پنجابی اکھان ، ردیف ” ج” نمبر 43 – 31

پنجابی اکھان، ردیف ” ج “، نمبر 43 – 31

 

ُنجابی اکھان صوبہ پنجاب کی دیہاتی زندگی کے ترجمان ہیں. ایک پنجابی اکھان پوری کہانی کو محض چند الفاظ مین بیان کر کے گفتگو کوایک حسین رنگ دے دیتا ہے. اسی لیےُ ان اکھان کی بڑی اہمیت ہے. پنجابی اکھان عمومآ بڑی عمر کے لوگوں کو زبانی یاد ہوتے ہیں. اور وہ اگفتگو کے دوران مناسب موقع محل پر کویُ ایسا پنجابی اکھان کہہ دیں گے جو پوری گفتگو کا نچوڑ ہوگا.
.

ہم  پنجابی اکھان ردیف ج، نمبر 30-21 تک پڑھ چکے ہیں. اب ہم نمبر 31 سے شروع کرتے ہیں .

نمبر 31 جیہڑا بولے             اوہو کنڈا کھولے
گھر کا دروازہ کھٹکھتاےُ جانے پر گھر میں جو پوچھے گا ” کون ہے” ، وہی جا کرگھر کے دروازہ کی کینڈی کھولے گا.

نمبر 32 جھکّڑ ، چنّر ، کانجوں ، نون، تتیرا
رانے شیطان دے پنجے بجھ بھرا
مندرجہ بالا پانچوں ذاتوں کے آدمی، جو اپنے نام کے ساتھ “رانا” لگاتے ہیں ، شیطان کے بھایُ ہیں.
ضلع ملتان کی تحصیل لودھراں کا ایک زراعت پیشہ قبیلہ “چنّر ” ہے، جس کے آدمی اپنے نام کے ساتھ ” رانا ” لگاتے ہیں. اس کہاوت میں چنّر کے ساتھ جھکّر، کانجون، نون اور تتیرا قباٰپل کے آدمیوں کو بھی شیطان کا بھایُ کہا گیا ہے. یہ سب قبایُل اپنے نام کے ساتھ “رانا” لگاتے ہیں.
“نون” قبیلہ کے لوگ ضلع سرگودھا میں کافی مشہور ہیں، لیکن یہ اپنے نام کے ساتھ ” رانا ” نہیں لگاتے، بلکہ “ملک” کہلاتے ہیں. اس قبیلہ کا مشہور آدمی ملک فیروز خاں نون گزرا ہے.
معذرت — یہ کہاوت لکھنے سے کسی کی دل آزاری مطلوب نہیں. اور نہ ہی کسی کے متعلق اپنی طرف سے کچھ گھڑ کر لکھنے کا ارادہ ہے. اگر کسی کی دل آزاری ہویُ ہو معزرت خواہ ہیں.

نمبر33- جیہڑا کھبیا ہووے            ٹل اوہدا ای لگدا اے
مٹّی کے کیچڑ میں دھنسنے والا شخص ہی جانتا ہے کہ اس کیچڑ سے نکلنے کے لیےُ اس کا کتنا زور لگ رہا ہے.
چکنی مٹّی کا کیچڑ لیُ کی مانند ہوتا ہے. جو جسم کے ساتھ چپک جاتی ہے. ایسی مٹّی کے کیچڑ مین پھنسے ہوےُ شخص کو باہر نکلنے کے لیےُ بہت زور لگانا پڑتا ہے. اور اس میں پھنسا ہؤا شخص ہی جان سکتا ھے کہ اس کا کتنا زور لگ رہا ہے. دوسرا شخص اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا.
اردو زبان کا محاورہ ” جس تن لاگے، سویُ تن جانے ” اس کہاو کا قریب قریب مفہوم ادا کرتا ہے.

نمبر 34 – جس لایا گلّیں            میں اوسے نال چلّی
جس کسی نے باتوں میں لگایا، اسی کے ساتھ چل دی.

نمبر 35 – جو کرے گھیو           نہ کرے ماں نہ کرے پیو
خالص دیسی گھی انسانی جسم کو توانا اور سڈول بناتا ہے . یہ کام نہ تو ماں کر سکتی ہے اور نہ ہی باپ.
پہلے وقتوں مین لوگ گھر کا خالص دیسی گھی کھایا کرتے تھے، اسی وجہ سے بڑھاپے میں بھی ان کی کاٹھی مضبوط اور صحت مند رہتے تھے. مایُں اپنے بچّوں کو گھر کے مکھن اور گھی میں روٹی تل کر دیتی تھیں. ان بچّوں کی صحت قابل رشک ہوتی تھی.

نمبر36 – جیہڑا چویا اے             اوہ تھناں نال لگ گیا اے
بھینس کا دودھ جس قدر دوہا تھا وہ بھینس کے تھنون پر لگ گیا ہے، ہمارے پلّے کچھ نہیں پڑا.
کسی کام میں فایُدہ نہ ہو بلکہ جو کچھ کمایا جاےُ وہ اسی کام میں لگ جاےُ، تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.

نمبر 37 – جد تک بچّہ نہ رووے              ماں وی دودھ نہیں دیندی
ماں اپنے بچّے کو دودھ بھی اس وقت تک نہیں پلاتی جب تک بچّہ رونا نہ شروع کر دے.
ایک ماں کو اہنے بچّے سے بڑھ کر کویُ چیز پیاری نہیں ہوتی. یہ پیارا بچّہ جب تک سوتا رہے یا کھیلتا رہے، ماں اسے دودھ نہیں پلاتی. دودھ اس وقت پلاےُ گی جب وہ رونا شروع کر دے گا.
گویا بن مانگے کویُ چیز نہیں ملتی.

نمبر 38 – جیہڑا وی لوں پٹیےُ            اوہدی ای پیڑ ہوندی اے
جسم کا کویُ بھی بال اکھیڑیں ، وہاں درد تو ہوگا.
انسانی جسم کے بالوں کو پنجابی زبان میں وال یا لوں کہتے ہیں. پنجابی زبان کا محاورہ ہے ” لوں کنڈی آؤنا ” ، یعنی خوف، دہشت، غم کی شدّت ہا تکلیف کی وجہ سے جسم کے بال کھڑے ہو جانا. اولاد یا قریبی رشتہ داروں میں کسی کو تکلیف ہو تو نزدیکی رشتہ دار اس تکلیف کومحسوس کرتے ہیں. ایسے ہی موقعوں پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے.

نمبر 39 – جتنا گڑ پایُے            اتنا ہی مٹھّا ہوندا اے
آپ چاےُ، شربت یا حلوہ میں جس قدر زیادہ گڑ ڈالیں گے، وہ چیز اتنی ہی زیادہ میٹھی ہو گی.
یہ کہاوت غالباّ اس زمانے کی ہے جب چینی دستیاب نہیں تھی ،یا عام آدمی کی دسترس سے باہر تھی. لوگ میٹھی چیز بنابے کے لےُ عموماّ گڑ استعمال کرتے تھے. اور وہ چیز لذیذ بھی ہؤا کرتی تھی. اس کی وجہ غالباّ یہ تھی کہ گڑ بناتے وقت گڑ کو سفید کرنے کے لیےُ اس میں کیمیکل نہیں ڈالتے تھے. گڑ کا مزہ سو فی صد خالص ہوتا تھا.

نمبر 40 – جنّا لچّا                 اتنا اچّا
جتنا بڑا لچّا ( بدمعاش ٹایُپ ) ہو گا ، اس کا نام اتنا ہی مشہور ہو گا . (چاہے یہ شہرت بری ہو ).
لفظ “لچّا” کے کیُ معنی ہیں، بدمعاش، بدکردار، دوسروں کی عزّت نہ کرنے والا، عورتوں کو تاڑنے والا وغیرہ. لچّے آدمی کی شہرت اس کے برے کردار کی وجہ سے ہوگی.
اردو زبان کا محاورہ ” بد نام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا” اس کہاوت کا صحیح ترجمہ ہوگا.

نمبر 41 – جیہا منہ               تیہی چپیڑ
تھپڑ مارنے سے پہلے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ تھپڑ کھانے والے کا منہ کتنے زور کا تھپڑ سہہ سکتا ہے. یہ نہ ہو کہ کمزور منہ والے کو زور سے تھپڑ مارا جاےُ تو وہ بیچارا یا بیچاری اسے سہہ نہ سکے

اردو زبان کا محاورہ “حصّہ بقدر” جثّہ” اس کہاوت کے مفہوم کے قریب قریب ہے.

نمبر 42- جیٹھ ہاڑھ کچھاں            ساون بھادوں رکھّاں
جیٹھ اور ہاڑھ کے مہینوں میں مکانوں کے سب سے پچھلے کمروں میں گرمی کم ہوتی ہے. دوپہر کو وہاں آرام سے سویا جا سکتا ہے. ساون اور بھادوں کے مہینوں میں کمروں میں حبس ہو جاتا ہے. دوپہر کو سونے کے لئیے درختوں کے سائے میں آرام سے سو سکتے ہیں.
پہلے دنوں میں دیہات میں عموماً مکان کچّی مٹی کے بنے ہوتے ہیں. جن کی دیواریں 2 فٹ سے 3 فٹ تک موٹی ہوتی تھیں. ایسے مکان گرمیوں میں ٹھنڈے ہوتے تھے. ساون بھادوں کے مہینوں میںً وہاں ہوا کی آمدورفت کا خاص انتظام نہیں ہوتا تھا. اس لیئے وہاں حبس ہو جاتا تھا. لوگ دوپہر کو آرام کرنے کہ لیئے چارپایاں نزدیکی کنوؤں پر لے جاتے تھے. وہاں درختوں کی بہتات ہوتی تھی. اور ہوا کا گزر بھی ہوتا تھا.

نمبر 43- جنگھ تے بھج گئ اے           پر دل دی کُھت کُھتی تے نکل گئ اے
اس تجربے میں میری ٹانگ تو ٹوٹ گئ ہے لیکن دل میں جو الجھن تھی وہ دور ہو گئ ہے. ضلع جہلم کہ کسی گاؤں میں ایک آدمی درخت کے نیچے لیٹا ہوا تھا. دوسرے درخت کے ساتھ تین چار بھینسیں بندھی ہوئ تھیں. ایک بھینس کے سینگھ بڑے “کُڈھے بیڑ” یعنی سپرنگ کی شکل کے تھے. آدمی کے زہن میں خیال آیا کہ اگر اپنی ٹانگ بھینس کے سینگھوں میں پھنسائ جاےُ تو کیا ہو گا. وہ اس خیال سے اتنا مجبور ہوا کہ وہ اٹھا اور بیٹھی ہوئ بھینس کے سینگھوں میں اپنی ٹانگ گھسیڑ دی. بھینس کے لیے یہ ایک انہونی سی بات تھی کہ کسی آدمی کی ٹانگ اس کے سینگھوں میں آ پھنسی ہے. اس نے اپنے سر کو تین چار بار زور سے ہلایا. آدمی کی ٹانگ نے نکلنا تو نہیں تھا البتہ وہ ٹوٹ گئ. وہ درد سے چلانے لگا. لوگ آےُ اور یس کی ٹانگ کو بھینس کے سینگھ سے نکالا. لوگوں نے پوچھا تمہاری ٹانگ بھینس کے سینگھوں میں کیسے جا پھنسی. اس نے سارا قصہ سنایا کہ اس کے دل میں کیا سوچ آئ اور اس نے کیا کیا. کہنے لگا ” ٹانگ ٹوٹ گئ ہے کوئ بات نہیں، دل کی الجھن تو دور ہو گئ ”
پوٹھوہار کے علاقے میں ٹانگ کو جنگھ کہتے ہیں.
یہ کہاوت ایسے موقعوں پر کہی جاتی ہے جب کوئ شخص ایسا کام کرے جس کا اسے تجربہ نہ ہو اور اس میں بہت سارا پیسا لگا دے اور اسے اس میں نقصان برداشت کرنا پڑے.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *