arif lohar singing mahia

پنجابی لوک گیت ” ماہیا ” قسط نمبر 1 Mahia

 پنجابی لوک گیت ” ماہیا “. Mahia
قسط نمبر 1.

عنوانات:
نمبر 1 = تعارف
نمبر 2 = موضوعات
نمبر 3 = اقسام
نمبر 4 = ماہیا اور قومی جد و جہد
نمبر 5 =ماہیا اور ہنسی مذاق

تعارف :

ماہیا صوبہ پنجاب کا مقبُول ترین لوک گیت ہے. ہیہت کے لحاظ سے اردو یا ہندی کی کسی صنعت شعر سے مماثلت نہیں رکھتا،یہ دو ٹکروں میں بٹا ہوتا ہے. پہلا ٹُکڑا عمومآ بے معنی ہوتا ہے. اور یہ ٹکڑا دوسرے مصرعے کے ہم قافیہ اور ہم ردیف الفاظ  پیش کر کے جیسے ماہیےُ کی اصل کلی سے قطعی الگ ہو جاتا ہے. آج کل ایسا ماہیا بھی سُننے میں آیا ہے جس کے ابتدایُ بول لمبے ٹکڑوں سے مل کر بنے ہوتے ہیں. ان کلیوں کا حُسن قدرتی طور پر بہتر ہوتا ہے. ان کا پہلا ٹکڑا عمومآ بے معنی ہوتا ہے. لیکن بے معنی اور غیر متعلق ابتدایُ ٹکڑے سے قطع نظر ماہیا کا تاثر ہمہ گیر ہے.

ماہیا کے موضُوعات متنوع ہیں. اس کا آہنگ بے مثل ہے. ماہیا کا عمومی موضُوع حُسن و عشق ہے. اور اس موضوع پر جب ماہیا گایا جاتا ہے تو غالب اور حسرت کی شاعری بھُول جاتی ہے. اس کی وجہ غالبآ یہ ہے کہ ماہیا ہماری مادری زبان پنجابی میں بولا اور گایا جاتا ہے. جس کے الفاظ براہ راست دل اور دماغ کو متاثر کرتے ہیں.

موضوعات :

پنجابی لوک گیت ماہیا کا موضوع صرف حُسن و عشق ہی نہیں بلکہ غزل کی طرح اس میں ہر موضوع کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت موجود ہے. اس میں فلسفہ اور نفسیات تک کے نکات مل جاتے ہیں. بعض اوقات یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک مویشی چراتا ” چھیڑُو ” لڑکا ماہیا کے رُوپ میں جو صحت مند اور زندگی سے قریب تر فکری نظریہ پیش کرتا ہے وہ ہمیں غالب اور اقبال کے ہاں ہی مل سکتا ہے. اور پھر یہ نظریہ کسی کتاب کے مطالعہ کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ نچوڑ ہوتا ہے ان تجربات کا جو براہ راست زندگی سے حاصل ہوتے ہیں. اور جسے زندگی کے حقایُق پیش کرتے ہیں. ایک کلی ہے

جوڑا دانداں دا                 مُڈھ نوں پھڑییےُ کویُ اعتبار نہیں پانداں دا.

اردو ترجمہ

بیلوں کی جوڑی ہے.
زمین سے نکلے ہُوےُ تنے کو مضبوتی سے پکڑنا چاہیےُ، کیونکہ سب سے اوپر والا حصّہ بڑا کمزور ہوتا ہے. کتنی قوی شاعری ہے. پتھر کو پتھر کہیےُ، بہت کم لوگ توجہ دیں گے. اسی کو قلب کوہسار کی قاش کہہ دیجیےُ ، ہجوم کا ہجوم جھوم اُٹھے گا.

ماہیا کا تاثر ہمہ گیر ہے. ہر شعر کا الگ موضوع، ردیف اور قافیےُ کی پابندی، نازک اور رسیلے الفاظ کا استعمال اسے بہت ہی متاثر کُن بنا دیتا ہے. پنجاب کے عوام کو حافظ کی کویُ غزل، اقبال کی کویُ نظم اتنا متاثر نہیں کر سکتی جتنی ماہیےُ کی ایک کلی. عشق کی نفسیات یہاں عجیب و غریب صورتوں میں جلوہ گر ہوتی ہیں. ایک کلی ہے :

چولا شاہیےُ دا
گھُل نہیں پُریا، کھُرا بھج ویسی ماہیےُ دا

اردو ترجمہ 

بادشاہ کی قمیض ہے.
اے مشرق کی ہوا ! بہتر ہے کہ تم نہ چلو. تمہارے چلنے سے میرے محبوب مسافر کا نقش قدم ، جو مجھے بہت ہی پیارا ہے اور اس کے ساتھ کیُ یادیں وابستہ ہیں، مٹ جاےُ گا.

ایک اور کلی ہے جس کا پس منظر کچھ یُوں ہے کہ محبوب پردیسی ہے یا پردیس جانے والا ہے، اس کی رُخصت کا دن جُوں جُوں قریب آ رہا ہے ، اس کی ہر حرکت کو سفر کی تیاریوں کی تمہید سمجھا جا رہا ہے اور یہ عین فطرتی اور نفسیاتی ہے. کلی یہ ہے :

دھاگے کھیساں دے
کھنب پیےُ چھنڈ دے، پنچھی بیگانیاں دیساں دے

اردو ترجمہ

کھیس کے دھاگے ہیں.
پراےُ دیس کے پنچھی اُڑ جانے کی تیاری میں اپنے پر پھڑپھڑا رہے ہیں.

بعض اوقات جب کلی کے ابتدایُ بول اصل کلی سے متعلق ہو جاتے ہیں تو کلی میں عجیب لطف اور جامعیت پیدا ہو جاتی ہے. جیسے یہ کلی ہے :

تندُوری تایُ ہویُ آ
خصماں نوں کھاہن روٹیاں، چٹھّی ماہیےُ دی آُٰیُ ہویُ آ

اردو ترجمہ

روٹیاں پکانے کے لیےُ میں نے تندُوری ( چھوٹا سا تنُور جو گھر کے صحن میں بنا لیا جاتا ہے ) گرم کر رکھی ہے. روٹیاں جایُیں بھاڑ میں، میرے محبوب کا خط آیا ہے، پہلے اُسے پڑھُوں گی.

ماہیےُ کی دُنیا بڑی وسیع ہے. ہزاروں کلیاں ہیں. سینکڑوں موضُوعات ہیں. یہ مدتوں سے پنجابی دیہات میں رایُج ہے. مگر آج تک اسے زوال نہیں آیا. اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ ہر موضُوع کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتا ہے. اور اس کا اختصار اشاریت کے گنت خزانے اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے.

اقسام :

ماہیا کی تین قسمیں رایُج ہیں
نمبر 1
؛ پہلی قسم کا ماہیا دو ٹکڑوں میں بٹا ہوتا ہے. پہلا ٹکڑا عمومآ چھوٹا اور بے معنی ہوتا ہے. یعنی اس کا تعلق دوسرے ٹکڑے سے نہیں ہوتا. لیکن دوسرے ٹکڑے کا ہم قافیہ ہوتا ہے. دوسرا ٹکڑا لمبا ہوتا ہے اصل مضمون اسی ٹکڑے میں ہوتا ہے. ماہیےُ کی یہی قسم زیادہ مقبُول ہے. یہ اتنا وسیع ہے کہ اسے احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے. روزانہ نت نیےُ بول گھڑے جاتے ہیں. اس قسم کے ماہیےُ کے کچھ بول درج ذیل ہیں:

بیری نال بُور ہوسی

مل کے تے نہیں تُریا، راہ رُنّا ضرُور ہوسی
اردو ترجمہ: بیری کے درخت پر بُور ہے ( درختوں پر پھل لگنے کی ابتدایُ شکل کو پنجابی زبان میں بُور کہتے ہیں )
میرا محبوب مجھے مل کر تو نہیں گیا، اس کا صدمہ اُسے بھی ہو گا، ممکن ہے اسی صدمے میں وہ رویا بھی ہو . ( کیا خوش فہمی ہے – ادارہ )

گل کُرتہ گوجر دا

کتھّے جا کے بیٹھ رہیوں ، تیرا دل نہیں اودر دا
اردو ترجمہ: گلے میں گوجرہ میں سلی ہویُ قمیض ہے.
تم مجھ سے دُور کہاں چلے گیےُ. تمہارا جی بھی اُداس نہیں ہوتا !.

تھالی وچ لپ چھولے

اک تیرا رنگ سوہنا، دُوجا ٹُردی دا لک ڈولے
اردو ترجمہ : تھالی میں مُٹھی بھر چنے ہیں
ایک تو تمہارا کھلتا ہُوا خوبصورت رنگ اور اس پر غضب کہ جب تم چلتی ہوتو تمہاری پتلی کمر سو بل کھاتی ہے.

مسراں دیاں پاپڑیاں

رنّاں پراییُاں ، کدی نہ ہوندیاں آپنیاں
اردو ترجمہ : مسُور کے بنے پاپڑ ہیں.
یاد رکھو، کسی دوسرے کی عورت کبھی بھی تمہاری نہیں ہو سکتی.

گڈیاں دے چین ہوندے
گھر جا ملیےُ ، تاں سجناں دے دین ہوندے
اردو ترجمہ : گاڑیوں کی زنجیریں ہیں ،
سر راہ ملنا تو کویُ بات نہیں، احسان تو تب ہے کہ کسی کو ملنے کے
لیےُ اُس کے گھر جایا جاےُ.

وڈھ کے دھریک آیُ آں
دُکھاں گھبرایا، لے سجناں دی ٹیک آیُ آں
اردو ترجمہ : دھریک کے درخت کو کاٹ دیا ہے،
غموں سے گھبرا کر تمہارے پاس آیُ ہُوں، مجھے سہارا دو.

مغزی چولے دی
اگّے کتھّے رہی آہیں ایڈی دردن ڈھولے دی
اردو ترجمہ: کُڑتے پر خوب صورت کڑھایُ ہے.
اب جب کہ مشکل وقت گزر گیا، تو تمہیں میرا خیال آیا. اس سے پہلے تم کہاں تھیں ؟.
یاد رہے کہ پنجابی شاعری میں محبوب کو ماہی، ماہیا، ڈھول اور راہنجھنا وغیرہ کے نام سے بھی پُکارا جاتا ہے.

دھمّی دیا گھُل پُریا
اک افسوس رہیا ، ماہی مل کے نہیں ٹُریا
اردو ترجمہ : صبح کی ہوا ! آہستہ چلو.
اُس نے چلے جانا تو تھا. لیکن یہ افسوس رہا کہ وہ مجھے ملے بغیر چلا گیا.

ساوے رُکھ ماہیا
عشق پنگھُوڑا ، جھُوٹے دیندا دُکھ ماہیا.
اردو ترجمہ: سبز درخت ہیں
محبت کرنا آساں نہیں ، محبت اگر پنگھُوڑا ہے تو اسے ہلارے دینے والے کا نام دُکھ ہے.

کُنڈا لگّا دوانی نوں
سانوں غم لان والیےُ، شالا لگّی جوانی نوں
اردو ترجمہ ؛ دونّی کو کۃنڈا لگایا.
ہمیں غم دینے والی! خدا کرے تمہاری جوانی غم میں بیتے.

اگر مندرجہ بالا کلی کا اردو میں ترجمہ کیا جاےُ تووہ کچھ یُوں ہوگا:

قرار لُوٹنے والے، تُو قرار کو ترسے
میری وفا کو میرے اعتبار کو ترسے

ٹاہلی دا تاک ہوندا
دُکھ سُکھ ونڈدا ، جے ماہی ہڈّاں دا ساک ہوندا
اردو ترجمہ: شیشم کے درخت سے بنا ہُوا دروازے کا ایک پٹ ہے.
اگر میرا محبوب میرا خُونی رشتہ دار ہوتا، تو میرے دُکھ سُکھ کا ساتھی ہوتا.
پنجاب کے دیہات میں رشتہ داریوں کی بڑی اہمیت ہے. خصوصآ بہت قریبی رشتہ دار ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں. پنجابی زبان کی ایک کہاوت کا ترجمہ کچھ یُوں ہے ” رشتہ دار دشمنی کی وجہ سے اگر اپنے کسی رشتہ دار کو قتل کر دے تو وہ یہ ضرور کرے گا کہ مقتول کی لاش کو دھوپ میں نہیں چھوڑے گا بلکہ لاش کو کسی سایہ میں ڈال دے گا ” مندرجہ بالا کلی میں کچھ ایسی ہی کیفیت بیان کی گیُ ہے.

کالا کوٹ سوایا ای
کسے دیا نہ پُترا، بدنام کرایا ای
اردو ترجمہ : کالے رنگ کا کوٹ سلوایا ہے.
تم کس مرد کی اولاد ہو ! مجھے یونہی بدنام کرا کر اکیلا چھوڑ دیا.

کانا کھاری دا
کر کے ودیا مگروں سد نہیں ماری دا
اردو ترجمہ : کھاری کا سرکنڈہ ہے.
کسی کو، خصوصآ محبوب کو الوداع کہنے کے بعد آواز نہیں دیتے.
ایک قبیلہ کی عورتیں ایک بڑی ٹوکری میں گاؤں گاؤں جا کر عورتوں کی کلایُ کی چُڑیاں بیچتی ہیں . اس ٹوکری کو ” کھاری ” کہتے ہیں . آواز دینے کو پنجابی زبان میں ” سد مارنا” کہتے ہیں

پانی پی گیےُ او
یا کسے ہوڑ لیا، یا دلوں مری گیےُ او
اردو ترجمہ ؛ تم نے پانی پی لیا ہے.
تمہارے رویّے سے معلوم ہوتا ہے کی یا تو تمہیں کسی نے ہمارے ساتھ بات کرنے سے منع کر دیا ہے، یا پھر تم ویسے ہی پیچھے ہٹ گیےُ ہو.

ماہیا اور قومی جد و جہد

گزشتہ قومی انقلاب اور جد و جہد آزادی ( 1940 سے 1947 تک ) میں لوک گیت ماہیا دیہی قومی کارکنون کا ایک ہتھیار تھا. فرنگی کی مخالفت، پاکستان کی حمایت اور عوام کے دلوں کی پُکار کو اس کے اندر جزب کر لیا گیا.اگرچہ آزادی کے بعد یہ کلیان بہت کم سننے میں آتی ہیں،مگر جس طرح اردو ادب میں اقبال، ظفر علی خاں وغیرہ کی وہ نظمیں زندہ رہیں گی جو صرف 14 اگست 1947 سے پہلے کے واقعات سے تعلق رکھتی ہیں، اسی طرح لوک گیتوں کے ہجوم میں یہ کلیاں بھی ہمیشہ دمکتی چمکتی رہیں گی.

چڑیاں چیک دیاں
ٹُر گیےُ گورے گلیاں مسلم لیگ دیاں
ااردو ترجمہ : چڑیاں چیخ رہی ہیں
انگریا واپس اپنے وطن چلے گیےُ، اب تمام ملک مسلم لیگ ( مسلمانؤں ) کا ہے.

آزادی کی جد و جہد میں مسلم لیگ کو یہ مقبولیت حاصل تھی کہ عوام اُسے مسلمانوں کی حقیقی نمایُندہ جماعت تسلیم کرتے تھے. 1947 کے زمآںہ میں دیہات کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ تھی. اور وہ مسلم لیگ کو مسلم لیک کہہ کر پُکارتے تھے.

منجیاں وان دیاں
تُر گیےُ سکھڑے، گلیاں پاکستان دیاں
اردو ترجمہ : بان کی چارپایُاں ہیں.
غیر مسلم یہاں سے چلے گیےُ، اب یہ ملک مسلمانوں کا ہے جس کا نام پاکستان ہے. ًٰ

ماہیا اور ہنسی مذاق

ماہیا میں جہاں اور موضوع ہیں وہاں اس کا دامن ہنسی مذاق کے پھُولوں سے بھی خالی نہیں. ماہیا کی بعض کلیاں ایسی ہیں جنہیں سُنتے ہی بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے . چند کلیاں پڑھیےُ؛

کھُرپی گھاہیےُ دی
اکھّیں پییُ ویکھاں تھُنّی کُٹیندی ماہیےُ دی
اردو ترجمہ : گھسیارے کا کھُرپا ہے.
میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہُوں کہ میرے محبوب کے مُونہہ پر چانٹے لگ رہے ہیں.

ہٹیاں وچ بھبھکے نی
گھر ماہی لکھیں وسدا ، باہر بھُکھے دے یبھکے نی
اردو ترجمہ ؛ دکانوں میں ڈبّے ہیں،
میرے ساجن گھر میں تو بڑے آرام سے رہتے تھے. پردیس میں بھُوک کے دھکّے کھا رہے ہیں.

ڈبیاں گاییُں ماہیا
بہوں چگایاں نے ہُن مرنے ساییُں ماہیا
اردو ترجمہ : رنگ دار گایُیں ہیں
ہمیں بڑا عرصہ ہُؤا گاییُں چراتے ہُوےُ، اب یہ جایُیں بھاڑ میں ہم سے یہ کام نہیں ہوتا.

ککراں دے مُڈھ سادے
ہُن کیوں رونی ایں، چٹّے مکھانے تُدھ کھاہدے
اردو ترجمہ : ککر کی جڑیں سادہ ہیں.
اب جب مصیبتیں پڑیں، تو رونے لگی. آغاز محبت میں اپنے ساجن کے لاےُ ہُوےُ مکھانے ہنس ہنس کر کھتی تھیں. اب مصاُٰیُب بھی ہنس ہنس کر سہو.

سفید چینی سے بنی ہُویُ کنکر نما مٹھایُ کو ” مکھانے ” کہتے ہیں، جو عمومآ نکاح کے بعد حاضرین میں تقسیم کیےُ جاتے ہیں.

کوٹھے تے کھنڈ پاہڑی
آپے پچھّا چھڈ جاسیں، جدوں پُلسیاں پھنڈ چاہڑی
اردو ترجمہ : چھت پر چینی ڈالی.
بڑے دعوے باندھتے ہو کہ تُم کسی سے نہیں ڈرتے، جب پولیس نے تمہیں جُوتے لگاےُ تو خود بخود میرا پیچھ چھوڑ دو گے.

آج کی محفل یہاں ختم ہوتی ہے. قسط نمبر 2 میں ماہیا لوک گیت کی دوسری قسم پر بحث ہوگی ، انتضار فرمایےُ.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *