پنجابی اکھان . ردیف ” ت ” نمبر 7 – 1

پنجابی اکھان ، ردیف ” ت ” نمبر 7 – 1

 

اب تک ہم ردیف ا سے ردیف پ تک کے پنجابی اکھان پیش کر چکے ہیں. انہی ردیف میں بے شمار پنجابی اکھان اور بھی ہیں جن تک میری رسایُ نہیں ہویُ. ہر شخص کویُ نہ کویُ اکھان جانتا ہے. جس کا اظہار عمومآ کسی بات کے موقع پر ہی ہوتا ہے.
آج سے ہم نیُ ردیف ” ت ” سے شروع ہونے والے پنجابی اکھان شروع کرتے ہیں . اگر آپ پنجابی اکھان ردیف پ نمبر 19-6 پڑھنا چاہتے ہوں تو اس لنک پر کلک کریں.

نمبر 1 – تیلی وی کیتا رکھّا وی کھاہدا

ذات کے تیلی سے شادی کی تھی کہ چلو گھی نہ سہی ، تیلی کے گھر میں تیل تو ہوگا. وہی روٹی پر لگا کر کھا لیا کروں گی. قسمت دیکھےُ تیلی خاوند کے گھر میں تیل بھی نہیں، سوکھی روٹی کھانی پڑ رہی ہے.

نمبر 2 – تیلی کسے دا بیلی نہیں جے بیلی اے تے تیلی نہیں

ذات کا تیلی شخص کسی کا سچّا دوست نہیں ہوتا. وہ اپنا نفع ہی سوچے گا. اگر وہ کسی کا صحیح معنوں میں دوست ہے ، تو پھر وہ ذات کا تیلی نہیں ہوگا.
بعض اقوام اپنے کردار میں اتنا پختہ ہوتی ہیں کہ ان کا کردار ضرب المثل بن جاتا ہے. مثلاّ یہودی کہنے پر ایسا شخص ذہن میں ابھرتا ہے جو سود خور، کنجوس مکھّی چوس ، حیلے باز، اپنے فایُدے کے لیےُ دوسروں کے نقصان کی پرواہ نہ کرنے والا ، اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیےُ جھوٹ بولنے والا، دوستوں کے ساتھ غدّاری کرنے والا ، اپنی بات سے پھر جانے والا اور ایسی ہی دیگر برایُوں کا مالک ہوتا ہے. اگر کسی میں یہ صفات ہوں تو یہ کہنا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ مثل یہودی ہے . اسی جاٹ لڑایُ میں تیزاور کسی حد تک اجڈ اور اکھڑّ ، مراثی نکمّے اور کاہل، محنت نہ کرنے والے ، اور جولاہے بھولے بھالے ہوتے ہیں. اسی طرح ذات کے تیلی افراد کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کسی کے دوست نہیں ہوتے.
اس کہاوت کا حسن اس کا ہم وزن قافیہ اور موزوں وزن ہےاور یہ کہاوت سے زیادہ ایک مکمل اوربامعنی شعر کا تاثّر دیتی ہے.

نمبر 3 – تڑوکڑ گیُ دودھ چوان پھڑڑ گیُ ٹنگاں بھنان

دودھ دینے والی گاےُ یا بھینس تو کھونٹے پر گیُ کہ اس کا دودھ دوھ لیا جاےُ. دودھ نہ دینے والی کو دیکھو یہ اپنی ٹانگیں تڑوانے آیُ ہے.
دودھ دینے والی گاےُ یا بھینس کو پنجابی زبان میں تروکڑ ” اور دودھ نہ دینے والی یا جس کا دودھ خشک ہو چکا ہو اسے ” پھڑڑ ” کہتے ہیں.
یہ کہاوت اس موقع پر کہی جاتی ہے جب کویُ غیر متعلقہ شخص کسی بات یا کام میں شامل ہو جاےُ .

نمبر 4 – تند نہیں، ساری تانی ای وگڑی ہویُ اے

صرف ایک دھاگا ہی خراب نہیں، پورا تانا بانا ہی خراب ہے.
کپڑا بنے جانے تک کیُ مراحل ہوتے ہیں. عورتیں سوت کات کر اسے تقریناّ ڈیڑھ فٹ لمبے گچھّوں کی شکل مین اکٹھّا کر لیتی ہیں. یہ لچھّے کپڑا بننے والے کے حوالے کر دےُ جاتے ہیں. کپڑا بننے والا یا جولاہا ان لچھّوں کو گندم کے میدے کی لیُ میں تر کر کے انہین خشک کر لیتا ہے. اس عمل کو ” پان لگانا” کہتے ہیں. اس عمل سے دھاگا تھوڑا سا اکڑ جاتا ہے اور دوسرے دھاگے کے ساتھ چپکتا نہیں. جولاہا تقریباّ 50 فٹ کا فاصلہ رکھ کر دو کھونٹے گاڑ دیتا ہے. دونوں کھونٹون کے ساتھ علیحدہ علیحدہ دو دو رسیاں باندھ کر انہین 3 فٹ لمبی اور ڈیڑھ انچ موٹے گول ڈنڈے کے ساتھ باندھ دیتا ہے. یہی عمل دوسرے کھونٹے کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے. اب پان لگا ہؤا دھاگا ان ڈنڈوں پر اس طرح لپیٹا جاتا ہے کہ دھاگا ایک ڈنڈے کے اوپر سے گزر کر دوسرے ڈنڈے کے اوپر تک جاتا ہے . وہاں سے موڑ کر ڈنڈے کے نیچے سے گزار کر دوسرے ڈنڈے کے نیچے سے گزار کر اوپر لایا جاتا ہے. اور اوپر ہی اوپر دوسرے ڈنڈے تک جاےُ گا. اس طرح دونوں ڈنڈوں کے اوپر اور نیچے سے دھاگا گزرے گا. درمیان میں ٹوٹ جانے والے دھاگے کو جوڑ لیا جاتا ہے. ہر دھاگہ علیحدہ رکھنے اور اسے سخت کرنے کے لےُ ان میں ایک خاص قسم کا برش پھیرا جاتا ہے جسے ” کچ ” کہتے ہیں. آپ نے پتنگ کی ڈوری بنانے والوں کو ” مانجا ” لگاتے دیکھا ہوگا، یہ عمل بھی ویسا ہی ہے. دھاگہ کو گندم کی لیُ کی پان لگی ہوتی ہے اس لیےُ یہ خشک ہو کر سخت ہو جاتا ہے. دھاگے کو اس شکل میں لایُ ہویُ چیز کو ” تانی” کہتے ہیں.
کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ تانی کا ایک دھاگہ ٹوٹ جاےُ تو اسے جوڑا جا سکتا ہے، اگر تانی کے سارے ہی دھاگے ٹوٹے ہوےُ ہوں تو اس کا کویُ کیا کرے.
یہ کہاوت ایسے موقعوں پر بولی جاتی ہے جب پورے کا پورا گروہ یا خاندان ہی بگڑا ہؤا ہو.

نمبر 5 – توں میرا چھوہر کھڈا میں تیرے دانے چننی آں

تم میرے بچّے کو سنبھالو، اس کے ساتھ کھیلو، میں تمہارے دانے صاف کر دیتی ہوں.
ایک عورت کو بچّے سنبھالنا مشکل لگتا تھا . اس کی پڑوسن گندم کے دانے صاف کر رہی تھی. دانے صاف کرنے میں محنت زیادہ لگتی ہے. مٹّی اور گرد بھی کپڑوں اور منہ پر پڑتی ہے. بچّے والی عورت نے پڑوسن سے کہا ” تم میرا بچّہ سنبھالو، میں تمہارے دانے صاف کر دیتی ہوں ‘
یہ کہاوت ایسے موقعوں پر کہی جاتی ہے جب اپنا صاف ستھرا کام کسی اور کو دے دیا جاےُ اور اس کا محنت طلب اور گندہ کر دینے والا کام اپنے ذمہ لے لیا جاےُ.

نمبر 6 – تینوں تاپ چڑھیا میں ہونگاں

بخار تو تمہیں ہؤا ہے ، لیکن بخار کی تکلیف میں محسوس کر رہا ہوں.
یہ کویُ لیلے مجنوں کہانی معلوم ہوتی ہے . مار تو لیلے کو پڑے ، درد مجنوں محسوس کرے. یہی مفہوم فارسی زبان مین کچھ یوں ہے

من تو شدی، تو من شدی
تا کس نہ گوید بعد ازاں
من دیگرم ، تو دیگرے

نمبر 7 – تیرے لارے منڈے رہ گیےُ کنوارے

تمہارے وعدون پر لڑکے ابھی تک کنوارے پھر رہے ہیں
ایک لڑکی کے کیُ چاہنے والے تھے. لڑکی ہر ایک سے کہتی ” شادی تمہارے ساتھ ہی کروں گی، مگر ابھی نہیں.” کیُ سال گذر گیےُ. وہ سب امیدوار ” اس” کے وعدے پر اعتبار کرتے ہوےُ کنوارے ہی رہے.
مرزا غالب نے تھوڑے سے فرق کے ساتھ اسے یوں بیان کیا ہے
تیرے وعدے پر جیےُ ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *