مرزا صاحباں – قصّہ ناکام محبت کا. قسط نمبر 1
Story of unsuccessful Affection
عنوانات :
نمبر 1 = تعارف
نمبر 2 = مرزا جٹ کی پیدایُش اور بچپن.
نمبر 3 = صاحباں کی پیدایُش اور بچپن.
نمبر 4 = جوانی دیوانی
نمبر 1 = تعارف
مرزا صاحباں – قصہ ناکام محبت کا , کو پوری طرح سنجھنے کے لیےُ درج ذیل معلومات ضروری ہیں.
صوبہ پنجاب میں دریاےُ چناب کے دایُیں طرف کا علاقہ ” چج دوآبہ ” کہلاتا ہے. دریاےُ چناب کا شروع کا حرف ” چ ” اور دریاےُ جہلم کا شروع کا حرف ” ج ” دونوں مل کر ” چج ” کا لفظ بنا تے ہیں.
دریاےُ چناب کے دایُیں طرف دریاےُ جہلم بہتا ہے. اور بایُیں طرف دریاےُ راوی بہتا ہے. دریاےُ چناب اور دریاےُ راوی کے درمیانی علاقے کو ” رچنا دوآبہ ” کہتے ہیں، لفظ رچنا دریاےُ راوی کا پہلا اور دریاےُ چناب کے ابتدایُ تین حروف سے مل کر بنا ہے.
رچنا دوآبہ کے ایک علاقے کو ” ساندل با ر” کہا جاتا ہے. یہ علاقہ شرقآ غربآ 80 کلو میٹر لمبا اور شمالآ جنوبآ 40 کلو میٹر چوڑا ہے. اسے پنجاب کے ایک ہیرو دُلّا بھٹّی کے دادا ” ساندل ” کے نام پر ساندل بار کہا جاتا ہے. ساندل اسی علاقے کا رہنے والا تھا. شروع میں ساندل بار کا تمام علاقہ ضلع جھنگ میں شامل تھا. اب یہ فیصل آباد، جھنگ، کمالیہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع پر مشتمل ایک علاقہ ہے.
ساندل بار کے علاقے میں درجنوں پنجابی قبایُل آباد ہیں. ان کی زبان اور ثقافت تقریبآ ایک جیسی ہے. ان کی آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں. اسی ساندل بار کے علاقہ کا ایک راجپوت قبیلہ ” کھرل ” ہے. کھرل اپنے آپ کو اگنی وشی پنہور کی اولاد بتاتے ہیں. ( نام میں تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے. اگر یہ نام غلط ہے تو ادارہ معذرت خواہ ہے. براہ کرم ادارہ کو صحیح نام سے مطلع فرمایُیں. پیشگی شکریہ. )
اس کہانی کے مرکزی کردار ” مرزا جٹ ” کا تعلق اسی کھرل قبیلے سے ہے.
کھرلوں کا دعوے ہے کہ ان کا جد امجد مہا بھارت ( ہندوؤں کی مشہور رزمیہ داستان ) کا مرکزی کردار راجا کرن ہے. جو انگہ ( موجودہ بھاگل پُور ) کا بادشاہ تھا. اس کرن کا ایک جانشین 13ویں عیسوی صدی میں اپنے بیٹے کھرل کے ہمراہ اُچ شریف آیا اور مخدُوم جھانیاں شاہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا. یہاں سے کھرل دریاےُ راوی کے کنارے پھیل گیےُ . اب وہ ضلع وہاڑی، فیصل آباد، ساہی وال، حافظ آباد، اوکاڑہ، ننکانہ صاحب، شیخوپورہ، گوجرانوالا، بہاول نگر اور چشتیاں میں آباد ہیں.
کھرل شروع میں خانہ بدوش تھے. چودہویں صدی میں کمال خاں نے ایک قدیم قصبے کو آباد کیا . اسے اب کمالیہ کہتے ہیں. کمالیہ اور اس کے ارد گرد کھرلوں کے پڑوسی ” سیال قبیلہ ” کے لوگ تھے. جن کا آبایُ وطن جھنگ سیال ہے. کھرل اور سیالوں نے مخصوص علاقوں میں آباد ہو کر اپنی اہنی ریاستیں قایُم کر لیں.
محققیں سیال قبیلے کو نو مسلم قبایُل میں شمار کرتے ہیں. سیال اُس وقت مسلمان ہُوےُ جب پنجاب میں اسلام کو آےُ ہُوےُ کچھ عرصہ گزر چکا تھا.
سیال قبیلہ جاٹ برادری کی ایک ذیلی شاخ ہے. اس طرح سیال سکھوں اور عیسایُیوں میں بھی پاےُ جاتے ہیں. بلوچستان کے اضلاع جعفر آباد، نصیر آباد اور بولان میں بھی سیال آباد ہیں. بلوچستان کا ” رند ” قبیلہ بلوچی زبان بولتا ہے. سیالوں نے اپنے مخالف قبایُل سے جنگ کی اور ساندل بار کے علاوہ چج دوآبہ کے ایک بڑے حصّے پر قبضہ کر لیا.
مرزا صاحباں کی داستان کی مرکزی کردار صاحباں انہی سیالوں کی بیٹی تھی.
مرزا صاحباں کا قصّہ پنجابی زبان میں 30 سے زیادہ شاعروں نے لکھا ہے لیکن کسی شاعر نے نہیں لکھا کہ یہ قصّہ کس زمانے کا ہے. نعض لوگ یہ مانتے ہیں کہ مرزا صاحباں کا قصّہ ایک شاعر ” پیلو ” نامی شاعرکا لکھا ہُؤا ہے. مگر پیلو کے متعلق کچھ پتہ نہیں کہ وہ کس زمانے میں حیات تھا. سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو کے زمانے میں ایک پیلو نامی شاعر تھا ، مگر وہ ہندُو تھا. اندازہ ہے کہ مرزا صاحباں کا وجود لودھیوں کے آخری عہد یا مغلوں کے ابتدایُ زمانے کا ہے. یہ عرصہ 1520 عیسوی سے 1540 عیسوی کا درمیانی عرصہ بنتا ہے. بعض محققّین نے اسے مغل بادشاہ اکبر کے زمانہ 1556 عیسوی سے 1605 عیسوی تک کے درمیانی عرصہ کی ایک سچّی کہانی قرار دیا ہے.
سن 1884 عیسوی میں میں ایک انگریز مستر آر سی کیمپل نے اسے اپنی انگریزی کتاب ” د ی لیجنڈ آف پنجاب ” میں اس قصے کو نقل کیا تھا . مگر یہاں کہانی جگہ جگہ سے ٹوٹتی ہے.
نمبر 2 = مرزا جٹ کی پیدایُش اور بچپن
مرزا کا تعلق کھرل قبیلہ سے تھا. جس کی حکمرانی دریاےۃ راوی کے دایُیں کنارے پر تسلیم کی جاتی تھی . موجودہ تحصیل جڑانوالا کا گاؤں ” دانا آباد ” مرزا کی جاےُ پیدانش تھی. مرزا کے باپ کا نام راےُ ونجل تھا. ماں کا نام فتح بی بی تھا. بعض لوگ مرزے کی ماں کو صاحباں کے باپ خان کھیوہ کی رضایُ بہن کہتے ہیں- واللہ عالم.
مرزا کا باپ مرزا کے بچپن میں ہی فوت ہو گیا. مرزا کو بچپن میں ہی اُس زمانے کے رواج کے مطابق پڑھنے کے لیےُ اس کے ماموں کے پاس بھیج دیا گیا. جہاں وہ اور صاحباں ایک ہی مسجد میں اکٹھے پڑھنے لگے.
نمبر 3 = صاحباں کی پیدایُش اور لڑکپن.
موجودہ جھنگ – چنیوٹ روڈ پر جھنگ سے آٹھ دس میل کے فاصلہ پر ” کھیوا ” نام کا ایک گاؤں آباد ہے. اس زمانے میں یہ کافی بڑا قصبہ تھا .اس قصبہ کا حاکم ، قبیلے کا سردار خان کھیوا کہلاتا تھا. جس کا تعلق ماہنی سیال قبیلے سے تھا. صاحباں اسی خان کھیوا کی بیٹی تھا. صاحباں کی پیدایُش پر بڑا جشن منایا گیا.
گھر کھیوے دے صاحباں، جمّی منگل وار
ڈُوم سوہلے گاؤندے ، خان کھیوے دے بار
اردو ترجمہ = کھیوے خان کے ہاں صاحباں منگل وار کو پیدا ہُویُ.
مراثیوں نے خان کھیوے کی تعریفوں کے پُل باندھ دیُے.
صاحباں کا لڑکپن کھیوا کی گلیوں میں کھیلتے گُزرا. ذرا بڑی ہُویُ تو رواج کے مطابق پڑھنے کے لیےُ مرزا کے ہمراہ کھیوا کی مسجد میں جانے لگی. یہیں سے دونوں کے دلوں میں پیار نے ڈیرہ جمانے شروع کیےُ. ایک دفعہ سبق یاد نہ کرنے پرقاضی صاحب نے دونوں کو اپنی چھمک سے مارا تو صاحباں نے کہا
نہ مار قاضی چھمکاں، نہ دے تتّی نوں تا
پڑھنا ساڈا رہ گیا، لے آےُ عشق لکھا
اردو ترجمہ = قاضی صاحب ! ہمیں چھمکوں سے نہ مارو، نہ غصّہ دلاؤ
ہماری پڑھایُ تو پیچھے رہ گیُ، ہم تو قسمت میں عشق لکھا کر آےُ
ہیں.
قاضی صاحب نے پہچان لیا کہ دونوں کے دلوں پر پیار کا تیر چل چُکا ہے اور اب یہ مزید نہیں پڑھ سکیں گے. ان کے سمجھانے پر خان کھیوا نے دونوں کو مسجد کے مدرسے سے اُتھا لیا. مرزا کو اُس کے اپنے گاؤں بھیج دیا.
نمبر 4 = جوانی دیوانی
مرزا واپس اپنے گاؤں آ گیا. دن رات صاحباں کی یاد میں ڈُوبا رہنے لگا. کچھ عرصہ بعد خُود کو سمجھایا اور اس زمانہ کے سرداروں کی طرح گھُڑ سواری، نیزہ بازی خصوصآ تیر اندازی میں مہارت حاصل کر لی. انہی مشاغل میں مشغول ہونے کے باوجود صاحباں کی یاد کو اپنے دل سے بھُلا نہ سکا.
صاحباں جوان ہو چکی تھی. اس کے حُسن بے مثال کے چرچے چاروں طرف پھیل گیےُ . مرزا اور صاحباں کا رشتہ ہو سکتا تھا ، لیکن صاحباں کی سوتیلی ماں آڑے آ گییُ.
صاحباں مرزے کے عشق میں دیوانی تھی. وہ پیروں فقیروں کے مزاروں پر جا کر دُعایُیں مانگنے لگی . مشہور ولی شاھ مقیم کے حُجرے پر جا کر دُعا مانگی :
حُجرہ شاہ مقیم دے اک جٹّی عرض کرے
بکرا دیواں میں پیر دا، جے میری عرض سُنے
کُتّی مرے فقیر دی، جیہڑی چوں چوں نت کرے
ہٹّی سڑے کراڑ دی، جتھّے دیوا نت بلے
پنج ست مرن گواڈھناں ، رہندیاں نوں تاپ چڑھے
سُنجیاں ہو جاہن گلیاں، تے وچ مرزا یا پھرے
اردو ترجمہ: شاہ مقیم کے حُجرے پر جا کر ایک جٹّی ( صاحباں) نے عرض کی.
اگر میری مراد بر آےُ تو میں مرشد کے حضور ایک بکرا نذر کروُں گی. ّ
عرض یہ ہے کہ گاؤں سے تھوڑی دۃور ایک فقیر کی جھُگّی ہے . جس میں موجود ایک کتّی ساری رات بھونک بھونک کر سب کو جگاےُ رکھتی ہے. دُعا کریں وہ مر جاےُ اور لوگ آرام سے سوےُ رہیں.
گاؤں مین موجُود ہندُو کی دُکان ( جہاں ساری رات دیا جلتا رہتا ہے ) کو آگ لگ جاےُ. دیا بجھ جاےُ اور اندھیرے میں مرزا کو کویُ پہچان نہ سکے.
اڑوس پڑوس کی پانچ سات پڑوسن مر جایُں ، باقی رہ جانے والیوں کو بُخار چڑھ جاےُ. ارد گرد سب خاموشی ہو جاےُ.
گاؤں کی ساری گلیان سُنساں ہو جاییُں اور ان میں مرزا بے خوف و خطر پھرے.
ایسا لگتا ہے کہ یہ دُعا اصل قصّے میں شامل نہیں تھی. اسے کسی مسخرے نے بعد میں اس قصّے میں گھسیڑ دیا.
مرزا صاحباں – قصّہ ناکام محبت کا ، کی پہلی قسظ یہاں پر ختم ہوتی ہے، قسط نمبر 2 کا آںٹطآر فرمایےُ.
جاری ہے.