Horse

پنجابی ڈھولے. – قسط نمبر -2

پنجابی ڈھولے
قسط نمبر -2.

دیہات کے لوگ بھینسوں اور گھوڑیوں سے بڑا پیار رکھتے ہیں. جس شخص کے پاس یہ دونوں جانور موجود ہوں، یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ مالدار اور با عزُت شخص ہے. آج کل کے زمانہ میں گھوڑی کی جگہ کار اور موٹر سایُکل نے لے لی ہے. مگر بھینسوں کی قدر اور ان سے محبت اب بھی اپنی جگہ پر ہے. اس ڈھولے میں بھینسوں کی تعریف کی گیُ ہے :

  ڈھولا نمبر 1

مجھُیں مال مہتابیاں رب عرشاں توں آندیاں
مجھُاں منگیا دن دا چُگنا، گھاہ ہرے نی کھاندیاں
مجھُیں لین ڈُبکیان دریا اندرکنڈھیاں نال کھہاندیاں
پیر خضر خواج ہویا اے راضی جدوں مجھُیں پتنوں لاندھیاں
مجھُاں مال اڈارُو ، گھر قسمت والے دے رہندیاں

اردو ترجمہ:

بھیسیں اللہ کی خاص نعمت ہیںً جو ہمیں عطا کی گیُ ہیں.
بھینسوں نے دن کے وقت ہری ہری گھاس چگنا پسند کیا .
بھینسیں دریا ( پانی) میں ڈبکیاں لگا کر بہت خوش ہوتی ہیں . اور دریا کے کناروں کے ساتھ خوشی اور موج میں اپنا سر رگڑتی ہیں.
خضر علیہ السلام بڑے خوش ہوتے ہیں جب بھینسیں دریا کی طرف آ رہی ہوتی ہیں. ( دیہات میں یہ عقیدہ عام ہے کہ دریاؤں پر خضر علیہ السلام کی حکمرانی ہے. اور دریاؤں میں ڈوبنے والوں کو وہی اللہ کے حکم سے بچاتے ہیں ).
بھیسیں تو اڑ جانے والی اُس پری کی مانند ہیں جو قسمت والے ہی کے گھر میں ٹھہرتی ہے).

بھینسوں کی طرح دیہات والے گھوڑیوں سے بھی بڑا پیا کرتے ہیں. درج ذیل ڈھولے میں گھوڑی کی تعریف کی گیُ ہے. اس ڈھولے کا پس منظر یہ ہے کہ “کوکا” اور “باوا ” نامی دو آشخاص میں عداوت تھی. ایک دفعہ باوا کو پتہ چلا کہ کہ کوکا نزدیکی اڑکانے ٹیلے ( ٹیلے کا نام ) پر موجود ہے. باوا فوراُ تیار ہو گیا کہ اسے مار ڈالے.

ڈھولا نمبر 2 :

کال پیُ نت بُلیندی ، نارد اٹھیا ای ڈانڈو بھر کے
باوا لتھُا چوباریوں ، دو نالی بھر کے
ساوی تے پایُ کاٹھی، وچ بازار دے وڑ کے
ساوی نوں آہندا اے تینوں پالیا اے وانگ فرزنداں دے کر کے
ساوی آہندی اے کاٹ کرنی تیرے ہتھیاراں، اڑکانے ٹبُے توں کوکا نہ جاسی مل کے
فقیر آہندا اے بھجدی گھوڑی دی ایہ نشانی، جیوں نیل دریا وچ جاندی اے مچھُی تر کے.

  اردو ترجمہ :

تقدیر روزانی بلاتی تھی، تدبیر بھی چھلانگ لگا کر اٹھُی .( پنجابی ڈھولوں میں “کال” عموماّ تقدیر کے معنی میں لی جاتی ہے اور ” نارد ” تدبیر کے معنوں میں )
باوا کو جب کوکا کی خبر ملی تو وہ دو نالی بندوق میں کارتوس بھر کر چوبارے سے نیچے اترا.
اپنی گھوڑی پر جسے وہ پیار سے “ساوی” ( سبز رنگ والی) کہتا تھا، زین کسی.
گھوڑی سے کہا ” ساوی ! میں نے تمہیں اپنے بیٹوں کی طرح بڑے لاڈ پیار سے پالا ہے. آج اپنا فرض پورا کرنا. ”
ساوی نے کہا ” کوکا کو قتل تو تمہارے ہتھیار کریں گے.، میرا کام یہ ہے کہ کوکا کے بھاگنے سے پہلے تمہیں اس کے سر پر پہنچا دوں “.
فقیر ( ڈھولے کا مصنف) کہتا ہے گھوڑی اتنی تیز دوڑی، معلوم ہوتا تھا جیسے کویُ مچھلی بڑی تیزی سے دریاےُ نیل میں تیر رہی ہے.

اس ڈھولے میں ان گھوڑیوں کی تعریف کی گیُ ہے جو صاحباں کی شادی پر بارات میں آیُ تھیں :

ڈھولا نمبر 3 – =

میدان چدھڑاں دے ویکھیےُ ، آوے ٹھٹ گھوڑیاں دے دُل دا
پینتی ہور نی کُلیان، شمار کریےُ گل دا.
ساویاں تے چوہے رنگیاں،کولوں پنچھی آڈ نہیں ہلدا..
مُشکی، ہور کمیدنی ، دُم لمّے، پینڈا کرن اک پل دا.
ککریاں ہور نکریاں، جویں باز ماراں تے ڈھلدا.
غلام سواراں باہجھ نہ بھجّن، اوہ بھنّن منہ بکل دا.

  اردع ترجمہ :

چھدڑوں کی بارات کی آمد دیکھیےُ، کیسی کیسی گھوڑیوں پر بیٹھ کر آےُ ہیں .
سفید رنگ کی، بھورے رنگ کی، جن کے ساتھ پرندہ بھی نہیں اڑ سکتا. کس کس کو گنے.
سبز رنگ کی، چوہے کی رنگت والی گھوڑیاں، جن کے دم لمبے، اورپل بھر میں فاصلہ طے کرنے والیاں.
ککریاں اور نکریان یوں جھپٹیں جیسے باز اپنے شکار پر جھپٹتا ہے.
غلام ( ڈھولے کا مصنف ) کہتا ہے کہ شہسواروں کے بغیر انہیں قابے کرنا مشکل ہوتا ہے. انجان کو تو وہ اپنے پر سوار ہی نہیں ہونے دیتیں.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *