پنجابی اکھان ، ردیف ٹ ، نمبر 2 – 1

پنجابی اکھان ، ردیف ” ٹ ” نمبر 2 – 1

 

پمجابی اکھان کی ردیف ٹ میں صرف دو اکھان ہی ملے ہیں جو یہ ہیں ؛

نمبر 1 – ٹنڈاں، ورھیاں بندھیاں واری لنگھ گیُ

اپنی باری کا وقت تو ٹنڈون کو باندھنے کے لےُ رسّی بٹنے اور پھر ماہل کے ساتھ باندھنے میں ہی ختم ھو گیا.
آج سے چالیس پچاس سال پہلے فصلوں کی آبپاشی کنووں کے ذریعے ہوتی تھی. کنویُں کے کیُ حصہ دار ہوتے تھے. جو اپنی اپنی باری پر کنواں جوتتے تھے. کنویُں سے پانی نکالنے کے لیےُ مٹّی کی پختہ ٹنڈیں ( ڈول ) ہؤا کرتی تھیں . جو ماہل کے ساتھ رسّی کے ذریعے بندھی ہوتی تھیں. یہ رسیاں اکثر ٹوٹ جاتیں اور ٹینڈیں کنویُں میں گر پڑتی تھیں. ان ٹنڈوں کو نکالنے، باندھنے کے لیےُ رسّی باٹنے اور پھر ماہل کے ساتھ باندھنے میں کافی وقت لگتا تھااس طرح اپنی باری کا وقت گزر جاتا تھا اور فصلوں کی آبپاشی اگلی باری پر ھی ممکن ھوتی تھی .
یہ کہاوت ایسے موقعوں پر بولی جاتی ہے جب کسی کام کو کرنے کا وقت کام کرنے کی تیاریوں میں ہی گزر جاےُ.

نمبر 2 . ٹنڈ جیہا کویُ بھانڈا نہیں، جےرڑھے نہ

جٹ جیہا کویُ راٹھ نہیں، جے تھڑے نہ

کمبل جیہہا کویُ کپڑا نہیں، جے جھرے نہ
ٹنڈ (ڈول) جیسا کویُ اور برتن نہیں بشرطیکہ لڑھک نہ جایا کرے.
جاٹ کی مانند کوٰیُ راٹھ ( راجہ) نہیں بشرطیکہ وہ کسی مقام پر غلط بات نہ کہے.
کمبل کا مقابلہ کویُ دوسرا کپڑا نہیں کر سکتا. اگر اس کا تانا بانا خراب نہ ہو.

مٹّی کے گول پختہ برتں ، جس کا پیندا بھی گول ہو ، کو تنڈ کہتے ہیں. اگر آپ یہ چاہیں کہ آپ اپنے سر کے سارے بال استرے سے صاف کرا دیں تو آپ نایُ سے کہیں گے کہ میرے سر کی ٹنڈ کر دو. تنڈ کہلوانے والا برتن بھی ایسا ہی ہوتا ہے. اور وہ سیدھ کھڑا نہیں ہو سکتا ، بلکہ کسی ایک طرف لڑھک جاتا ہے. اس میں صرف یہی خرابی ہے ورنہ آپ اس میں کویُ چیز بھی بھر سکتے ہیں.

جاٹ اپنی ذات میں راجہ کی مانند ہے. جو سب کے کھانے کے لیےُ اجناس مہیّا کرتا ہے ، لیکن وہ بعض موقعوں پر ، دانستہ یا غیر دانستہ، غلط بات کہ سکتا ہے یا کہ دیتا ہے. “تھڑنا” ٹھیٹھ پنجابی زبان کا لفظ ہے ، جس کا مطلب ہے بھول کر دوسری بات کہ دینا یا غلط بات کہ دینا.

کمبل اپنی ہمہ جہت صفات رکھتا ہے. اسے اوڑھ کر سردی سے بچا جا سکتا ہے، تہ کر تکیہ کی جگہ رکھ سکتے ہیں زمین پر بچھا کر اس پر بیٹھ سکتے ہیں اور اپنے کپڑون کو صاف رکھ سکتے ہیں، گھوڑے پر بیٹھنے کے لیےُ اسے تہ کر کے گھوڑے کی پیٹھ پررکھ کر اوپر کاٹھی رکھّی جا سکتی ہے. ان سب کاموں کے لیےُ کمبل کا تانا بانا پھٹا ہؤا نہیں ہونا چاہیےُ. ورنہ اس سے مطلوبہ کام نہیں لیا جا سکے گا.

ردیف ” ٹ ” کے پنجابی اکھان بہت ہی کم ہیں. اس لیےُ ان دو اکھانوں پر ہی گزارہ کریں. مجبوری ہے. اگلی ردیف ” ج‌” میں بے شمار اکھان آ رھے ہیں. انتظار فرمایےُ .

جاری ھے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *