پنجابی اکھان – ردیف ب ، نمبر 10-1

پنجابی اکھان ردیف ب . نمبر 10-1 –

پنجابی اکھان ردیف الف اپنے اختتام کو پہنچی، ردیف الف سے شروع ہونے والے پنجابی اکھان کی آخری قسط
پنجابی اکھان، ردیف آ، نمبر 54-41 ” پڑھنے کے لیےُ اس لنک پر کلک کریں. آج سے ردیف ” ب ” سے شروع ہونے والے پنجابی اکھان پیش کیےُ جاییُں گے.
ردیف ب سے شروع ہونے والے پنجابی اکھان کی پہلی قسط ملاحظہ فرمایےُ :

نمبر 1 : بابل نونہاں سہیڑیاں           کجھ ٹنڈاں کجھ اڑیڑیاں
میرا باپ بھی کیسی کیسی بہو لایا. کچھ تو رہٹ کی ٹنڈوں کی طرح ہیں اور کچھ اریڑیوں کی طرح ہیں انہیں چلایُں تو چلتی ہیں
کنویُں سے پانی نکالنے کے لیُے کچھ ضروری چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ لگانی پڑھتی ہیں. اس پورے سیٹ اپ کو رہٹ کہتے ہیں. اس میں ایک حصہ جسے ” بیڑ ” کہتے ہیں ، تقریناّ 8 فٹ قطر کا گول پہیہ ہوتا ہے. یہ بیڑ ایک لٹھ کے ذریّعے ایک بڑی سی چرخی جسے ” چکلی ” کہتے ہیں جڑا ہوتا ہے . اس چکلی کےلمبے لمبے دندانے ایک دس ، بارہ فٹ قطر کے گول “ڈھول” میں پھنستے ہیں. اس ڈھول کو بیلوں کے ذریعے گھمایا جاتا ہے.
“بیڑ” پر دو عدد موٹے لمبے رسّے چلتے ہیں جو کویُیں کے اندر پانی کی سطح سے نیچے سع ہو کر اوپر آتے ہیں. ان رسّوں کو ” ماہل ” کہتے ہیں. ماہل کے دونوں رسّوں کے درمیان تقریباّ ایک فٹ کے فاصلے پر آدھ انچ موٹی اور 9 انچ لمبی لکڑیاں متوازی باندھ دیتے ہیں. ایسی ایک لکڑی کو ” اریڑی‌” کہتے ہیں. انہیں باندھنے کے بعد ماہل کی شکل بانس کی سیڑھی جیسی بن جاتی ہے. ماہل گول دایُرے میں ہوتی ہے. اریڑیوں کے ساتھ مٹّی کی بنی ہویُ ڈول کی شکل کی پختہ ” ٹنڈیں ” باندھ دی جاتی ہیں یہ ٹنڈیں ماھل کے ساتھ چلتی ہویُ کنویُں سے پانی بھر کر لاتی ہیں اور اوپر آ کر ناند میں انڈیل دیتی ہیں اور خالی ہو کر کنویُں سے پانی لانے کے لیُے بھر نیچے چلی جاتی ہیں . یہ چکر چلتا رہتا ہے جب تک رہٹ چلتا رہے.
یہ سارا سیٹ اپ مقامی ذرایُع سے بنایا جاتا تھا. ان میں خرابی یہ تھی کہ کبھی ماہل ٹوٹ گیُ، تنڈیں تو اکثر ٹوٹ کر کنویُں کے اندر رہ جاتی تھیں. انہیں مرمت کرنے میں کافی وقت ضایُع ہو جاتا تھا. پھر یہ ساری چیزیں لوہے کی بننے لگیں. آج کل یہ رہٹ ختم ہو گےُ ہیں اور ان کی جگہ ٹیوب ویل نے لے لی ہے.
پرانے طرز کے رہٹ میں تنڈیں اور اریڑیان رہٹ کا لازمی جزو ہؤا کرتی تھیں. اور ان کے بغیر کنویُں سے پانی حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا. مگر اپنے طور پر یہ کنویُں سے پانی نہیں لا سکتی. کنویُں سے پانی لانے کے لےُ رہٹ کو چلانا ضروری ہے.
اس کہاوت کا اصل مدعا یہ ہے کہ میرے باپ نے بہویُں ایسی لایُ پیں جو آزادانہ طورپر کچھ نہیں کرتیں . دوسرے الفاظ میں اپنے طور پر کچھ نہیں کرتیں،. انہیں کچھ کرنے کے لےُ کہنا پڑتا ہے.

نمبر 2 : بادشاہاں نال کہانیان              پرنیا کراڑا
یہ کہانیاں تو تم ہمیں سناتے رہتے ہو کہ حاکم وقت کے ساتھ تمہاری گہری دوستی ہے. کیا ہم نہیں جانتے کہ تم کون ہو ؟ وہی پرنا کھتری ہو نا .
یہ کہاوت کسی شیخی خور کے متعلق کہی گیُ ہے . فارسی زبان کی کہاوت ” پدرم سلطان بود ” اس کے معنی کے قریب قریب ہے.

نمبر 3 : بڈھّی کنجری             تیل دا اجاڑا
طوایُف بوڑھی ہو جاےُ تو اپنے آپ کو جوان نظر آتے رہنے کے لےُ اپنے جسم پر تیل کی مالش کرے گی سر پر تیل لگاےُ گی. اس طرح تیل کا خرچ بڑھ جاےُ گا.

نمبر 4 : باہریں ورہیں چور پھڑیا              اوہ وی جولاہا نکلیا
بڑی مدت کے بعد ایک چور کو پکڑا، قسمت دیکھیُے ، وہ چور زات کا جولاہا تھا
دیہات میں دیسی کپڑا بننے والے کو ” جولاہا ” کہتے ہیں. یہ بڑی بھولی اور ڈرپوک قوم ہوتی ہے. دو دوست ایک گلی سے گزر رہے تھے. ایک گھر سے ایک مرد کے رونے کی آواز آیُ. ایک نے دوسرے دوست سے پوچھا ” یہ رونے والا کون ہو سکتا ھے ؟” دوسرا دوست کہنے لگا ” رونے والا یہ شخص جاٹ نہیں ہو سکتا. اگر جاٹ ہوتا تو زور لگا کر روتا. رونے والا یہ شخص مراثی بھی نہیں. مراثی ہوتا تو سر لگا کر روتا. یہ شخص روتے ہوےُ ڈر ڈر کر آواز نکال رہا ہے ، ضرور جولاہا ہو گا “.
اگر جولاہے چور کو پکڑ لیا جاےُ تو اسے پھینٹی لگانے کی حسرت دل میں ہی رہ جاےُ گی. وہ تو پہلے ہی سب کچھ اگل دے گا.

نمبر 5 : بھکھے دی دھی رجّی            پنڈ اجاڑن لگّی
تنگ دست آدمی کی بیتی کی شادی کے بعد اس کے دن پھرے اور اس کے پاس پیسہ آ گیا. وہ اپنے بچپن کے سارے ارمان نکالنے لگی اور دولت کو اللوں تللوں میں اڑانے لگی.
غربت اپنے اندر بہت سارے عیب رکھتی ہے. دیکھا گیا ہے کہ غریب کے بچے عموماّ اھساس محرومی اور احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں. اگر انہیں کسی وقت دولت مل جاےُ تو یا تو وہ انتیایُ کنجوس بن جاتے ہیں یا اپنی محرومیوں کے ازالہ کے لےُ بے دریغ خرچ کرتے ہیں. اس کہاوت میں اسی دوسرے رویّے کو بیان کیا گیا ہے.

نمبر 6 : بھکھا بٹیرا              چنگا لڑدا اے
بٹیروں کی لڑایُ میں بھوکا بٹیر زیادہ جی داری سے لڑتا ہے. ( اس ضمن میں میرا کویُ تجربہ نہیں ).

نمبر 7 : بھکھے جٹ کٹورا لدّھا         پانی پی پی آپھریا
تنگ دست جاٹ کو راستے میں پڑا ہؤا کٹورا ملا. اس نے اس کٹورے سے پانی پی پی کر اپنا پیٹ پھلا لیا کہ شایُد اس کٹہرے میں دوبارہ پانی پینا نصیب ہو یا نہ ہو
کچھ عرصہ پہلے تک دیہات کے کھاتے پیتے گھرانوں میں پیتل کے بنے ہوےُ لمبے لمبے گلاس ہوتے تھے. مہمانوں کو عموماّ انہی گلاسوںمیں دودھ یا پانی پلایا جاتا تھا. گھر میں استعمال کے لیےُ پیالہ کی شکل کے پیتل کے بنے ہوےُ کٹورے ہؤا کرتے تھے. یہ گلاس اور کٹورے خاصے مہنگے ہوتے تھے. ان پر خوبصورت نقش و نگار بنے ہوتے تھے. عام گھروں میں مٹی کے بنے ہوےُ پیالے ہوتے تھے. ایسے پیالے گاؤں کا کمہار بناتا تھا. اور انہیں آگ میں پکا کر گھروں میں دیتا تھا. اسی قسم کے پیالے میں پانی پینے والے کسی جاٹ کو پیتل کا بنا ہؤا کٹورا ملا. ایسے کٹہرے میں پانی پینا اس کے لیےُ کسی نعمت سے کم نہ تھا چنانچہ وہ کٹورے کو ہانی سے بھرتا اور پی جاتا، اس طرح اس نے اپنا پیٹ پھلا لیا.
پشتو زبان کی ایک کہاوت ، اوپر والی کہاوت کے ہم معنی ہے جس کا اردو زبان میں ترجمہ یوں ہے. ” غریب کو لحاف نہیں ملتا تھا. جب مل گیا تو دوپہر تک اس میں لیٹا رہا “.

نمبر 8: بھرا بھراواں دے       ڈھوڈر کاواں دے
بھایُ تو بھایُوں کے ساتھ ہی رہیں گے دوسروں کی نسبت اپنے بھایُ کو ترجیح دے گا، جیسے ڈھوڈر کووں کے ساتھ ہی بیٹھے گا
کوّا عموماّ دامیانی جسامت کا ہوتا ہے. ایسے کووے بھی دیکھے گیےُ ہیں جن کی جسامت چیل کے برابر ہوتی ہے. ان کا رنگ اور شکل ہوبہو کووں جیسی ہوتی ہے . انہیں ڈھوڈر کہتے ہیں. یہ کووں کے ساتھ ہی دانہ چگتے ہیں.

نمبر 9 : بھیناں ، بھیناں      دوجیاں تین مٹیناں
صرف حقیقی بہنیں ہی بہنوں کا درد محسوس کرتی ہیں دوسری تو ایسے ہی ہوتی ہیں. منہ بولی بہن چاہے پیار کا کتنا ہی دعوےآ کرے ، دکھ کے وقت حقیقی بہنیں ہی سہارا بنتی ہیں.

نمبر 10 : بڈھی مجھ پرانا گڈ      عمر بھر کھاےُ مالک دا ہڈ
(بوڑھی بھینس اور پرانا گڈ، دونوں ہی خرچ زیادہ کراتی ہیں، نفع کم دیتی ہیں )
پرانے زمانے میں سامان ڈھونے کے لیےُ ریہڑے کی شکل کے گڈ ہؤا کرتے تھے جو سارے کے سارے لکڑی کے بنے ہوتے تھے. ان کے پہیےُ بھی بڑے اور موٹی لکڑی کے بنے ہوتے تھے. ان کے آگے دو بیل جوتے جاتے تھے.بھاری سامان کی نقل و حرکت کے لیےُ عموماّ گڈ ہی استعمال ہوتے تھے.
بورھی بھینس دودھ تو دیتی نہیں . اس کے چارے کا خرچ خواہ مخواہ پڑتا ہے.اسی طرح پرانے گڈ کا کبھی پہیّہ ٹوٹ گیا، کبھی کویُ اور خرابی پیدا ہو گیُ. اس طرح اس سے وصول ہونے والی اجرت کے مقابلہ میں اس پر خرچ زیادہ آتا ہے.

جاری ہے


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *