارا جاتا ہے.
اوپر والے ڈھولے میں لفظ ” جا یا جایُ ” کو پہلی جگہ کے معنوں مین استعمال کیا گیا ہے.

  ڈھولا نمبر 2

اس ڈھولے میں آجکل کے نوجوانوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے :

گھوک وے رانگلیا چرخیا تیری باگڑ اے جھلّی
اج دے گبھروآں دی رہندی اے ٹور اولّی
ویہڑے وڑدیاں پا لیندے نی جھلّی
پہلاں سددے ماں تے بھین، پھر لا لیندے نی گلّیں
مہنے سیّاں دے، کنّوں ڈوری، مونہوں مچلی، وچ گلیاں دے بہہ کے جھلّیں

  اردو ترجمہ –

رنگیلے چرخے.تم گھوں گھوں کرو، تمہاری ڈور ڈھیلی پڑھ گیُ ہے.
آج کل کے نوجوانوں کی چال بھی عجیب ہے.
صحن میں داخل ہوتے ہی دیوانہ بنا لیتے ہیں.
پہلے ماں جی، بہن جی کہ کر پکارتے ہیں، بعد میں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے رجھا لیتے ہیں.
بعد میں کیا ہوتا ہے. کسی کو اپنی سہیلیوں کے طعنے سننے پڑتے ہیں، طعنے سن کر یوں انجان بننا پڑتا ہے جیسے کچھ سنا ہی نہیں.منہ سے بولے تو کیا بولے).

ڈھولا نمبر 3
اس ڈھولے میں صاحباں کے حسن کی تعریف کی گیُ ہے

مرزے صاحباں روندی ڈٹھّی ، شمس وانگ چمکارے
اوہ ہو گیےُ آہموں سامنے، کھلّے بھید نظارے
اوہدیاں تلیاں مل مل مانجیاں، مکھّن وانگ لشکارے
اوہ ٹردی چال ممولیاں، موراں وانگ لے ہلارے
اوہدا لک مٹھی وچ اوندا ، جویں کمان کڑکارے
اوہدا نک سرا شمشیر دا، جس لکھاں بہادر نے مارے
اوہدے ہونٹ یاقوتے رانگلے، کردے قتل ہتھیارے
اوہدے نیناں نوں گڑھتی نور دی، جنہاں عاشق بنھ کھلارے
اوہدے سینے تون کج پیا سنگدا، پیا تعریف پکارے
غلام اوہدی دھون کونجاں توں اوکڑی، کرلاٹ ندی کنارے

  اردو ترجمہ –

 مرزے نے صاحباں کو روتے دیکھا، اسے یوں محسوس ہؤا جیسے اس کے سامنے سورج چمک رہا ہے.
وہ دونون روبرو ہوےُ اور ایک دوسرے کو نظر بھر کر دیکھا.
صاحباں کے پاؤں کے تلوےایسے چمکیلے اور صاف جیسے دھلا ہؤا مکھن.
وہ ممولوں کی طرح بے آواز اور موروں کی طرح جھوم جھوم کر چلتی نظر آتی.
اس کی کمر اتنی پتلی کہ ایک مٹھّی میں آ جاتی، جیسے کمان کو ایک مٹھّی میں پکڑ لیتے ہیں.
اس کی ناک اس تیز تلوار کی نوک کی مانند تھی جو کیُ بہادروں کا خون کر دیتی ہے.
اس کے ہونٹ یاقوت کی طرح سرخ، قتل کرنے کے لیےُ اس کا یہی ہتھیار کافی تھا.
اس کی آنکھیں جیسے جلتی ہویُ دو شمعیں، جنہیں نُور کی گڑھتی دی گیُ ہو، جنہیں دیکھنے کے لیےُ کیُ عاشق کھڑے رہتے تھے.
اس کے سینے کے ابھار کو دیکھ کر شرم و حیا بھی اپنے آپ کو ہیچ سمجھنے لگتے.
غلام کہتا ہے کہ اس کی لمبی گردن یون معلوم ہوتی تھی جیسے ڈار سے بچھڑی ہویُ کونج ندی کے کنارے منہ اوپر اٹھا کر بیں کر رہی ہو .

کونج کی گردن ویسے بھی بہت لمبی ہوتی ہے، اور جب وہ آسمان کی طرف منہ کر کے بولتی ہے تو اس کی گردن بہت زیادہ لمبی دکھایپ دیتی ہے.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *