ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ Where are we going

Where are we going. We should replace moon's direction.

ہم کدھر جا رہے ہیں ؟
Where are we going ?

ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ یہ سوال ہر اُس شخص کے ذہن میں کلبلا رہا ہے ، جو اپنے وطن کا خیر خواہ ہے. جسے اپنے وطن سے محبت ہے اور جو اپنے وطن کو صحیح سمت میں ترقی کرتا ہُؤا دیکھنا چاہتا ہے. بد قسمتی سے اپنے ملک کی بیشتر آبادی اُن افراد پر مشتمل ہے ، جو قیام پاکستان کے بہت بعد پیدا ہُوےُ. یہ پود اُن قربانیوں سے کما حقہ واقف نہیں جو مسلمانوں نے قیام پاکستان سے پہلے دیں، اور اعلان آزادی کے بعد دیں. ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے لاکھوں مرد، عورتوں اور بچوں کو راستے میں ہی شہہید کر دیا گیا. جو لُٹے پُٹے مرد اور خواتین پاکستان پہنچے ، انہیں بسانے اور نییُ زندگی کا آغاز کرنے کا مرحلہ بڑا مشکل تھا. ان سب تکالیف کا ادراک نییُ پود کو نہیں

عنوانات

دُنیا کی سب سے بڑی ہجرت

ہم ٹیکس دینا بوجھ سمجھتے ہیں
ہم کدھر جا رہے ہیں ؟
اشتہارات
موبایُل فون کا غلط استعمال
شیطان کے چیلے
پاکستان کا قومی پرچم
کرنے کا ایک کام

دُنیا کی سب سے بڑی ہجرت

دنیا کو فتح کرنے کی خواہش تو ابتداےُ آفرینش سے ہی بعض حکمرانوں کے دلوں میں رہی ہے ، ہلاکو خاں اور سکندر کی مثالیں تو تقریبآ سبھی لوگ جانتے ہیں. لیکن ان کے ادوار میں بھی اتنی بڑی ہجرتوں کا سراغ نہیں ملتا. اللہ کے آخری رسوُل جناب محمد صل اللہ علیہ و سلم اور اُن کے صحابہ کرام نے بھی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی. لیکن قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی. بنگال کے قریب رہنے والے مسلمان بنگا ل کی طرف ہجرت کر گیےُ. بعض مسلمان گھرانوں نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا. اور اب ان پر جو بیت رہی ہے، وہ پچھتا رہے ہیں کہ ہم نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی طرف ہجرت کیوں نہ کی

ہندو کبھی بھی مسلمانوں کے دوست یا ہمدرد نہیں رہے. ہندو گاےُ کو اپنے خدا کا درجہ دیتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں. مسلمان گاےُ کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتے ہیں. ہندوؤں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہُویُ ہے کہ مسلمان اُن کے خُدا کا گوشت کھاتے ہیں. اسی بات کی بنا پر ہر ہندو مسلمانوں کے خلاف دل میں نفرت رکھتا ہے. آج کل ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات روز مرہ کا معمول ہیں، جس میں مسلمانوں کو شہید کرنا اور ان کے مکانوں کو آگ لگانا کار ثواب سمجھا جاتا ہے. مسلمانوں کے لیےُ مشکل یہ ہے کہ ہندو حکومت انہیں کسی مسلم ملک میں ہجرت کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتی. ہندوستان کے مسلمانوں کو کسی مسلمان ملک میں ہجرت کر جانے کا مسُلہ اقوام متحدہ میں اُٹھایا جاےُ تو شاید کویُ راستہ نکل آےُ.

ہم ٹیکس دینا بوجھ سمجھتے ہیں.

قیام پاکستان سے پہلے تک مسلمانوں کے ہر جلسہ اور جلوس میں ایک ہی نعرہ گُونجتا تھا. ” پاکستان کا مطلب کیا —- لا الہ الل اللہ ” . جب پاکستان بنا ، اُس وقت میں 13 سال کا تھا. مجھے لوگوں کا جوش و خروش آج تک یاد ہے. ًمہاجرین کی آمد ، مقامی عوام کی مہاجرین کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ابھی تک میرے ذہن میں تازہ ہے. مہاجرین نے ہندوؤں کے چھوڑے ہُوےُ مکانات میں رہنا شروع کر دیا. اس طرح ان کے سر چھپانے کا مسُلہ حل ہو گیا. گاؤں کے کھاتے پیتے گھرانوں نے مہاجرین کو وقت پر کھانا دینے کا ذمہ لے لیا. آہستہ آہستہ مہاجرین نے محنت مزدوری کر کے اپنا کھانا خود پکانا شروع کر دیا. پھر مہاجرین کو کلیم میں زرعی زمینیں الاٹ ہو گییُں، اور وہ ان زمینوں پر کاشت کاری کرنے لگے. وہ زمانہ ایک دوسرے کا دُکھ بانٹنے کا تھا. آج کل جیسا نفسا نفسی کا زمانہ نہیں تھا. قایُد اعظم کی وفات کے بعد اقتدار کی جنگ چھڑ گییُ. لوگ عہدوں کے پیچھے اپنا ایمان بیچنے لگے. کسی وزیر اعظم کو ٹک کر کام کرنے نہیں دیا گیا. اس وقت انڈیا کا وزیر اعظم کہتا تھا کہ میں اتنی جلدی اپنی دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان کا وزیر اعظم بدل جاتا ہے. عوام روز روز کی تبدیلیوں سے مایوس ہونے لگے، اور یہ مایوسی آج تک اپنے پنجے گاڑے ہُوےُ پے. ملک پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے، جو ادل بدل کر آتے ہیں. ان خاندانوں میں ایسے خاندان بھی ہیں جو اکیلے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں. یہی لوگ ہمیشہ اسمبلیوں میں آتے ہیں. اور ملک کے لیےُ قانون بناتے ہیں. اپنا ملک 77 سالوں کا ہو چکا ہے. آج تک زرعی پیداوار پر تیکس نہیں لگ سکا. وجہ ؟ اپنی زمینوں سے آمدنی پر تیکس کون لگاتا ہے ؟. زرعی زمینوں کے مالک اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں. اپنی خوشی سے ٹیکس کون دیتا ہے

ہم کدھر جا رہے ہیں ؟

قیام پاکستان کے بعد مجموعی طور پر عوام اچھے عادات و اطوار کے مالک تھے. اس سے پہلے تجارت پر غیر مسلمانوں کی اجارہ داری تھی. جو زیادہ تر ہندو ہوتے تھے . قیام پاکستان کے وقت اور بعد میں تجارت پیشہ لوگ ( ہندو) ہندوستان چلے گیےُ. جس سے تجارتی ماحول میں ایک خلا پیدا ہو گیا. جسے آہستہ آہستہ مسلمانوں نے پُر کرنا شروع کر دیا. جس سے ان دکانداروں کی زہنیت بھی بدل گیُ. وہ ہر کام میں ” نفع ” کو مقدم رکھتے. اور اس طرح ان میں ہمدردی کم اور لالچ کا عُنصر زیادہ ہو گیا. یا صحیح الفاظ میں ان کی زہنیت میں زر پرستی داخل ہو گییُ، اور ایک دوسرے سے ہمدردی غاٰ یُب ہونے لگی. آج کل یہ رُجحان کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے. لوگ پیسہ کمانے کے چکر میں جایُز اور نا جایُز کو نہیں دیکھتے. بس پیسہ آنا چاہییےُ. اس کے لیےُ لوگوں نے کیُ جال بچھا رکھے ہیں. جو کچھ اس طرح کے ہیں :

نمبر 1 ؛ سٹیج ڈرامے

ان سٹیج ڈراموں میں اداکار انتہایُ ذو معنی الفا ظ ادا کرتے ہیں. جن میں مزاح کا عُنصر پایا  .جاتا ہے. تماشایُ ایسے الفاظ پردل کھول کر ہنستے ہیں.یعنی ” جیسے ذبح کرنے والے، ایسے ہی کھانے والے. “اس کے علاوہ ستیج پر بڑے ہی بےہُودہ اور فُحش ڈانس دیکھنے کو ملتے ہیں. یہ سارا سیٹ اپ ہی اخلاق بگاڑنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے.

نمبر 2 ؛ پنجابی فلمیں

ایک زمانہ تھا، پنجابی فلموں میں گانے ضرور ہوتے تھے ، لیکن گانوں میں لچّر پن نہیں تھا.، جیسے آج کل کی پنجابی فلموں میں دکھایا جا رہا ہے. کویُ بھی خود دار آدمی آج کل کی پنجابی فلموں کو اپنی فیملی کے ہمراہ دیکھنا پسند نہیں کرتا. فلموں کی کہانی کو اپنے معاشرہ کی عکاسی کرنی چاہیےُ. لیکن آج کل کی پنجابی فلمیں کسی اور ہی معاشرہ کو پیش کرتی ہیں، آج کل کی فلموں میں جو لباس صنف نازک کو فلموں میں پہنے ہُوےُ دکھایا جاتا ہے ، یہ لباس پہن کر اگر کویُ لڑکی یا عورت بازار میں آ جاےُ، تو اس کے لباس کے متعلق عوام کے تبصرے سُن کر شرم سے ڈوب مرنے کو چاہے گی. فلمیں بنانے والوں نے پیسہ بٹورنے کے لیےُ عورت کو تماشہ بنا دیا ہے. فلمساز اس طرح کی فلموں سے جو پیسہ اکٹھا کرتا ہے ، اس کے بارے میں کسی صحیح عالم دین سے یہ ضرور پوچھے کہ آخرت میں یہ پیسہ اسے کتنا آرام دے گا

ٹیلی ویژن

آج کل ٹیلی ویژن اشتہار بازی کا سب سے بڑا مقبول ذریعہ ہے. ٹی وی پر دکھاےُ جانے والے ہر اشتہار میں مخلوط ڈانس ضرورت بن گیا ہے. ان اشتہارات میں خیر سے بڑی عمر کی امّاں جان بھی تھرکتی نظر آتی ہیں. یہ زمانہ بھی دیکھنا تھا. موجودہ ٹیلی ویژن نیُ پود کے ذہنوں میں اسلامی اقدار کو مٹا کر مغربی مادر پدر آزاد معاشرہ کی طرف لے جا رہا ہے، جسے یہ ترقی کا خوبصورت نام دے کر ذہنوں کو اُلجھا رہا ہے. حکومت کو چاہیےُ کہ وہ ایسے اداروں کو نکیل ڈالے ، ان کے لیےُ ایک ضابطہ اخلاق بناےُ، جس میں مستورات کے لیےُ مہذب لباس  لازمی قرار دیا جاےُ. موجودہ ٹیلی ویژن نے عورت کے سر سے دوپٹہ اُتار پھینکنے میں بڑی محنت کی ہے. آپ کویُ بھی ٹی وی چینل دیکھ لیں، یُوں محسوس ہوتا ہے کہ ان ٹی وی چینلز کے پاس مردانہ سٹاف کی کمی ہے ، خبریں عورتیں پڑھتی ہیں، 90 فی صد پروگراموں کی میزبان عورتیں ہوتی ہیں، کسی میزبان عورت کے سر پر دوپٹہ نہیں ہوتا. صوبہ پنجاب کی حکومت میں تمام وزرا عورتوں کے سر پر دوپٹہ ہوتا ہے. ان کے لباس بھی شریفانہ ہوتے ہیں، یہ پاکستانی عورتوں کے لیےُ ایک مثال ہے ،کہ ایک مسلمان عورت اپنے لباس میں مغربی تہذیب کی تقلید نہیں کرتی. مغربی تہذیب کے بارے میں اپنے قومی شاعر اقبال نے کیا خُوب کہا تھا ؛

تمہاری تہذیب خود اپنے ہی خنجر سے خودکشی کرے گی
شاخ  نازک پہ جو بنے  گا  آشیانہ  نا پایُدار  ہوگاا

اشتہارات

ٹاجر لوگ اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیےُ اشتہارات کا سہارا لیتے ہیں. عوام ان اشتہارات کو دیکھ کر مختلف مصنوعات کو خریدتے ہیں. اس طرح اشتہارات کسی چیز کی فروخت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. اشتہاری کمپنیاں اشتہارات کو پُر کشش اور دیدہ زیب بنانے کے لیےُ کیُ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں. ان ہتھکنڈوں میں اشتہارات میں عورت کو مختلف انداز میں دکھایا جاتا ہے. آج کل ” صاف چھُپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں ” والا معاملہ چل رہا ہے.آج کل عورت کی تذلیل جس طرح اشتہارات کے ذریعے کی جا رہی ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گییُی . اشتہاری کمپنیاں اشتہارات کو مٍغربی تہذیب کی طرز پر لیےُ جا رہے ہیں. ٹی وی پر دکھاےُ جانے والے اشتہارات میں ماڈل لڑکیاں دوپٹہ سے بے نیاز اپنے سینے کی نمایُش کرتی نظر آتی ہیں. اس قسم کے اشتہارات نوجوانوں میں بے راہ روی کے رجحانات کو اُبھار رہے ہیں، بے راہ روی کے واقعات اخبارات میں روزانہ رپورٹ ہو رہے ہیں. ایسے واقعات کی روک تھام کے لیےُ مُجرم کو صرف سزا کے طور پر قید یا صرف جُرمانے کی سزا کافی نہیں. ہمیں اُس نالی کو بند کرنا چاہیےُ جہاں سے اس بدی کا اخراج ہو رہا ہے.

موبایُل فون کا غلط استعمال

موبایُل فون کے جہاں فایُدے ہیں، وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں. آج کل انٹر نیٹ کا زمانہ ہے. موبایُل فون کے ذریعے ہم دُنیا بھر میں جس جگہ چاہیں بات چیت کر سکتے ہیں. ہمارے ارد گرد دُنیا میں  جہاں اچھے لوگ ہیں وہیں پر شیطان کے چیلے بھی کافی تعداد میں موجود ہیں. یہ لوگ انٹر نیٹ کے ذریعے ندی کے کاموں کو بھی پھیلا رہے ہیں. فُحش فلموں کو انٹر نیٹ پر چلانا ایسا ہی ایک کام ہے . جو پُوری دُنیا میں پھیلا ہُؤا ہے. اُن کی نظروں میں یہ ایک کاروبار ہے. جس سے کافی دولت کمایُ جا سکتی ہے. موبایٌل فون نے ایسی جگہوں تک رسایُ ممکن بنا دی ہے .اپنے ملک کی نوجوان پود موبایُل فون پر یہ فُحش فلمیں دیکھتے ہیں ، اور پھر عملی قدم اُٹھا کر اس دلدل میں پھنس جاتے ہیں. مسُلہ یہ ہے کہ حکومت ایسے فُحش چینل بند کس طرح کرے ! ان میں بعض چینل معلوماتی بھی ہیں. جن سے طلباُ فایُدہ اُٹھاتے ہیں. کاروباری حضرات بھی انہیں استعمال کرتے ہیں.

ان فُحش چینلز کو بلاک کرنے کا ایک طریقہ شاید کام کر جاےُ. پچھلے دنوں پی ٹی اے نے غلط خبروں اور پراپوگنڈا کو بلاک کرنے کے لیےُ  فایُر والو قسم کے کچھ آلات لگاےُ تھے ، جو کافی کار آمد ثابت ہُوےُ. کچھ اس قسم کے انتضامات ان فُحش چینلز کو بلاک کرنے لیےُ بھی کیےُ جا سکتے ہیں. کوشش کرنے سے ان فُحش چھینلز کو بلاک کیا جا سکتا ہے. اگر ایسا ہو جاےُ تو انسانیّت کی بہت بڑی خدمت ہو گی.

شیطان کے چیلے

ایسا لگتا ہے کہ شیطان ملعون نے اپنے سارے چیلے ہمارے ملک میں بھیج دیےُ ہیں. آپ کویُ بھی اخبار پڑھ لیں . ہر اخبار میں شیطانی کاموں کے بے شمار واقعات پڑھنے کو ملیں گے. سب سے زیادہ ہولناک ان چھوٹی بچیوں کی خبریں ہوتی ہیں، جنہیں درندگی کا نشانہ بنایا گیا ہو. بات یہیں تک نہیں رہتی، بلکہ پکڑے جانے کے خوف سے شیطان کے پُجاری انہیں گلہ گھونٹ کر مار دیتے ہیں. ایسے درندے یقینآ اپنی زندگی میں ہی اپنی سزا پاییُں گے، اور آخرت میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوگا اس کا تصور ہی رُونگٹے کھڑے کر دیتا ہے. ایسے مجرم کو پھانسی کی سزا ملنی چاہیےُ. ایسے مجرم کی لاش کو کسی چوراہے میں سات دن تک لٹکا رہنا چاہیےُ.

پاکستان کا قومی پرچم

پاکستان کا قومی پرچم کیسا ہو ؟ اس پر اپنے ملک کی پہلی قومی اسمبلی میں بحث ہوُیُ. سب ممبران نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کا قومی پرچم کا رنگ سبز ہو گا ، جس کے باییُں طرف سفید رنگ کی پٹی ہوگی، جو پرچم میں اقلیتوں کی نمایُندگی ظاہر کرے گی. پرچم کے سبز رنگ کے حصہ میں چاند اور ستارہ ہوگا. چاند کی دونوں نوکیں باییُں طرف ہوں گی ، چاند کی یہ کیفیت چاند کی پہلی تاریخ سے لے کر چودھیں یا پندھرویں تک ہوتی ہے، ان دنوں میں چاند عروج کی طرف جا رہا ہوتا ہے . یعنی چاند ہلال سے بڑھتا ہُؤا مکمل چاند تک ( بدر تک ) پہنچتا ہے. قومی اسمبلی ممبران نے اس بات پر خصوصآ توجہ دی کہ پرچم میں چاند کو مکمل ہونے کی طرف بڑھتا ہُؤا دکھایا جاےُ. مرکزی یا کسی صوبایُ ھکومتوں کے لیٹر ہیڈ پر چاند کی نوک باییُں طرف ہیں اور بیچ میں ستارہ ہوتا ہے.

اب آپ ذرا ہر جگہ لہرانے والے قومی پرچم کو دیکھیں. اس میں چاند کی دونوں نوکیں داییُں طرف ہیں، چاند جب گھٹنا شروع ہوتا ہے تو اس کی دونوں نوکیں داییُں طرف ہوتی ہیں. یہ اس کے زوال کی نشانی ہے. پاکستان کے قومی پرچم پر چاند کی پوزیشن یہ ظاہر کرتی ہے کہ گویا ( نعوذ باللہ ) جس ملک کا یہ پرچم ہے ، وہ زوال کی طرف جا رہا ہے.

میں نے 23 جولایُ 2020 کو ایک آرٹیکل “ میری آواز سُنو- لا علمی یا جہالت ” اسی ویب سایُٹ پر پبلش کیا تھا ، جس میں تصاویر کے ساتھ یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان کے قومی پرچم میں چاند کو رو بہ زوال دکھایا جا رہا ہے. اس سے ذہن میں یہ تصور اُبھرتا ہے کہ ہم لا علمی میں یا جہالت میں دُنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس ملک کا یہ پرچم ہے ، وہ زوال کی طرف جا رہا ہے . ہو سکتا ہے کہ میری یہ تاویل صحیح نہ ہو. لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے اپنے ملک کی نمایُندگی کرنے والا زوال پذیر چاند ہم پر اپنا بُرا اثر ڈال رہا ہے.

ہم نے بہت عرصہ زوال پذیر چاند کو اپنا قومی نشان بنا رکھا ہے. اب ذرا اس کی سمت کو بدل کر دیکھنا چاہیےُ. یعنی اپنے قومی پرچم میں چاند کی دونوں نوک بایُیں طرف ہوں، جس سے یہ تاثر اُبھرے کہ چاند عروج کی طرف جا رہا ہے.

کرنے کا ایک کام

 آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ ملک میں عُریانی بڑھ رہی ہے. صنف نازک نے حیا کے محافظ، اللہ کے حُکم ، سر اور سینے کو چادر یا دوپٹہ سے ڈھانکے رکھنے کو ، محدود تعداد کو چھوڑ کر، رد کر کے اللہ کی نافرمانی کی ہے. ٹی وی پر عورتیں اپنے سینے کی نمایُش کر رہی ہیں، استغفراللہ، اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے.

اللہ تعالے سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی ہدایت اور توفیق عطا فرماےُ، آمین، ثم آمین.

Leave a Reply