روشن چہرہ – قسط نمبر 1
Bright Face – Part #1
Bright Face
روشن چہرہ روشن چہرہ کیا ہے؟ یہ اپنے پیارے وطن کا چہرہ ہے. پیارا وطن، جس پر جان بھی قُربان ہے. یہ وطن اُن لاکھوں شہیدوں کی امانت ہے ، جو اس وطن کی سرزمین پر اپنا قدم رکھنے کی خواہش میں اپنا سب کچھ لُٹا کر راستے مہیں ہی شہید کر دےُ گیےُ.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان شہیدوں کو کس نے اور کیسے دفن کیا. اس ہجرت میں بڑے ہولناک واقعات ہُوےُ، جنہیں یاد کر کے اب بھی کلیجہ پھٹنے لگتا ہے. اپنے مُلک کی نیُ پود کو اُن ہولناک واقعات کا پتہ بھی نہیں. اس وقت ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اور جلد ہی دنیامیں بلند مقام حاصل کرے گا. انشا اللہہ.
عنوانات
پُرانا وقت گُزر گیا
لفظ پاکستان کیسے تخلیق ہُؤا
قرارداد پاکستان
آزاد پاکستان
پاکستان 1956 سے 1962 تک
سول وار
پُرانا وقت گُزر گیا
انڈیا کی پارٹیشن کے وقت میری عُمر 13 سال تھی.لُٹے پُٹے ، بے آسرا مہاجرین کی آمد، مقامی لوگوں کی مہاجرین کی امداد، ان کے کھانے پینے کا انتظام گاؤں کے لوگوں نے سنبھال لیا.یہ مجھے آج تک یاد ہے. مہاجرین اُن خالی مکانوں میں رہنے لگے ، جو ہندوستان جاتے ہُوےُ ہندو خالی چھوڑ گےُ تھے. پھر حکومت پاکستان نے مہاجرین کو زرعی زمینیں الاٹ کرنی شروع کر دیں، جہاں مہاجرین نے کاشتکاری شروع کر دی. اب وہ سب اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں، اور اپنے ملک کوغذایُ خوشحالی میں خودکفیل بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں.
دنیا میں پاکستان کے نام کی ایک پہچان ہے. پاکستانی قوم میں آگے بڑھنے کی اُمنگ اور صلاحیت ہے. عام لوگوں کی حالت پہلے کی بہ نسبت بہت بہتر ہے.
ہمارے ملک میں کیا کمی ہے ؟ آییُے، میں آپ کو اپنے مُلک پاکستان کا روشن چہرہ دکھانے کی کوشش کرتا ہُوں.
لفظ پاکستان کیسے تخلیق ہُؤا ؟
مسلم لیڈر چودھری رحمت علی نے 1933 میں نیےُ آزاد مسلم ملک کا نام پاکستان تجویز کیا. لفظ پاکستان ، نیےُ مسلم ملک میں شامل ہونے والے علاقہ جات کے ناموں کے حروف سے لیےُ گیےُ تھے، جن کی تفصیل یُوں ہے ؛
پاکستان کا پہلا حرف پ صوبہ پنجاب کی نمایُندگی کرتا ہے.
پاکستان کا دوسرا حرف ا ،سے مراد افغانیہ ( شمال مغربی سرحدی صوبہ ) جہاں کی اکثریت افغان کہلاتی ہے.اس صوبہ کا موجودہ نام ” خیبر پختُون خواہ ہے.
پاکستان کا تیسرا حرف ک ، کشمیر سے لیا گیا ہے.
پاکستان کا چوتھا حرف س ، صوبہ سندھ کی نمایُندگی کرتا ہے.
پاکستان کے آخری تین حروف “تان ” صوبہ بلوچستان کی نمایُندگی کرتے ہیں.
ان سارے حروف کو ملا کر ایک لفظ ” پاکستان ” بنتا ہے. چودھری رحمت علی نے صوبہ بنگال کے مسلم اکثریتی علاقوں کو ملا کر اسے ” بنگلہ دیش” کا نام تجویز کیا تھا.
قرارداد پاکستان
قایُد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے لیےُ ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کی کوششیں میں عرصہ سے مصروف تھے. اپنے قومی شاعر محمد اقبال ان کے شانہ بہ شانہ مدد کرتے رہے. دیگر مسلم مشاہیر بھی ہمراہ تھے
آل انڈیا مسلم لیگ کے سرکردہ راہنماؤں کی کوششوں سے ایک مسودہ تیار کیا گیا جسے قرارداد لاہور کا نام دیا گیا، اور بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوُا.. اسے 23 مارچ 1940 کو منٹو پارک ، جسے آجکل اقبال پارک کہتے ہیں ، کے جلسے میں اتفاق سے منظور کیا گیا.
آزاد پاکستان
انیس سو چھیالیس کے عام انتخابات میں محمد علی جناح کی راہنمایُ میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلم اکثریتی علاقوں میں اکثریت حاصل کر لی. ان انتخابات میں مسلمانوں نے کمال یک جہتی کا مظاہرہ کیا. میں ان انتخابات کا چشم دید گواہ ہُوں. مسلمانوں کا جوش قابل دید تھا. لوگ ایک جگہ بیٹھ کر اللہ کو گواہ بنا کر قسمیں اُٹھاتے تھے کہ ہم صرف اور صرف مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے. مسلم لیگ کےامیدواروں کے مقابل امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گییُں.
الیکشن کے بعد ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی حکومتیں قایُم ہو گییُں. برطانوی حکومت نے ہندوستان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کر لیا. جس کے لیےُ ایک باؤنڈری کمیشن بنایا گیا. جس کا سربراہ ” رڈ کلف ” تھا. پنجاب کی تقسیم کرتے ہُؤےُ اس نے مسلم اکثریتی ضلع گورداس پور کا علاقہ انڈیا کو دے دیا. اگر یہ ضلع پاکستان میں شامل ہو جاتا تو انڈیا کے لیےُ کشمیر جانے کا راستہ بند ہو جاتا.
چودہ اگست 1947 کو پاکستان بننے کے بعد اس کا داررالحکومت کراچی کو بنا دیا گیا.قایُد اعظم اعظم محمد علی جیناح گورنر جنرل اور لیاقت علی خاں وزیر اعظم بنے. ابھی ہم مکمل آزاد نہیں تھے. ملک کےسربراہ گورنر جنرل کو ملکہ برطانیہ نامزد کرتی تھی. ہماری آرمی کا نام رایُل پاکستان آرمی ہؤا کرتا تھا.
قایُد اعظم 1948 میں وفات پا گیےُ. اس کے بعد لیاقت علی خاں کو قتل کر دیا گیا. آن کے قتل کا سبب اور قاتل کون تھا، یہ آج تک پتہ نہیں چل سکا.
اسلامی جمہوریہہ پاکستان
عوام اور قوم کے سرکردہ راہنماؤں نے برطانیہ کی سرپرستی کے دُم چھلے سے آزاد ہونے کا فیصلہ کر لیا. چنانچہ اس کے اعلان کے لیےُ 23 مارچ 1956 کا دن مقرر کیا گیا. اس تاریخ کو جمعہ کا دن تھا. چنانچہ 23 مارچ 1956 بروز جمعہ پکستان سرکاری طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار پایا. سکندر مرزا ملک کے صدر بنے.
پاکستان-1956 سے 1962 تک
قایُد اعظم کی وفات کے بعد ملک کے حالات ٹھیک طرح سے چل نہ سکے. اقتدار کی کشمکش نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا . ملک کے صدر سکندر مرزا نے 1958 میں پاکستان کے آییُن کو معطل کر کے ملک میں مارشل لگا دیا. جلد ہی جنرل ایوب خاں ، جو اس وقت پاکستان آرمی کے چیف تھے، نے سکندر مرزا کو معطل کر کے خود اقتدار سنبھال لیا.
جنرل ایوب خاں نے ملک میں صدارتی نظام نافد کر دیا. ملک میں ” بُنیادی جنہوریتیوں ” کا نظام متعاف کرایا. پورے ملک میں یونین کونسلوں کے انتخابات ہوےُ. ایوب خاں کے نافذ کردہ نظام میں یہی منتخب ارکان یونین کونسل صدر پاکستان کا انتخاب کرتے تھے.
ایوب خاں 10 سال تک حکومت کرتے رہے. انہی کے دور حکومت میں 1965 میں انڈیا کے ساتھ جنگ ہویُ. اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم لال بہادر شاسری تھے. یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک میں جتنی ترقی ایوب خاں کے دور حکومت میں ہُویُ، کسی دوسرے کے دور میں نہیں ہویُ.
ہم پاکستانی کسی بھی شخص کے لمبے عرصہ تک اقتدار میں رہنا برداشت نہیں کرتے. ملک کے عوام ایوب خاں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوےُ. ایوب خاں نے اقتدار جنرل یحیے خاں کے حوالے کیا، اور خود گوشہ نشین ہو گیےُ.
سول وار
سن انیس سو اکہتر کے الیکشن میں مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھُٹو کی زیر قیادت پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکشن میں اکثریت حاصل کر لی. مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے میدان مار لیا. مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی. ایک فرد ایک ووٹ کے فارمولے کے تحت مشرقی پاکستان میں منتخب عوامی نمایُندگوں کی تعداد زیادہ تھی، قانون کے مطابق وزیر اعظم مشرقی پاکستان سے بننا چاہیےُ تھا. لیکن پیپلز پارٹی اس کے حق میں نہ تھی. یہاں اقتدار کی ہوس میں لوگوں سے کیُ غلطیاں ہُویُں . مشرقی پاکستان کو اس کا حق نہ دیا گیا. لوگ مغربی پاکستان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہُوےُ. سول وار شروع ہو گیُ. ہمارے ازلی دُشمن انڈیا نے مشرقی پاکستان کی ” مُکتی باہنی” کی مدد کے لیےُ اپنی فوج بھیج دی. یہ سول وار تقریبآ 9 ماہ جاری رہی. وہاں پر موجود ہماری فوج نے مرکزی قیادت کے حکم پر ہتھیار ڈال دیےُ. اسلامی تاریخ میں اتنی تعداد میں اسلامی فوج کا ہتھیار ڈالنا پہلا واقعہ تھا. سارا ملک سوگوار ہو گیا. ہمارے تقریبآ 70 ہزار فوجی انڈیا میں قید رہے. یہ قیدی شملہ معاہدے کے تحت واپس پاکستان لوٹے.
اس وقت ملکی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں، اس کی کییُ وجوہات ہیں ان وجوہات کو جاننے کے لییےُ ہمارا آرٹکل ” ہمارے سلگتے مسایُل قسط -1، امن ” پڑھییےُ.
باقی حالات قسط نمبر 2 میں پڑھیےُ.