ہمارے سُلگتے مسایُل # 18 – سیلاب -Our burning Issues # 18 – Floods

Floods- Our burning Issues # 18

ہمارے سُلگتے مسایُل # 18- سیلاب
Our burning Issues # 18 – Floods

سیلاب ٍ
Floods.

گو کہ ہم خود سیلاب نہیں لا سکتے، اور نہ ہم میں یہ طاقت ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جہاں چاہیں ، سیلاب لے آیُیں، لیکن پچھلے تین چار سال سے ملک میں بارشوں کی کثرت سے سیلانوں کی تباہ کاریوں میں بہت اضافہ ہُؤا ہے. بعض علاقوں سے پچھلے سال آنے والے سیلابوں کا پانی ابھی تک خُشک نہیں ہُؤا، کہ اس سال سیلابوں نے مزید تباہی مچا دی . سیلابوں کا زیادہ تر زور صوبہ بلوچستان اور سندھ میں ہوتا ہے ، صوبہ سندھ اس لیےُ زیادہ  متاثر ہوتا ہے کہ بارشوں اور سیلابوں کا بہاؤ صوبہ سندھ سے گزرتا ہُؤا سمندر میں جا گرتا ہے.

.عنوانات

سیلاب کیوں آتے ہیں ؟
سیلابوں سے تباہی.
سیلابوں سے بچاؤ

سیلاب کیوں آتے ہیں ؟

اپنے ملک میں برسات کا موسم عمومآ 15 جون سے لے کر 15 اگست تک ہوتا ہے. لیکن پچھلے چند سالوں سے ان تاریخوں میں تبدیلی آ چُکی ہے. آج سے 6 یا 7 سال پہلے تک اتنی زیادہ بارشیں نہیں ہوتی تھیں. اب کچھ موسمی تغیرات کی وجہ سے پہلے کی نسبت بارشیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں. ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ صحیح وجوہات تو سایُنس دان یا محکمہ موسمیات کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں. ہمیں تو اتنا پتہ ہے کہ اپنے ملک کی آب و ہوا پچھلے سالوں کی بہ نسبت بہت گرم ہو چکی ہے. پچھلے سالوں کی بہ نسبت بارشیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں، اور اسی وجہ سے سیلابوں کی تُندی اور تباہی بھی بڑھ چُکی ہے. اب یہ تبدیلیاں انسانی بس میں نہیں. آج سے پچیس تیس سال پہلے سعودی عرب میں شازو نازر ہی بارش ہوتی تھی. آج کل وہاں کییُ علاقوں میں برف باری ہُوتی ہے. یہ سب کچھ اُس قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے جو سب جہانوں کا خالق ہے.

بعض پڑھے لکھے لوگ ان تبدیلیوں کی وجہ یہ بتاتے ہیں ، کہ ہماری زمین بہت آہستگی سے اپنی بایُیں طرف سرک رہی ہے. زمین کی یہ حرکت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زمین کا موجودہ شمالی قطب ہزاروں سال بعد جنوبی قطب بن جاےُ گا اور موجودہ جنوبی قطب شمالی قطب بن جاےُ گا. سایُنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ زمین کی اس تبدیلی میں 10 ہزار سال کا عوصہ لگتا ہے.

اندازہ لگایا گیا ہے کہ موجودہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی شاید زمین کی اسی حرکت کی وجہ سے وقوع پزیر ہو رہی ہیں. واللہ اعلم . ہمیں تو یہ پتہ ہے کہ آج کل کا موسم آج سے 100 سال پہلے کی نسبت زیادہ گرم ہے. اور پچھلے سالوں کی بہ نسبت بارشیں زیادہ ہو رہی ہیں . جس کی وجہ سے سیلاب   بھی زیادہ آ رہے ہیں.

سیلابوں سے تباہی

جب پہاڑوں اور میدانوں میں بارشیں زیادہ عرصہ تک اور زور دار ہوں ، تو خُشک زمین کچھ پانی اپنے اندر جذب کر لیتی ہے. لیکن اس جذب ہونے والے پانی کی مقدار ہہت کم ہوتی ہے. ذیادہ بارشوں کی صورت میں پانی اپنی ڈھلان کی طرف بہنے لگتا ہے. زیادہ پانی جب سیلاب کی شکل اختیار کرتا ہے ، تو اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوت کو تباہ کر دیتا ہے. صوبہ بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں زیادہ تر لوگوں کے مکانات کچّی مٹّی سے بنے ہوتے ہیں، جو بارش میں زمین بوس ہو جاتے ہیں. سیلابوں کا پانی نسبتآ نیچی جگہ جمع ہو جاتا ہے. صوبہ سندھ کے کییُ علاقوں میں پچھلے سال کے سیلابوں کا ہانی اب تک نکالا نہیں جا سکا. لوگوں کے کچّے مکان جو سیلابوں میں گر چکے تھے، اب تک بناےُ نہیں جا سکے. اور بارشوں کا موسم دوبارہ آ چکا ہے. لوگوں کی زمینوں میں پانی کھڑا ہے، وہاں کویُ فصل کاشت نہیں کی جا سکتی. سیلابوں اور بارشوں سے اتنی تباہی ہُویُ ہے ،جس کا اندازہ عام لوگوں کو نہیں ہے. سیلاب زدہ لوگ اب تک جھونپڑیوں میں گزارہ کر رہے ہیں. حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں، کہ سیلاب زدہ لوگوں کو مکان بنا کر دے.

سیلابوں سے بچاؤ

بارش اللہ تعالے کی ایک نعمت ہے. لیکن زیادہ بارش بعض دفعہ زحمت بن جاتی ہے. ایسے ہی کسی موقع پر کسی نے کہا تھا ؛

رب نعمتاں دا مینہہ کی وسایا
ماڑیاں دی چھت ڈگ پییُ

اس زحمت سے بچا جا سکتا اور اس سے فایُدہ اُٹھایا جا سکتا ہے.

اپنا ملک ایک زرعی ملک ہے، جس میں فصلیں اُگایُ جا سکتی ہیں . زیادہ فصل لینے کے لیےُ فصل کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے. بارانی فصلوں کی نشوونما اتنی زیادہ نہیں ہوتی، اس لیےُ وہ زیادہ پیداوار نہیں دیتیں. اگر زمیندار اپنی بارانی فصلوں سے زیادہ پیداوار لینا چاہتے ہوں تو اس کے لیےُ دو طریقے ہیں.

نمبر 1 – بارانی فصلوں کو پانی مہیا کرنے کےلیےُ بارانی رقبے میں ڈیزل آیُل سے چلنے والے ٹیوب ویل لگا لیےُ جاییُں. ٹیوب ویل لگانے میں کچھ خرچ تو کرنا پڑے گا، یہ خرچ صرف ایک دفعہ ہی کرنا پڑے گا. اس کے بعد صرف ڈیزل کا خرچ پڑے گا. اس انتظام سے فصلوں کو پانی وقت پر مل سکے گا اور فصل زیادہ منافع دے گی.
ٹیوب ویل لگانے اور پھر ڈیزل کے خرچہ سے بچنے کے لیےُ ایک دیسی طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے.

نمبر 2 – بارانی رقبے میں ایک یا دو جگہوں پر تالاب بنا لیےُ جایُیں ، جن میں بارش کا پانی اکٹھا کیا جا سکتا ہے. یہ پانی بارش نہ ہونے کی صورت میں فصلوں کے کام آےُ گا.

یہ تو تھا چھوٹی سطح پر کرنے کا کام. ملکی سطح پر مختلف مقامات پر سہولت کے مطابق پانی کے چھوٹے یا بڑے ڈیم بناےُ جاییُں. جن میں بارش یا سیلابوں کا پانی جمع کیا جا سکے. اس وقت ایسے ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بارش اور سیلابوں کا سارا پانی سمندر میں جا گرتا ہے. دُنیا کی سمجھدار قوموں نے اسی طریقے سے پانی کے ڈیم بنا کر سیلابوں سے اپنی جان چھڑایُ ہے ، اور بارشوں اور سیلابوں کے پانیوں سے فایُدہ اُٹھایا ہے.

اب ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت کو اس طریقے کا علم نہیں ہے یا احساس نہیں ہے. ایسا کیا جا سکتا ہے کہ بہت بڑے ڈیم نہ بناےُ جاییُں، جنہیں بنانے میں خرچ زیادہ آتا ہے. مناسب مقدار میں پانی جمع کرنے کے لیےُ کسانوں کے مشورے سے مناسب جگہوں پر چھوٹے ڈیم بنا لیےُ جاییُں. ایسے ڈیم بنانے پر سیاست نہ کھیلی جاےُ. اس طریقے پر عمل کر کے کسان زیادہ خوشحال اور ملک معاشی طور پر زیادہ مظبُوط ہوگا.

حکومتی ماہرین کے پاس ایسی سکیمیں ہو سکتی ہیں ، جس سے اپنا مُلک سیلابوں کی تباہ کاریوں سے ، اگر مکمل طور پر نہ سہی، کافی حد تک قابُو پا سکتا ہے. اس کے لیےُ اپنے اختلافات بھُلا کر ، صرف اور صرف اپنے مُلک کی ترقی اور خوشحالی کو مد نظر رکھا جاےُ. مُلک ہے تو ہم ہیں.

آگے بڑھیےُ، ملکی ترقی کے لیے ہر اختلاف بھُلا دیجیےُ. اللہ تعالے ان کی مدد کرتا ہے ، جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں.

آللہ آپ کا حامی و ناصر ہو.
پاکستان زندہ باد.

Leave a Reply