ہمارے سُلگتے مسایُل، قسط 6، بے ایمانی
Our burning Issues, Part 6, Dishonesty
Dishonesty
بے ایمانی ہمارے معاشرہ کی جڑوں تک سرایت کر چُکی ہے. ہر کویُ دوسرے کے مال پر نظر رکھے ہُوےُ ہے. عام آدمی ، دکاندار، ٹھیکیدار، امیر، غریب، حکومتی ملازم، سیاست دان ہر ایک مال بنانے کے چکر میں ہے اور اس کے لیےُ بے ایمانی ایک مفید نُسخہ ہے. آپ کویُ بھی اخبار اُٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو فراڈ اور بے ایمانی سے مال ہتھیانے کے کافی واقعات پڑھنے کو ملیں گے. کرپشن بے ایمانی کی ترقی یافتہ شکل ہے.. سارے محکمے کرپشن میں ڈُوبے ہُوےُ ہیں. حیران ہُوں کہ لوگ بے ایمانی کرتے ہُوےُ اللہ تعالے سے ڈرتے نہیں
ہمارے سلگتے مسایُل کی قسط نمبر 5 پڑھنے کے لیےُ “ ہمارے سلگتے مسایُل ، قسط 5 – بے روزگاری ” پر کلک کریں.
عنوانات
لوگ بے ایمانی کیوں کرتے ہیں ؟
لوگ بے ایمانی کیسے کرتے ہیں؟
ایک مکروہ دھندا.
کیا کیا جاےُ ؟
لوگ بے ایمانی کیوں کرتے ہیں ؟
آج کل زمانہ دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے. دولت آنی چاہیےُ چاہے کسی طریقے سے اےُ. جایز اور ناجایُز کی تمیز مٹ چُکی ہے. عاقبت کا خوف دولت کی حرص کے پیچھے چھُپ گیا ہے. دولت کی حرص نے حلال اور حرام کی تمیز مٹا دی ہے. صبر عُنقا ہو چُکا ہے. ہر طرف حل من مزید کا بول بالا ہے. فُلاں شخص کے پاس اتنی دولت کیوں ہے؟ میرے پاس کیوں نہیں. یہ احساس بے ایمانی کے ذریعے مزید دولت حاصل کرنے کے احساس کو تقوییت دیتا ہے .
اقتدار میں بیٹھے ہوےُ لوگوں کے پاس ناجایُز دولت اکٹھی کرنے کے کییُ طریقے ہیں. عام آدمی جب آپنے بچوں کو بھُوک سے بلکتا دیکھتا ہے ، تو اگر وہ بزدل ہے تو خودکُشی کر لے گا، یا پھر وہ ناجایُز طریقوں سے پیسہ حاصل کرے گا. وہ چور بن جاےُ گا ، ڈاکہ زنی کرے گا، راہ چلتے لوگوں سے اسلحہ کے زور پر رقم چھینے گا. بھتّہ خوری کا دھندا شروع کر دے گا. آج کل کییُ گروہ ان کاموں میں مصروف ہیں. اخبار پڑھ کر دیکھییےُ، لگتا ہے ملک میں قانون نام کی کویُ چیز ہی نہیں. اسلحہ کی فراوانی ہے. جس کے زور پر عوام کو روزانہ لوٹا جا رہا ہے. ایسے غنڈہ عناصر ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر کٰیُ لوگوں کو قتل کر چکے ہیں. قتل ہونے والے پُوچھتے ہیں ” انہیں کس جُرم میں قتل کیا گیا ؟” وہ فریاد کر رہے ہیں :
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہُوےُ ہیں دستانے
آج کل بے روزگاری زوروں پر ہے. لوگ سارا دن روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں. سرمایہ دار اپنے کارخانے بند کر کے فارغ بیٹھے ہیں. روزگار کہاں ملے گا ! ایسے بے روزگاروں کے ذہن باغیانہ خیالات کی آماجگاہ بنتے ہیں، جو انہیں غلط راستوں کا راستہ دکھاتے ہیں. بھوک جایز ناجایُز کا فرق مٹا دیتی ہے. نے ایمانی سے پیسہ حاصل کرنے کی ابتدا ہو جاتی ہے. یہ ایسا راستہ ہے کہ اس کا مسافر پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھتا.
لوگ بے ایمانی کیسے کرتے ہیں ؟
نمبر 1 = بے ایمانی کرنے کے بے شمار طریقے ہیں. یہ بچپن کی بات ہے. ہمارے گاؤں میں ایک ہندُو حویلی رام کی کریانہ کی دُکان تھی. اُس زمانے میں بہت کم لوگوں کے پاس نقد رقم ہوتی تھی. عورتیں سودا لینے کے لیےُ کویُ جنس ، گندم، مکییُ، مونجی وغیرہ دکان دار کے پاس لاتیں، دکاندار اُس جنس کو ناپ کر اس کی قیمت بتاتا. عورتیں اتنی قیمت کی اشیا لے جاتییں. جنس کو ناپنے کے لیےُ ایک پیمانہ ہوتا تھا جسے ” ٹوپہ ” کہتے تھے. توپہ تقریبآ 2 کلو کے برابر ہوتا تھا. ایک ٹوپے کے چوتھے حصّے کو ” ُپڑوپی ” کہتے تھے. ایک عورت حویلی رام کی دُکان پر گندم کے بدلے کچھ چیزیں لینے آیُ. حویلی رام نے گندم کو ناپ کر کہا کہ اتنے پیسے بنتے ہیں. اس عورت نے دو تین چیزوں کے نام بتاےُ. حویلی رام وہ اشیا تولنے لگا تو اُس عورت نے اندازہ لگایا کہ حویلی رام کے تولنے والے باٹ مقررہ وزن سے کم ہیں. آس نے حویلی رام سے کہا کہ تمہارے باٹ وزن میں چھوٹے ہیں. حویلی رام نے جواب دیا ” باٹ وزن میں چھوٹے ہیں تو کیا ہُوا، میری پڑوپی تو بڑی ہے “. سادہ لوح لوگوں سے بے ایمانی کرنے کا یہ ایک طریقہ تھا. آج کل بھی اسی طرح کی بے ایمانی کی جاتی ہے. دکاندار اشیا تولنے کے لیے اگر دیسی ٹایُپ کا ترازو، جسے پنجابی زبان میں “ترکڑی ” کہتے ہیں استعمال کرے، تو ترکڑی کے ایک پلّے کے نیچے کویُ چیز چپکا دیتے ہیں. آج کل الیکٹرانک ترازو استعمال ہوتا ہے. لوگ اس پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں. دکان دار الیکٹرانک ترازو کی سیتینگ اس طرح کروا لیتے ہیں کہ ترازو وزن کو زیادہ ظاہر کرتا ہے. خریدار مطمیُن ہوتا ہے کہ وزن پورا ہو گا. بے ایمانی کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے.
نمبر 2 == آج کل روزمرہ کی استعمال کی اشیا پر استعمال کی آخری تاریخ پرنٹ ہوتی ہے. دکان دار ایسی اشیا کو سستے داموں خرید لیتے ہیں، جن کی استعمال کرنے کی آخری تاریخ جلد ہی گزرنے والی ہو ، اور پھر اسے لوگوں کووہ تاریخ ختم ہونے کے بعد بھی اس شے پر لکھی ہویُ قیمت پر بیچ دیتے ہیں.
نمبر 3 = پھلوں کی مارکیٹ میں دکان داروں نے مختلف پھل سجا کر رکھے ہوتے ہیں. ایسے دکان دار گاہک کو پھل چُن کر لینے کی اجازت نہیں دیتے. آپ اُن پر اعتبار کر کے پھل خرید لاتے ہیں. گھر پہنچ کرجب آپ پھل کو کھانے کے لیےُ کاٹیں گے تو کچھ پھل اندر سے خراب نکلیں گے. دکان دار ایسی بے ایمانی اکثر کر لیتے ہیں.
نمبر 4 = آپ نے کسی دکان سے شلوار قمیض کے لیےُ کپڑا خریدا. وہ کپڑا آپ نے درزی کو سلایُ کے لیےُ دیا. درزی نے آپ کو بتایا کہ آپ کی شلوار میں کسی ایک جگہ سُوراخ ہوگا. اس میں درزی کا کویُ قصور نہیں. بے ایمانی کپڑا بیچنے والے کی ہے. کپڑے تیار کرنے والی ملیں جب کپڑا تیار کرتی ہیں تو کپڑے میں بعض دفعہ کویُ نقص رہ جاتا ہے،جیسے کسی جگہ ایک چھوٹا سا سوراخ بن گیا، کسی جگہ بُنایُ باہر نکل گیُ وغیرہ. کپڑا مل والے ایسے کپڑے کے تھانوں کو علیحدہ کر لیتے ہیں، اور اس کپڑے کی قیمت صاف کپڑے کی بہ نسبت کم قینت پر بیچ دیتے ہیں. کپڑا بیچنے والے عام دکان دار یہ کپڑا سستے داموں خرید لاتے ہیں اور اپنی دکان پر مہنگے داموں بیچتے ہیں. کسی نقص والی چیز کو صحیح کہہ کر بیچنا بے ایمانی کی ایک شاخ ہے.
نمبر 5 = بے ایمانی کرنا بہت بُرا فعل ہے. قیامت کے دن بے ایمانی سے کمایا ہُؤا پیسے کا حساب دینا مشکل ہوگا. دُنیا میں بھی اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا.سب بے ایمانیوں میں سب سے بُری بے ایمانی یہ ہے جو دوایُیں بنانے والی کمپنیاں کرتی ہیں . ان کی کچھ تفصیل یُوں ہے :
نمبر 1 – دوایُ میں اجزا کم ڈالنا.
فرض کریں ایک 20 ملی لٹر بوتل میں دوایُ کی مقدار ایک اونس ہونی چاہیےُ. لیکن میڈیسن کمپنی دوایُ کی مقدار ایک اونس سے کم شامل کرتی ہے. بوتل پر دوایُ کی مقدار ایک اونس ہی لکھتی ہے. تو یہ ایک طرح سے سے ایمانی کی صفت میں شمار ہو گی.
نمبر 2 – دوایُ میں اجزا زیادہ ڈالنا.
بعض میڈیسن کمپنیاں اپنی بنایُ ہُویُ دواؤں کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیےُ اس میں بعض اجزا مقررہ مقدار سے زیادہ شامل کر دیتے ہیں. پچھلے دنون روزنامہ جنگ لاہور مورخہ 18 نومبر 2023 سن عیسوی میں یہ خبر شایُع ہویُ کہ پکستان میں بنی ہویُ کھانسی کی ایک دوا بیرون ملک مالدیپ بھیجی گیُ. جس میں مقررہ مقدار سے زیادہ مقدار میں دوایُ شامل کی گیُ تھی. مالدیپ کی شکایت پر ورلڈ ہیلتھ آرگنایُزیشن کی تحقیقات میں کھانسی کے اس شربت میں الکوحل کی زیادہ مقدار کی تصدیق ہو گییُ. ڈریپ کی سفارش پر حکومت پنجاب نے کھانسی کے ان پانچوں شربت کی فروخت پر پابندی لگا دی ہے. ایسا فعل لوگوں کی زندگی سے کھیلنے کے مترادف ہے. اس کے لیےُ زمہ داران قیامت کے دن جواب دہی کے لیےُ تیار رہیں.
نمبر 3 – دوایُ میں اصل جُز کی بجاےُ کویُ عام پاؤڈر ڈال دینا.
اس طرح کے کاموں میں مریض کو کویُ خاص نقصان نہیں پہنچتا، لیکن کویُ فایُدہ بھی نہیں ہوتا. لیکن دوایُ بنانے والی کمپنی کو مالی فایُدہ ضرور پہنچ جاتا ہے. گو یہ مالی فایُدہ بے ایمانی سے حاصل کیا جاتا ہے.
نمبر 4 – آیک مکروہ دھندا.
بے ایمانی کے ساتھ اپنی عاقبت خراب کرنے کا ایک مکروہ دھندا آج کل زوروں پر ہے. آپ اخبارات میں پڑھتے ہوں گے کہ لاہور میں داخل ہونے والے ایک یا دو ٹرک پکڑے گیےُ جو مردہ مرغیوں کے گوشت سے لدے ہوےُ تھے. یہ مردہ مرغیوں کا گوشت ہوٹلوں کو سپلایُ کیا جاتا ہے. مردہ مرغیوں کا یہ گوشت بیچنے والے اور لینے والے دونوں ہی بے ایمانی کے اس مکروہ کام میں ملوث ہوتے ہیں. ہوٹلوں میں کھانا کھانے والوں کو تو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ حرام گوشت کھا رہے ہیں. مردہ جانوروں کا گوشت بھی اسی طرح بیچا جا رہا ہے.
نمبر 5 – مچھلی والا.
میں جہاں رہتا ہُوں وہاں ایک آدمی روزانہ سایُکل پر مچھلی بیچنے آتا ہے. وہ مچھلی کو ” قصور دریا کی تازہ مچھلی ” کہہ کر آواز لگاتا ہے. حالانکہ اُس نے یہ مچھلی ، مچھلی منڈی، لاھور سے خریدی ہوتی ہے. جو پتہ نہیں کتنے دنوں سے دریا سے باہر ہے اور تازہ تو ہرگز نہیں ہوتی. اس طرح تو اس کا سارا روزگار بے ایمانی پر مشتمل گنا جاےُ گا. پتہ نہیں لوگ پیسے کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں.
نمبر 6 – دو نمبری مال.
ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو گوالمنڈی کے بنے ہُےُ مال کو امپورٹید مال کہہ کر بیچ رہے ہیں. آپ کسی سٹور میں چلے جاییُں، وہاں بہت ساری اشیا امپورٹید کہہ کر بیچی جاتی ہیں، ان اشیا کی پیکنگ تو امپورتیڈ اشیا جیسی ہو گی، مگر شیشی یا بوتل میں موجود مواد نقلی ہوگا. بعض ادویات اور پرفیُوم کی خریداری میں دھوکہ نہ کھاییےُ گا. کاسمیٹک کے دیگر سامان میں بھی یہ دھندہ جاری ہے. آدویات کی دکانوں میں ویزلین 50 روپے کی ملتی ہے اور 225 روپے کی بھی.
نمبر 7 – جعلی دودھ.
دودھ ملک کے ہر گھر میں استعمال ہوتا ہے. اس کی کھپت بھی بہت ہے. ملک میں جتنا دودھ ایک دن میں استعمال ہوتا ہے ، ایک دن میں اتنا دودھ پیدا نہین ہوتا. پھر دودھ کی یہ کمی کیسے پوری ہو رہی ہے ؟. بعض نا عاقبت اندیش لوگ جعلی دودھ بنا کر یہ کمی پوری کر رہے ہیں. ایسے لوگ دودھ بنانے میں ایسے اجزا استعمال کرتے ہیں جو انسانی صحت کے لیےُ انتہایُ مُضر ہیں. آج سے کچھ عرصہ پہلے تک یہ لوگ اس نقلی دودھ سے بھرے کییُ ٹرک لاہور بھیج رہے تھے. پچھلے کچھ ماہ سے حکومت نے کچھ سختی کی ہے. محکمہ خوراک کے آدمی ایسے ٹرکوں کو روک کر دودھ کا معایُنہ کرتے ہیں، دودھ نقلی ہونے کی صورت میں ٹرک میں بھرا سارا دودھ ضایُع کر دیا جاتا ہے. ایسی پڑتال روزانہ ہونی چاہیےُ.
کیا کیا جاے؟
لوگ مکروہ دھندوں کے عادی ہو چکے ہیں. یہ لاتوں کے بھُوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے. ان کے لیےُ کڑی سزا کی ضرورت ہے. اس بات کی پرواہ نہ کی جاےُ کہ دونمبری کام کرنے والے کتنے ہیں اور کتنے با اثر ہیں.
اب ہم مکروہ دھندہ کرنے والوں کی سزا پر گفتگو کرتے ہیں
نمبر ! –وزن کرنے والےترازووُں کی ہر ہفتہ پڑتال کی جاےُ. ایسے ترازو بنانے کے لیےُ کچھ کمپنیوں کو لایُسنس دیُے جاییُں . ان کمپنیوں کے ترازووُں کے علاوہ دوسرے ترازو ممنوع قرار دیے جاییُں. پڑتال اور سزا کے متعلق قوانین وضع کیےُ جا سکتے ہیں.
نمبر 2 -استعمال کیےُجانے کی آخری تاریخ کا معایُنہ محکمہ خوراک کے سپرد کیا جاےُ. ان کے انسپیکٹر اشیا کا معایُنہ کریں اور رپورٹ دیں. دودھ اور دہی کا دکانوں پر جا کر معایُنہ کیا جاےُ. دودھ اور دہی کے خالص ہونے پر خاص توجہ دی جاےُ. طریقہ کار کے متعلق ضوانط وضع کیےُ جا سکتے ہیں.
.
نمبر 3 – کویُ دوایُ یا پاوُڈر نقلی پایا جاےُ تو بنانے والے اور بیچنے والے دونوں پر جرمانہ کیا جاےُ.
نمبر 4 – مردہ جانوروں کا گوشت مہیآ کرنے والوں کو کم از کم 25 سال قید سخت کی سزا دی جاےُ. انہیں اپیل کرنے کی اجازت نہ ہو.
نمبر 5 – پھیری والوں کے پاس چیزیں بیچنے کا لایُسنس ہو. وہ لایُسنس میں درج اشیا ہی بیچ سکیں.
نمبر 6 – دو نمبری مال بنانے والوں اور بیچنے والوں کو عمر قید کی سزا دی جاےُ. یہ لوگ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے مرتکب ہوتے ہیں.
نمبر 7 – مصنوعی یا کھاد یا کیمیکل سے نقلی دودھ بنانے والوں کو انتہایُ سخت سزا دی جاےُ.
بھتّۃ خوری، ڈاکہ زنی، اسلحہ کے زور پر رقم چھیننے، چوری اور اسی قسم کے دیگر مکروہ دھندے کرنے والوں کو پھانسی کی سزا دی جاےُ. جس کے خلاف کسی اپیل کا حق نہ ہو. جب تک ایسے جرایًم پر سخت سزاییُں نہ دی گییُں، یہ جرایُم ختم نہیں ہوں گے. آپ سنگاپور کی مثال لے لیں. وہاں قوانین بہت سخت ہیں. اور ہر طرف امن و امان ہے. وہاں سڑک پر گندگی کچرا وغیرہ پھینکنا سخت منع ہے. یہی وجہ ہے کہ وہاں کویُ شخص سڑک پر تھوکتا بھی نہیں.
آپ نے اندازہ کیا ہوگا کہ تقریبآ 80 فی صد لوگوں کے پاس اسلحہ ہے. جو زیادہ تر لایُسنس کے بغیر ہوتا ہے. فوج، پولیس کے علاوہ سب کے لایُسنس منسوخ کیےُ جاییُں. نیےُ لایُسنسوں کے اجرا سے پہلے درخواست دہندہ کی کڑی تفتیش کی جاےُ. اپنے ملک کے شہری ںاجایُز اسلحہ عمومآ افغانیوں سے خریدتے ہیں.وہ یہ اسلحہ افغانستان سے پاکستان میں سمگل کرتے ہیں. افغانستان میں امریکیوں کا چھوڑا ہُؤا اسلحہ بڑی آسانی سے مل جاتا ہے. ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے افغانیوں کو اُن کے اپنے ملک واپس بھیجا جاےُ. ناجاٰز اسلحہ بیچنے والے افغانیوں کو بلیک لسٹ کیا جاےُ اور انہیں پاکستان میں دوبارہ داخلے کی اجازت نہ دی جاےُ
یہ جو وی پی آیُ لوگوں کے پیچھے گاڑیوں میں ان کے گارڈ اسلحہ لیےُ بیٹھے ہوتے ہیں ، اس کو ممنوع قرار دیا جایےُ. یہ ایک طرح سے عوام پر رُعب ڈالنے کی کوشش ہے. کیا یہ اپنے عوام سے ڈرتے ہیں ؟
اللہ تعالے ہم سب کو بے ایمانی کا دھندا کرنے کی لعنت سے بچنے کی ہدایت اور توفیق عطا فرماےُ. آمین.
2 Responses
This platform is phenomenal. The magnificent data uncovers the proprietor’s excitement. I’m shocked and expect additional such astonishing sections.
It seems like you’re repeating a set of comments that you might have come across on various websites or social media platforms. These comments typically include praise for the content, requests for improvement, and expressions of gratitude. Is there anything specific you’d like to discuss or inquire about regarding these comments? Feel free to let me know how I can assist you further!