پنجابی اکھان – ردیف ” ج ” نمبر 10 -1

پنجابی اکھان، ردیف ” ج ” نمبر 10 – 1

آج ہم ردیف “ج” سے شروع ہونے والے پنجابی اکھان پیش کر رہے ہیں. امید ہے آپ اس سلسلے کو پسند کریں گے،. ہر صفحہ کے آخر میں ” کمنٹس ” میں اپنی راےُ ضرور دیجےُ. اس سے ہمیں اس سلسلے کو مزید دلچسپ بابے میں مدد ملے گی. پیشگی شکریہ. اگر آپ
پنجابی اکھان ردیف ٹ، نمبر 2-1 پڑھنا چاہیں تو اس لنک پر کلک کریں.
پنجابی اکھان ردیف ج یہاں سے شروع ہو رہے ہیں :

نمبر 1 . جا نی دھیےُ راوی نہ کویُ آوی ، نہ کویُ جاوی
بیتی ! اپنے سسرال، راوی کے پار جا رہی ہو.وہ اتنی دور ہے کہ وہاں سے نہ تو کویُ آےُ گا ، نہ جاےُ گا.
پہلے زمانے میں آمد و رفت کے ذرایُع آج جیسے نہیں تھے. لوگ آنے جانے کے لیےُ گھوڑوں پر سفر کرتے تھے. دریاؤں کو پار کرنے کے لیےُ خاص مقام مقرر تھےجنہیں ” پتّن ” کہا جاتا تھا. جہان ملاح اپنی کشتیوں سمیت موجود ہوتے تھے. کشتی میں سوار ہو کر ہی دریا کو پار کیا جا سکتا تھا. اگر کسی کی رشتہ داری دریا کے پار لوگوں سے ہوتی تھی تو آپس میں ملنا کارے دارد ہوتا تھا. یہ کہاوت ایسے موقعوں پر کہی جاتی ہے جب کسی کا رشتہ دار دور رہتا ہو اور اس کے ہاں جانا کافی دشوار ہو.

نمبر 2 – جتھّوں دی کھوتی اوتھے آ کھلوتی
گدھی گھوم گھام کر آخر کار اپنے ٹھکانے پر ہی آیُ.
یعنی گدھی سارا دن جہاں چاہے گھومتی چگتی پھرے، شام کو وہ اپنے مقررہ کھونٹے پر ہی آتی ہے. اردو زبان میں اس کے ہم معنی الفاظ کچھ یوں ہوں گے :
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

نمبر 3 – جدوں دند آہن، چھولے ناہن ہن دند نے، چھولے نہیں
جس وقت دانت مضبوط تھے، کھانے کے لیےُ چنے نہیں ملتےتھے، اب چنے ہیں تو انہیں چبانے کے لیےُ دانت نہیں.
چنے چبانے کے لیےُ مضبوط دانتوں کی ضرورت ہوتی ہے. جس وقت اپنے دانت مضبور تھے، کھانے کے لیےُ چنے خریدنے مشکل تھے. آج خوشحالی کے زمانے میں چنے خرید سکتے ہیں، مگر انہیں چبایُں گے کیسے ؟. دانت تو سب جھڑ گیےُ. اپنے اپنے نصیب ہیں. مستنصر حسین تارڑ نے اس سے ملتا جلتا مفہوم یوں ادا کیا ہے؛ ” قسمت اکثر ان لوگوں کو ہی بادام دیتی ہے ، جن کے پاس دانت نہیں ہوتے “.

نمبر 4 – جتھّے جاےُ تت بھڑتھّی تاندلا وی اوسی ہتّی
میں جس دکان پر جاتی ہوں، تاندلا وہاں آ جاتا ہے یا پہلے سے موجود ہوتا ہے.
یہ مسٹر تاندلا پتہ نہیں اس عورت کا پیچھا کرتا تھا یا یہ محض اتفاق ہوتا تھا کہ وہ جس دکان پر جاتی ، مستر تاندلا پہلے سے وہاں موجود ہوتا تھا. اس کہاوت کو آپ یوں بھی کہ سکتے ہیَں :
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے

نمبر 5 – جتھّے تکیا توا پرات اوتھے گزاریا دینہ تے رات
جہاں کہیں کھانا ملنے کی امید دیکھی، وہیں دن رات گزار لیا.
روٹی پکانے کے لیےُ دو چیزیں ضروری ہیں، ایک پرات جس میں آٹا گوندھا جاےُ، دوسرا توا، جس پر روٹی پکایُ جاتی ہے. اگر یہ دونوں چیزیں نظر آ جایُں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گھر میں روٹی ضرور پکتی ہو گا. اور اس گھر کا مہمان بننے کا مطلب ہے کی دو وقت کھانا تو ضرور ملے گا.
ہمارے گاؤں میں ایک شخص رحمت خاں نامی تھا، جسے لوگ عرف عام میں رحماں کے نام سے پکارتے تھے. وہ اکثر اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ہاں جا کر مہمان رہتا تھا. اس سے پوچھا گیا ” تم سال کا زیادہ عرصہ دوستوں اور رشتہ داروں کے ہاں مہمان رہتے ہو، اس کی وجہ کیا ہے ؟ ” رحماں نے جواب دیا ” کسی کا مہمان بننے کا فایُدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مہمان کو اچھّا کھانا کھلاتے ہیں اور اس سے صحت اچھّی رہتی ہے “. یہ کہاوت غالباّ کسی ایسے ہی شخص کے متعلق کہی گیُ ہے.

نمبر 6- جتھّے ہووے پیار اوتھے نہ کریےُ ادھار
جہاں دوستی ہو وہاں ادھار نہیں دینا چاہیےُ کہ ادھار محبت کی قینچی ہے.

نمبر 7 – جیسی روح ویسے فرشتے
آخرت کا دارو مدار اپنے اپنے اعمال پر ہے. اچھّے اعمال کرنے والوں کی روح فرشتے نرمی سے نکالیں گے، برے اعمال کرنے والوں کی روح نکالنے والے فرشتے بھی سخت قسم کے ہونگے.

نمبر 8- جٹ کی جانے کوکلے پد پھیڑے کھا
جاٹ کیا جانے کہ قلاقند کا مزہ کیا ہوتا ہے. وہ تو کھمبی کے ساتھ اگنے والے ” پد بھیڑے ” کو مٹھایُ سمجھ کر کھا جاتا ہے.
برسات کے موسم میں کھمبی اگتی ہے جس کی شکل اوپر سے گاؤ دم جیسی ہوتی ہے. اس کے ساتھ کھمبی کے خاندان کا ایک پودا اگا کرتا ہے جو اوپر سے چھتری کی طرح پھیلا ہوتا ہے. اسے ” پد بھیڑا ” کہتے ہیں. اس کا ذایُقہ عجیب بد مزہ ہوتا ہے اور اسے عموماّ کویُ نہیں کھاتا. زہریلا ھونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے. شہروں میں لوگ اسے کھمبی سمجھ کر کھا جاتے ہیں. آج کل مش روم پیزا میں زیادہ تر یہی استعمال ہوتا ہے.

نمبر 9 – جٹ تے پھٹ بدّھے چنگے
زخم کو باندھ کر رکھّا جاےُ تو اس میں انفیکشن کا خطرہ کم ہوتا ھے اور زخم جلدی مندمل ہو جاتا ہے. اسی طرح جاٹ جب تک جیل میں قید رہتا ہے ، لڑایُ جھگڑے سے باز رہتا ہے.
ہر شخص یہ جانتا ہے کہ زخم پر پٹّی نہ باندھی جاےُ تو زخم بگڑ جاتا ہے، اسی طرح جاٹ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بندھا ہؤا ہو تو اسے لڑایُ جھگڑے کا موقع نہیں ملتا اور بندھے رہنے کی جگہ تھانے کی حوالات یا جیل ہوتی ہے. جاٹ کی اسی فطرت کو وارث شاہ نے یوں بیان کیا ہے ؛
رجّے جٹ تے کرے فساد کویُ ، مار سٹیےُ میت ویرایُاں دا
یعنی جاٹ کی فصل اچھّی ہویُ ہو اور وہ تھوڑا سا خوشحال ہو گیا ہوتو وہ کویُ نہ کوٰ فساد برپا کر دیتا ہے، اور کچھ نہیں تو اپنے شریکوں کا کویُ آدمی قتل کر دے گا کہ اس سے گاؤن میں اس کا رعب زیادہ ہو جاےُ گا.

نمبر 10 – جولاہے دیاں مسخریاں ماں بھین نال
گھر سے باہر کسی کے ساتھ، خصوساّ عورت کے ساتھ، ذات کا جولاہا مزاق کرنے کی ہمّت نہیں رکھتا کہ پٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے .وہ اگر کویُ مزاق کرنا چاہے تو اپنی ماں یا بہن سے مذاق کر لیتا ہے، کہ وہ چپ رہیں گی.
یاد رہے کہ ذات کے جولاہے کو بزدل خیال کیا جاتا ہے.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *