Sipraworld4all

ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 17، مہنگایُ- Our burning issues # 17- Dearness

Dearness is a big problems these days.

ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 17- مہنگایُ
Our burning Issues # 17 – Dearness

Our burning issues- dearness

ہمارا ملک امیر ممالک میں شمار نہیں ہوتا. اس کی بہت ساری وجوہات ہیں. جو ہم ذرا تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کریں گے. یہاں میں صرف یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ مہنگایُ کا رونا رونے سے کچھ نہیں ہوگا. مہنگایُ صرف حکومت ختم نہیں کر سکتی. ٰیہ صحیح ہے کہ مہنگایُ کم کرنے کے لیےُ حکومت کچھ اقدامات کر سکتی ہے. جسے ہم تھوڑی دیر میں زیر بحث لاییُں گے. اس کے ساتھ کچھ ذمہ داری عوام پر بھی پڑتی ہے . دونوں کی کوششوں سے ہی مہنگایُ پرقابو پایا جا سکتا ہے.

عنوانات

خود کشی مہنگایُ کا حل نہیں ہے .
حکومت کے کرنے کے کام.
مہیگی سبزیاں
یہاں ہم مجبور ہیں.
اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول
مرکزی مارکیتیں
جان چھُڑا لیں

خودکُشی مہنگایُ کا حل نہیں ہے.

کون نہیں جانتا کہ اس وقت ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی منہ زور مہنگایُ سے تنگ ہے. بعض بُزدل لوگ اس مہنگایُ سے چھُٹکارہ پانے کے لیےُ انتہایُ قدم اُٹھاتے ہُوےُ خود کُشی کر رہے ہیں. خودکُشی مہنگایُ کا حل نہیں ہے. کسی کو زندگی دینا یا موت دینا یہ صرف اور صرف اللہ تعالے کا اختیار ہے. خود کُشی کرنے والا اپنی زندگی کو ختم کر کے گویا اللہ تعالے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے، جو شرک ہے اور اللہ تعالے سب گناہ بخش سکتا ہے، لیکن شرک کے گناہ کو نہیں بخشے گا. اسی لیےُ خودکُشی کرنا حرام ہے ، اور اس کی بڑی سخت سزا کی وعید دی گییُ ہے. یہ درست کہ مہنگایُ بہت ہے ، اس کا مقابلہ جواں مردی سے کرنا ہوگا. چلییےُ ، ہم دیکھتے ہیں کہ مہنگایُ کیسے کم کی جا سکتی ہے.

حکومت کے کرنے کے کام

مہنگایُ کو ختم کرنے کے لیےُ حکومت اور عوام دونوں کو کام کرنا ہوگا. حکومت کے کرنے کام یہ ہیں

کفایت شعاری

مہنگایُ کم کرنے کے لیےُ کفایت شعاری پہلا اور لازمی قدم ہے. اپنی حکومت کے اخراجات بڑے شاہانہ ہیں. چھوٹے سے چھوٹا افسر بھی نیےُ ماڈل کی نییُ گاڑی چاہتا ہے. ہمارا ملک 1947 سن عیسوی میں جب آزاد ہُؤا تو قایُد اعظم کی وفات کے بعد اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو گییُ. پاکستان بنانے کا مقصد پس پشت چلا گیا. عہدہ حاصل کرنے کا مقصد آسایُشوں کا حصول تھا. اس کے برعکس انڈیا میں کفایت شعاری کی مہم شروع ہویُ. اُس زمانے میں سوزوکی موٹر کمپنی ایک کار بناتی تھی، جس کا نام ” ماروتی ” تھا. انڈیا کے وزیر اعظم سے لے کر تمام افسروں کو، جنہیں گاڑی مہیا کرنا ضروری تھا، صرف ماروتی گاڑی ہی دی جاتی تھی. اس وقت ماروتی گاڑی کی قیمت بہت کم تھی. انڈیا والوں نے اس طرح بہت پیسہ بچایا. ادھر ہماری طرف نیےُ ماڈل کی گاڑیوں کی بہتات سے بہت سارا پیسہ ضایُع کر دیا گیا. یہ چلن آج تک جاری ہے. پچھلے دنوں قومی اسمبلی کی ایک قایُمہ کمیٹی کے چیُرمین نے نیُ گاڑی کی فرمایُش کی تھی. اس وقت قومی اسمبلی کے تمام اراکین کے پاس اپنی اپنی ذاتی گاڑیاں ہیں. کیا وہ اپنے مُلک ، پاکستان کے لیےُ اتنی قربانی نہیں دے سکتے کہ حکومت سے نییُ گاڑی لینے کی بجاےُ اپنی ذاتی گاڑی استعمال کریں ! اس ملک نے آپ کو بہت عزّت دی ہے. کیا آپ اپنے وطن عزیز کے لیےُ اتنی قربانی بھی نہیں دے سکتے

حکومت ایک قانون بنا لے کہ کسی بھی مجاز افسر کو 1300 سی سی طاقت کی گاڑی ہی دی جاےُ گی. اسی طرح ماہانہ پٹرول کی مقدار بھی کم کر دی جاےُ. دیکھا گیا ہے کہ جو گاڑیاں افسران کو حکومتی فرایُض انجام دینے کے لیےُ دی جاتی ہیں، وہ گاڑیاں ان افسران ( چند ایک کو چھوڑ کر ) کے بچوں کو سکول چھوڑنے اور انہیں واپس گھر لانے کے لیےُ استعمال ہوتی ہیں. اس کے بعد افسران کی بیگمات اور ان کے بچوں کی شاپنگ پر جانے کے لیےُ پابند ہوتی ہیں. گاڑیوں کا یہ استعمال ” امانت میں خیانت ” کے زُمرے میں آتا ہے. کچھ دن پہلے کی بات ہے، ایک ٹی وی چینل کا نمایُندہ دفتری اوقات کے بعد سبز رنگ کی پلیٹ نمبر کی گاڑیوں کے ڈراییوروں سے یہ سوال کر رہا تھا کہ کیا آپ اس وقت کسی سرکاری ڈیوٹی پر ہیں ؟ جو یہ سرکاری گاڑی استعمال کر رہے ہیں؟ بعض لوگوں نے اقرار کیا کہ وہ اپنے ایک نجّی کام کے لیےُ اس گاڑی پر آےُ ہیں. بعض نے صرف گھُور کر دیکھا. جواب نہیں دیا. اکثریت کا جواب تھا کہ وہ اپنے ایک چھوتے سے نجی کام کے لیےُ اس گاڑی پر آےُ ہیں. ایک آدھ نے جواب دیتے ہوُےُ شرم بھی محسوس کی. افسران جب سرکاری گاڑی کو اپنے ذاتی استعمال کے لیےُ کہیں لے جاتے ہیں ، تو گاڑی کی لاگ بُک ( اگر کویُ ہو ) میں کیا لکھتے ہیں، وہ جانیں اور ان کا خُدا جانے.

کفایت سعاری کے کییُ طریقے اپناےُ جا سکتے ہیں.

نمبر 1 = ھکومتی افسران کے کمرے عمومآ ایُر کنڈیشنڈ ہوتے ہیں. دفتر میں کام کرتے ہُوےُ اگر کہیں باہر جانا پڑ جاےُ، تو ایُر کندیشنرز کو آف کر دیا جاےُ.

نمبر 2 = کمرہ اگر کافی دیر تک خالی رہنا ہو تو کمرہ کی تمام لایُٹس بند کر دی جایُیں.

نمبر 3 = ًمحکمہ تعلیم میں ہزاروں گھوسٹ ٹیچرز کا سراغ لگایا گیا ہے، جو گھر بیٹھے محکمہ سے تنخواہ وصول کر رہے ہیں. یہ ایک سخت قسم کی بے ایمانی ہے. ایسے لوگوں کو اور اُن کے پُشت پناہوں کو کڑی سزا دی جاےُ.

نمبر 4 = ایسی اطلاعات بھی اخبارات میں شایُع ہُوی ہیں کہ کچھ حکومتی افسران کی بیگمات ” بے نظیر انکم سپورٹ ” سے ماہانہ امداد وصول کرتی رہی ہیں یا وصول کر رہی ہیں. ایسی اطلاعات کی سخت تفشیش ہونی چاہیےُ. اور قصورواروں کو نوکری سے نکال دینا چاہیےُ. چور چوری چھوڑ دیتا ہے، ہیرا پھیری سے باز نہیں آتا.

نمبر 5 = حکومت کے مُختلف ٹھیکوں میں کرپشن کے مختلف طریقے ایجاد ہیں. ایسے کرپشن زدہ ٹھیکوں میں ٹھیکیدار میٹیریل کی منظور شدہ کوالٹی سے گھٹیا کوالٹی کا سامان لگاتا ہے. جس سے تیار شدہ منصوبہ جلد ہی مرمت طلب ہو جاتا ہے. واپڈا کا ایک پاور پلانٹ ایسے ہی کمالات کا ایک مظہر ہے جو ہر چھ ماہ بعد کسی نہ کسی خرابی سے بند ہو جاتا ہے. ماہرین نے سارے معاملے کو کھوج کر یہ اندازہ لگایا ہے کہ جہاں پاور پلانٹ لگایا گیا ہے وہان کی مٹّی بھُر بھُری ہے جو پاور پلانت کا بوجھ سہار نہیں سکتی . سارا پیسہ ضایُع ہو گیا.

نمبر 6 = بعض اطلاعات کے مطابق پنجاب اسمبلی کے حال ہی میں تیار شدہ چھت بارش میں ٹپکنے لگی. یہ ہے کمال تھیکہ پر کام کروانے کا ، اور پھر اس پر نگرانی کا نہ ہونا. ایک پرایُیویٹ بلڈر کمپنی بحریہ ٹاؤن کے نام سے مشہؤر ہے. اس کی رہایُشی سکیموں میں لوگ پلاٹ لے کر اپنے مکانات بناتے ہیں. یہ مکانات عمومآ وہاں پر موجود ٹھیکیدار بناتے ہیں. بحریہ ٹاؤن کے انسپیکٹر مکانوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے ہر میٹیریل کو جانچتے ہیں . اگر میٹیریل مقررہ معیار سے کم تر ہو تو وہ میٹیریل رد کیا جاتا ہے ، اور نیا میٹیریل منگوا کر اس کو اس کو ٹیست کیا جاتا ہے. معیار پر پُورا اترنے والے میٹیریل کو ہی مکان کی تعمیر میں استعمال کی اجازت ہوتی ہے. یہ انسپکٹر مکان کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سیمنٹ اور ریت کی نسبت بھی اپنے سامنے ڈلواتے ہیں. اینٹوں کی پختگی کو بھی جانچا جاتا ہے. مکان کی تعمیر مکمل ہونے پر آخری معایُنہ ہوتا ہے. ہر چیز معیار کے مطابق ہونے پر سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے کہ یہ مکان رہایُش کے قابل ہے. اتنی سخت چانچ پڑتال حکومتی ٹھیکوں میں بنننے والے پروجیکٹ میں نہیں ہوتی. اس لیےُ جلد ہی ان میں تعمیراتی نقایُص ظاہر ہونے لگتے ہیں. حکومت اپنے پروجیکٹ میں جانچ پڑتال پر سختی سے عمل کرے تو تعمیر کے بعد ہونے والے نقایُص پر اُٹھنے والے اخراجات بچاےُ جا سکتے ہیں.

نمبر 7 = اپنے مُلک کا کسان دن رات محنت کرتا ہے. گندم کی کٹایُ کے بعد کسان کو گندم فروخت کرنے میں مشکل پیش آتی ہے. آڑھتی لوگ گندم کی بہت کم قیمت خرید لگاتے ہیں. بّعض خریدار گندم اُدھار پر خریدنا چاہتے ہیں. یعنی کسان ہر طرف سے خسارے میں دکھای دیتا ہے. اکثر کسانوں نے گندم کا بیج اور کھاد ادھار پر لی ہوتی ہے. اب اگر کسان کی گندم اچھی قیمت پر نہ بکے اور وہ اسے کھیت میں ہی پڑی رہنے مجبور ہو جاےُ، گندم کی کٹایُ اور گہایُ ، دیسی طریقے سے ہو یا مشین کے ذریعے، کے بعد اسے محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرنا ضروری ہوتا ہے. کیونکہ ان دنوں میں اچانک بادل چھا جاتے ہیں اور بڑی زوردار بارش شروع ہو جاتی ہے. بھیگی ہویُ گندم کا خریدار کم ہی ملتا ہے. اگر کویُ خریدار مل بھی جاےُ تو وہ انتہایُ کم قیمت دیتا ہے ،اور شایُد وہ بھی اُدھار پر. کسان کو اس کی فصل کی قیمت اچھی اور بروقت نہ ملے تو وہ اگلے سال اتنی ہی گندم اُگاےُگا جو اس کے خاندان کے سال بھر کے لیےُ کافی ہو. اگر بہت سارے کسان زیادہ گندم نہ اُگاییُں تو ایکسپورت کے لیےُ گندم کہاں سے لاییُں گے!. حکومت کو ایسا انتظام کرنا چاہیےُ کہ کسان کو اس کی فروخت کی ہویُ گندم کی جایُز قیمت بروقت مل جاےُ.

مہنگی سبزیاں

کھانا ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے. یہ ٹھیک ہے کہ انسان کچھ کھاےُ پیےُ بغیر کچھ دن زندہ رہ سکتا ہے. لیکن کب تک ! کھانا کھانے کے لیےُ کچھ ایسی چیز چاہیےُ جو اگر روٹی کے ساتھ کھایُ جاےُ ، تو وہ روٹی کو مزیدا ر بنا دے. اس کے لیےُ سبزیوں کو مُختلف نُسخہ جات کے ذریعے لذیذ اور خوش ذایُقہ بنایا جاتا ہے. ہمارے ملک کے پکاےُ ہوےُ کھانے دُنیا بھر میں پسند کیےُ جاتے ہیں.

لیکن اب حالت مہگایُ کی وجہ سے یہاں تک پہنچ چُکی ہے کہ لوگ مجبورآ بہت کم مقدار میں سبزیاں پکاتے ہیں. لوگ کیا کریں، گھر کے پاچ چھے افراد کے لیےُ سبزیاں لینے جاییُں تو سات آٹھ سو روپیہ خرچ ہو جاتا ہے. دکاندار سے کچھ کہیں تو وہ مہنگایُ کا رونا لگ جاتا ہے.

مہنگایُ کا ایک علاج ہے، جو چیز مہنگی ہے اسے نہ خریدیں، یا اس کا استعمال بہت کم کر دیں. چھے سات سال ہُوےُ، اپنے مُلک میں پیاز بہت مہنگا ہو گیا. یہی پیاز 1970 میں 4 روپے کا ایک من بکتا تھا. اب جو پیاز مہنگا ہُؤا تو اپنے ملک میں ” پیاز نہ کھاو‌” کی تحریک شروع ہو گییُ،
لوگوں نے پیاز خریدنا بند کر دیا. عورتوں نے ہانڈی پکاتے وقت پیاز کی جگہ دہی ڈالنا شروع کر دیا. پیاز کے بیوپاریوں نے جب دیکھا کہ پیاز کی فوخت بند ہو گیُ ہے، تو انہوں نے پیاز سستا کر دیا. اس تحریک کے بارے میں ہمارا آرٹیکل پڑھیےُ ” Together we can

ایک بات ذہن میں رکھیں. اتفاق میں بہت برکت ہے. موجودہ وقت میں اس کی ایک مثال بنگلہ دیش کی ہمارے سامنے آیُ ہے. جہاں طلبا نے متحد ہو کر 16 سال سے برسر اقتدار سخت گیر وزیراعظم حسینہ واجد کو انڈیا فرار ہونے پر مجبور کر دیا. فرض کریں ، کویُ ایک سبزی بہت مہنگی ہو جاتی ہے. عوام وہ سبزی خرید کر کھانا چھوڑ دیں ، 15 دن کے اندر اندر وہی سبزی بہت سستی ہو جاےُ گی. عوام متحد ہو جاییُں تو ہر دفعہ کویُ ایک مہنگی سبزی خریدنا ااور کھانا چھوڑ دیں، چند ہی دنوں میں اس سبزی کی قیمت نصف سے بھی کم ہو جاےُ گی. مسُلہ صرف یہ ہے کہ ” کُنڈی کون کھولے گا

یٰہاں ہم مجبور ہیں.

ایک آدمی نے اللہ کے رسول کے صحابی علی علیہ السلام سے پوچھا کہ انسان کس حد تک آزاد ہے اور کہاں تک مجبور ہے. آپ نے فرمایا ” اپنا ایک پاؤں اوپر اُٹھا لو” سوالی نے اپنا ایک پاؤں اُوپر اُٹھا لیا، ّعلی علیہالسلام نے فرمایا ” دیکھو، یہاں تک تم آزاد تھے. ” پھر فرمایا ” اپنا دوسرا پاؤں بھی اوپر اُٹھا لو ” وہ شخص کہنے لگا ” اگر میں نے اپنا دوسرا پاؤں اوپر اُٹھایا تو میں گر پڑوں گا ” ّعلی علیہ السلام نے فرمایا ” یہاں سے تمہاری مجبوری کی ابتدا ہوتی ہے “.

جہاں تک کھانے پینے کی چیزوں کا تعلق ہے ، وہاں تک تو ہم اپنی مرضی کر سکتے ہیں. لیکن ایک چیز ایسی ہے جس پر ہمارا کنٹرول نہیں. آج کل کپڑا خریدنے جاییُں ، تو کپڑوں کی قیمتیں سُن کر دن میً تارے نظر آنے لگتے ہیں. کپڑا ایک ایسی چیز ہے جس کا بایُکاٹ نہیں کیا جا سکتا. یہاں ہم مجبُور ہیں. باقی اشیاُ کا بایُکاٹ کیا جا سکتا ہے. مہنگایُ ختم کرنے کے لیےُ مختلف اشیا کا بایُکاٹ ضرور کرنا چاہیےُ ، تاکہ مہنگایُ کم ہو سکے.

اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول

مختلف علاقوں کی مارکیٹ کمیٹیاں تقریبآ 10 بجے صبح سبزیوں کی دکانوں پر ہر سبزی کی اُس دن کے لیےُ خوردہ قیمتوں کی ایک فہرست تقسم کی جاتی ہے. جسے سبزی فروش ایک طرف رکھ دیتے ہیں. اورسبزیاں اپنی مقرر کردہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں. یعنی اس بات پر کویُ کنٹرول نہیں کہ سبزیاں مقرر کردہ قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں یا نہیں. حکومت اگر سختی سے کنٹرول کرے کہ سبزیاں مقرر کردہ قیمت پر فروخت ہوں، تو مہنگایُ بڑی حد تک موجودہ سطح سے نیچے آ جاےُ گی.

مرکزی مارکیٹیں

ہمارے ملک میں دکانوں کا کسی ایک جگہ مرکوز ہونے کا رواج نہیں . ہر شخص جب چاہے، جہاں چاہے ، اپنی دکان کھول سکتا ہے. اور جو چاہے فروخت کر سکتا ہے. یہ ایک بے ہنگم طریقہ ہے. بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر یونین کونسل میں آبادی کو مدنظر رکھتے ہُوےُ چار یا پاںچ مارکیٹیں بنایُ جاییُں. جو اوپر سے کورڈ ہوں. ان مرکزی مارکیٹوں میں مناسب رقبہ پر دکانیں بنایُ جاییُں. وہاں ہر قسم کی دکانوں ہوں. مثلا سبزی کی سب دکانیں ایک جگہ، فروٹ کی دکانیں ایک جگہ گوشت کی دکانیں ایک جگہ پر ہوں. یعنی گاہک کو اگر گوشت لینا ہو تو وہ ادھر ادھر گھومنے کی بجاےُ مقررہ جگہ پر جاےُ اور گوشت خرید لے. ہر دکاندار اپنی دکان اور دکان کے سامنے والی کھلی جگہ کی صفایُ کا ذمہ دار ہو. مارکیٹ کےکسی ایک کونے میں کوڑا ڈالنے کے لیےُ جگہ مُختص کی جاےُ.

مرکزی مارکیٹ میں اتنی جگہ ہو کہ اس میں دکانوں کی چار قطاریں لمبایُ میں بنایُ جا سکیں. ہر قطار کے درمیان پارٹیشن کےلیےُ ایک دیوار ہو، جس کے دونوں طرف دکانیں ہو. یہ صرف ایک آیُڈیا ہے، اس میں ضرورت کے مطابق جمع تفریق کی جا سکتی ہے.

ایسی مرکزی مارکیٹیٹوں کے بننے کے بعد علاقہ میں جگہ بہ جگہ کھُلی ہویُ دکانوں کو ان مرکزی مارکیٹوں میں جگہ دی جاےُ.

مہنگایُ کو صرف حکومت یا صرف عوام ختم نہیں کر سکتے. مہنگایُ سے نمٹنے کے لیےُ ایک مربُوط لایُحہ عمل کی ضرورت ہے. جہاں تک میں سمجھا ہُوں، حکومت کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم مہنگایُ پر کس طرح قابو پایُیں. اس میں کویُ حرج نہیں اگر ہم کسی ایسے ملک کے کسی ماہر سے مشورہ کر لیں، جس نے اپنے ملک میں مہنگایُ پر قابو پایا ہو.

ہمارے ملک کا معاشی ڈھانچہ عجیب گورکھ دھندا ہے. ہر شخص زیادہ منافع کمانے کے چکر میں ہیں. نعض کام ایسے ہیں ،جو ملک پر بوجھ ہیں.

مہنگایُ کم کرنے کے لیےُ چند تجاویز ہیں.

جان چھُڑا لیں.

نمبر 1 = وہ ادارے جو غیر فعال ہیں، اور ملکی خزانہ پر محض بوجھ ہیں، ان سے جان چھڑا لی جاےُ.
نمبر 2 = پی آیُ اے کسی زمانے میں منافع بخش ایُر لایُن تھی. اب یہ کروڑوں کی مقروض ہے. اسے کس نے اس حالت تک پہنچایا ؟. کیا یہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے ؟. اگر ایسا ممکن ہے تو اسے اپنے پاؤن پر کھڑا ہونے میں مدد دیں. اس کے لیےُ اس میں ایک بے رحم آپریشن کی ضرورت ہے. فالتو عملہ سے جان چھُڑانی ہوگی. اس کی فلاُیُٹ سروس بہتر کرنی ہوگی. آخراجات کم کرنے پڑیں گے. یہ سب کچھ کرنے میں اگر مونچھ داڑھی سے بڑھ جاےُ تو اس سے جان چھڑانے کے لیےُ کچھ کرنا پڑے گا.
نمبر 3 = آیُ پی پی سے بجلی پیداواری کے معاہدے ایسے ہیں کہ ان سے جان چھُڑانی مشکل ہے. ان معاہدوں کے کچھ خدو خال کچھ یُوں ہیں ؛

نمبر 1 = بے نظیر بھٹّو نے 1994 سن عیسوی میں ، جب وہ ملک کی وزیر اعظم تھی ، آیُ پی پی ( انڈیپینڈینٹ پاور سپلایُرز) سے بجلی پیدا کرنے اور ملک کو سپلایُ کرنے کے معاہدے کیےُ.
نمبر 2 = آیُ پی پی معاہدے کے مطابق 43،000 میگا واٹ بجلی سپلایُ کریں گے.
نمبر 3 = ہمارے ملک کا بجلی ترسیلی نظام پرانا ہے جس کے ذریعے صرف 13،000 میگا واٹ کی بجلی کی ترسیل ممکن ہے.
نمر 4 = آیُ پی پی ہم سے ہر سال تقریبآ 2000 ارب روپیہ ” کیپیسیٹی چارجز ” کے نام پر وصول کر رہے ہیں. آیُ پی پی والے کہتے ہیں کہ یہ 2000 ارب روپے ان یُونٹوں کی پیداواری لاگت ہے جو ہم نے استعمال ہی نہیں کیےُ.

ان معاہدوں کے مطابق ہم 43،000 میگا واٹ یونٹ کی قیمت ادا کرنے کے پابند ہیں چاہے ہم یہ ساری بجلی استعمال کریں یا نہ کریں. یہ معاہدے ایک گورکھ دھندا ہیں، مندرجہ بالا مندرجات میں غلطی کی گنجایُش ہے. یہ مندرجات محترم ڈاکٹر اختیار بیگ کے ایک مضمون ” آیُ پی پی معاہدے – ناؤ ڈبو سکتے ہیں ” سے لیےُ گیےُ ہیں، جو روزنامہ جنگ، لاہور کے 12 اگست 2024 کے شمارے میں شایُع ہوےُ ہیں.

اللہ تعالے سے دُعا ہے کہ وہ ملک کے عوام کے لیےُ سہولتوں کے دروازے کھول دے.

Leave a Reply