ہمارے سُلگتے مسایُل، قسط 4
احساس محرومی
Our burning issues, , Part 4
Feelings of deprivation
احساس محرومی
Feelings of deprivation
کیا آپ نے کسی سڑک کے فُٹ پاتھ پر کھڑے کسی ایسے شخص کو،جو معمولی کپڑے پہنے ، سڑک پر آتی جاتی چمکتی گاڑیوں اور گاڑیوں میں بیٹھے ہنستے کھیلتے بے فکرے نوجوانوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے اور پھر آہ بھرتے دیکھا ہے ؟. آپ نے کبھی سوچا ہوگا کہ ایسے اشخاص کے چہروں پر یہ پژمردگی کیوں ہے ؟. اگر آپ کسی امیر گھرانے کے چشم و چراغ ہیں تو آپ نے کبھی اس بات کو محسُوس بھی نہیں کیا ہوگا. آپ کے والدین ( اللہ تعالے اُن کا سایہ آپ کے سر پر تا دیر قایُم رکھے ) آپ کی ہر خواہش بڑی خوشی سے پُوری کر دیتے ہوں گے. لیکن اپنے مُلک کے 50 فی صد لوگ خط غُربت سے نیچے زندگی گُزار رہے ہیں.ان میں بعض ایسے ہیں جنہیں پیٹ بھر کر روٹی نصیب نہیں ہوتی ہوگی. اخبارات میں روزانہ ایسی کییُ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ کسی کے باپ یا ماں نے غُربت سے تنگ آ کر خود کُشی کر لی. خودکُشی کرنا حرام ہے اور یہ حرکت، خود کُشی کرنے والے کو اللہ تعالے کے غضب کا حقدار بنا دیتی ہے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ ایسا کرنے پر کیوں مجبُور ہو جاتے ہیں ؟
.
عنوانات:
احساس محرومی
سفارش
غربت.
ٰیہ کام غلط ہے.
احساس محرومی.
Feelings of deprivation
کُچھ لوگ اپنی محرومیوں کو اپنے مقدّر میں لکھا ہُؤا سمجھ کر اس پر صبر کر لیتے ہیں. یہ اُن کی اپنی سوچ ہے. کُچھ لوگ اہنی تقدیر بدلنے کے لیےُ کوشش کرتے ہیں. بعض کامیاب ہو جاتے ہیں اور بعض ناکام ہو کر دوبارہ کوشش کرنے کا حوصلہ ہار جاتے ہیں. اس کے لیےُ وہ ” میری قسمت ہی بُری ہے ” کے مقُولے کا سہارا لیتے ہیں. بعض لوگ اپنی قسمت بدلنے کے لیےُ مُغل بادشاہ بابر کے مشہور قول ” بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ” پر عمل کرتے ہُوےُ بار بار کوشش کر کے کامیاب ہو جاتے ہیں. ( وضاحت . بابر کے قول میں ” عیش ” کا مطلب امیروں والی عیش نہیں، بلکہ عیش کا مطلب ہے کوشش ). ایسے لوگ اپنے مقدر کا گلہ نہیں کرتے. بلکہ اپنا مقدر خُود بناتے ہیں. اس کے برعکس ہمت ہار جانے والے ناکام ہو جاتے ہیں. ایسے ہی لوگ احساس محرومی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں.
آپ نے ایسے کیُ گھرانوں کو دیکھا ہو گا ، کہ اُن کے مرد مزد وری کرتے ہیں. صبح گھر سے نکلتے ہیں اور شام کو تھکے ماندے واپس گھر آتے ہیں. وہ اتنے تعلیم یافتہ نہیں ہوتے کہ کسی اچھی جگہ پر کام کر سکیں. ایسے لوگ احساس محرومی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں. لیکن وہ اپنی قسمت کو کوسنے کے علاوہ اور لچھ نہیں کر سکتے. ان میں سے اکثر اپنے احساس محرومی کا بدلہ اس طرح لیتے ہیں کہ وہ غلط راہ اختیار کر لیتے ہیں. چور بن جاتے ہیں، ڈاکہ زنی کرتے ہیں. نشہ کا سامان بیچنے لگ جاتے ہیں. لوگوں سے فراڈ کے پیشے کو اپنا لیتے ہیں. اس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی محرومیوں کا بدلہ لے رہے ہیں. ایسے لوگوں میں سے اگر کویُ کسی ایسی جگہ پر تعینات ہو جاےُ جہاں رشوت عام ہو تو ان کا احساس ًمحرومی انہیں اس بات پر قایُل کر لیتا ہے کہ پیسے اکٹھے کرو، وہ ان پیسوں سے اپنے بچوں کو آسایُشیں مہیا کرتا ہے ، اور اپنے احسا محرومی کو تسکین پہنچاتا ہے.
کیا کیا جاےُ ؟
لوگوں میں: آحساس محرومی دُور کرنے کے لیےُ :
نمبر 1 – تعلیم عام کی جاےُ. دیہات کے بچوں پر خصوصی توجہ دی جاےُ.
نمبر 2 – پرایُمری جماعتوں کی تعلیم کا سلیبس تبدیل کیا جاےُ. ابتداےُ تعلیم میں کردار سازی پر خصوصی توجہ دی جاےُ. آحساس محرومی دور کرنے کے لیےُ خصوصی تربییت کا انتظام کیا جاےُ. جس میں بچوں کے ذہن میں یہ بات بٹھایُ جاےُ کہ وہ اپنے ملک کا ایک قیمتی سرما یہ ہیں.
نمبر 3 – بچوں کے اُجرت پر کام کرنے پر پابندی لگایُ جاےُ. انہیں سکول بھیجا جاےُ.
سفارش.
ہمارے ملک میں سفارش کا چلن عام ہے. حکومتی محکموں میں کسی اسامی کے لیےُ اخبارات میں اشتہار دیےُ جاتے ہیں. ( کیونکہ اشتہار دینا ایک مجبُوری ہے ) لوگ اسامی کے لیےُ درخواستیں بھیجتے ہیں.، انٹرویو کے لیےُ امیدواروں کو بُلایا جاتا ہے. کچھ لوگوں کے انٹرویو بھی ہوتے ہیں ، پھر دفتر کا وقت ختم ہو جاتا ہے، اور امید واروں کو اپنے گھروں کو واپس جانا پڑتا ہے. یہاں معاملہ کُچھ یُوں ہوتا ہے کہ ” صاحب ” کو اس کے کسی عزیز ، قریبی رشتہ داریا کسی بڑے سرکاری افسر کی سفارش آ جاتی ہے. اور اُن کے ” امیدوار ” کا چناؤ ہو جاتا ہے. یہاں ان امیدوارون کا احساس محرومی اور بڑھ جاتا ہے جو انٹرویو کے لیےُ گیےُ اورناکام واپس گھر لوٹ آےُ.
کیا کیا جاےُ: ؟
نمبر 1 – سفارش کرنے اور سفارش ماننے والے کو سخت سزاییُں دی جاییُں.
نمبر 2 – ہر دفتر میں ایک آدھ ملازم ایسا ہو جو اپنے ارد گرد کے دفاتر میں سفارش کی رپورٹ ایک خاص طور پر قایُم کیےُ گیےُ محکمہ کو بھیجے، اور اس رپورٹ پر باقاعدہ عمل بھی ہو. اور سفارش کرنے اور ماننے والے کوسزا دی جاےُ.
غُربت
غربت ہزار بُراییُوں کی جڑ ہے. بدقسمتی سے اپنے مُلک کے 50 فی صد سے زیادہ لوگ خط غُربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں. یہاں پر امیر بہت زیادہ امیر ہے اور غریب بہت زیادہ غریب ہے. امیر اپنے حال میں مست ہے . حکومت کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ غُربت کیسے ختم کریں. ہمارے ہاں ایک خاص طبقہ حکومت کر رہا ہے. ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک ہر دفعہ الیکشن جیت کر حکومت کر رہے ہیں. ان زمینداروں کے مزارعین ان کے خلاف کسی کو ووٹ کیسے دے سکتے ہیں. اس لیےُ یہ ہر اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں. پاکستان کو بنے 76 سال ہو گیےُ ہیں. کیا ان زمینداروں پر کویُ زرعی ٹیکس لگا ؟. زرعی اصلاحات تو پاکستان کے لیےُ ایک خواب ہیں. بھُٹو نے کچھ زرعی اصلاحات کیں ، پھر اُس نے بھی ہار مان لی. اتنے فوجی ڈکٹیٹر آےُ، لیکن کسی میں یہ قدم اُٹھانے کی جُرات نہ ہُویُ. ذمیندار آج بھی اپنے ہاریوں کا ان داتا ہے.
گاؤں کے غریب لوگ اپنی قسمت آزمانے کسی شہر آتے ہیں. یہاں پر انہیں دیہاڑی دار مزدُور کا عہدہ ہی ملتا ہے. جس سے وہ بہ مشکل اپنی رہایُش اور خوراک کا انتظام کر سکتا ہے. کبھی دیہاڑی نہیں لگتی . ایسے لوگوں کا وقت کیسے گزرتا ہے، یہ وُہی جانتے ہیں. وہ تو بس اپنے احسا س محرومی میں اضافہ ہی کر رہے ہوتے ہیں.
کیا کیا جاےُ:
نمبر 1 -. زرعی اصلاحات لاگو کی جاییُں. ہاری جو زمین کاشت کر رہے ہیں، انہیں اس زمین کا مالک بنایا جاےُ، اس زمین کی قیمت ان سے قسطوں میں وصول کی جاےُ.
نمبر2 – ہاریوں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے سکولوں میں داخل کیا جاےُ.
نمبر3 – 14 سال کی عُمر سے بڑے بے روزگار بچوں کو ہُنر مُفت سکھاےُ جاییُں .
یہ کام غلط ہے.
آج کل اخبارات میں روزانہ ایک آدھ خبر اس طرح کی ہوتی ہے کہ ” غُربت سے تنگ باپ نے خود کُشی کر لی ” ، ” بھُوک سے تنگ آ کر ماں اپنے 3 بچوں سمیت نہر میں کُود گییُ ” ان غریبوں کے پاس اس کے علاوہ کویُ دوسرا راستہ نہیں ہوتا. لیکں خود کُشی بہرحال حرام ہے. ذندگی اللہ تعالے نے دی ہے، اسے واپس لینے کا اختیار بھی اُسی کے پاس ہے. خودکشی کرنے والا اپنی جان لےکر گویا اللہ کے زندگی دینے اور لینے میں سے لینے کا اختیار خود لے لیتا ہے، اس طرح وہ اللہ تعالے کے اختیارات میں شریک ہو جاتا ہے. یہ شرک ناقابل مُعافی ہے. اللہ تعالے سب گناہ بخش سکتا ہے لیکن شرک کی معافی نہیں اور اس کی سزا دایُمی جہنم ہے. خودکُشی والا کام نہ کریں. یہ کام غلط ہے.
احساس محرومی کے شکار بعض لوگ اپنی محرومیوں کا انتقام لینے کے لیےُ منفی راستے اختیار کر لیتے ہیں. وُہ لوگوں کو لُوٹنا شروع کر دیتے ہیں، چوری چکاری، فراڈ اور اسی قسم کے دوسرے ناجایُز کام شروع کر دیتے ہیں. ان کاموں سے جو پیسہ اکٹھا ہوتا ہے، اُسے بے تحاشا خرچ کر کے اپنی محرومیوں کی تسکین کا سامان کرتے ہیں. بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں، اور ہوٹل ملاامین کو تگڑی ٹپ دیں گے. آور جب ملازمین انہیں سلام کرتے ہٰیں تو فخر سے سر اونچا کر لیتے ہیں. اس قسم کے کام سے انہیں بہت خوشی حاصل ہوتی ہے. لیکن جن ذرایُع سے یہ پیسہ حاصل کرتے ہیں وہ بہر حال قابل مزمت ہیں. اسی لیےُ یہ کا م بھی غلط ہیں.
کیا کیا جاےُ:؟
غلط کاموں میں گرفتار لوگوں کو سخت سزایُیں دی جاییُں . اسلامیہ جمہوریہ پاکستان مین جرایُم کے لیےُ اسلامی سزایُیں نافذ کی جاییُں. چوری ثابت ہونے پر چور کے ہاتھ کاٹ دیُے جاییُں. سعودی عرب میں چور کی یہی سزا مقرر ہے. وہاں کویٰ چوری نہیں ہوتی. قتل کی سزا پھانسی، زنا کی سزا ، لوگوں کی موجودگی میں 80 کوڑے مارے جاییُں. اسلامی نظریاتی کونسل سے گناہوں پر اسلامی سزاؤں کے سلسلے میں مدد لی جا سکتی ہے. پاکستان لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بنا تھا. آج پاکستان کو بنے 76 سال ہو گییےُ ہیں. لیکن اسلامی دستور لاگو کرنے کے کویُ آثار نظر نہیں آتے. ذمہ داراں قیامت کے دن اس التوا کی جواب دیہی کے لیےُ تیار رہیں.
ہمارے سلگتے مسایپل نمبر 3 پڑھنے کے لیےُ ” ہمارے سلگتے مسایُل 3، اندھی عقیدت ” پڑھیں.
اللہ تعالے ہم سب کو رزق حلال کمانے کی توفیق عطا فرماےُ. آ مین.
3 Responses
This platform is phenomenal. The magnificent data uncovers the proprietor’s excitement. I’m shocked and expect additional such astonishing sections.
It seems like you’re repeating a set of comments that you might have come across on various websites or social media platforms. These comments typically include praise for the content, requests for improvement, and expressions of gratitude. Is there anything specific you’d like to discuss or inquire about regarding these comments? Feel free to let me know how I can assist you further!
Thanks for extending your helping hands. I will let you know when i need your help. Thanks again.